ہندوستان کی ایک مایہ ناز علمی و دینی ہستی اسی ماہ ستمبر میں سن 2007ء میں اس دارفانی سے رخصت ہو گئی تھی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
اللہ رب العزت مولانا مختار احمد ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ، آمین۔
مولانا مختار احمد ندوی 1930ء میں ہندوستانی ریاست اُترپردیش کے مشہور شہر مئو کے وشوناتھ پورہ محلہ میں پیدا ہوئے تھے۔
کئی اداروں سے بھر پور علمی استفادہ کے بعد کلکتہ جامع مسجد اہل حدیث میں خطیب ، امام ، مفتی اور مناد کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ تک مقرر رہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا ، صحافت وخطابت کے ذوق کی بنا پر ’اخبار اہل حدیث دہلی‘ کی مجلس ادارت سے منسلک ہوئے اور کئی علمی مقالے آپ نے تحریر فرمائے۔ سلفی العقیدہ کتب کی نشر واشاعت کے لیے عالم اسلام کا معروف و مشہور ادارہ الدارالسلفیہ : بمبئی قائم کیا جس کے ذریعہ سے چھوٹی بڑی تقریبا تین سو کتابیں شائع کروائیں۔ آج سے اٹھارہ سال قبل اپنا ذاتی ماہنامہ البلاغ : بمبئی جاری کیا تھا ، جو اپنی نوعیت کا منفرد ماہنامہ ہے اور جس کو قبولیت عام حاصل ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مولانا محترم اس قدر خوش نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے اپنے دین کی عظیم الشان خدمت لی ہے۔ آپ تھے تو فردِ واحد، لیکن ایک امت کا کام کرگئے ہیں۔
ادارہ اصلاح المساجد ممبئی کے تحت انڈیا میں کشمیر سے کنیا کماری تک مساجد کا جال بچھا دیا۔ محسنین کے تعاون سے چھوٹی بڑی تقریباً چار سو مساجد تعمیر کروائیں۔ اتنے بڑے ملک کا شاید ہی کوئی صوبہ ہوگا جو آپ کے فیض سے محروم رہا ہو، مولانا نے ملک کے تقریباً ہر صوبے کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں پہنچ کر توحید وسنت کو متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔ اسی لیے اہل علم کے علاوہ ملک کے عوام بھی آپ سے بھر پور واقف تھے۔
بچوں کی دینی وعصری تعلیم کے لیے مالیگاؤں، مئو ناتھ بھنجن اور بنگلور وغیرہ میں قلعہ نما بڑے بڑے ادارے قائم کئے۔ ملک کا ممتاز یونانی محمدیہ میڈیکل کالج اور ریسرچ سنٹر قائم کیا۔
سن 1992ء میں عالم اسلام کی معروف شخصیت ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف ، رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے تقریباً چالیس اصحاب حل وعقد کے وفد کے ساتھ چارٹرڈ فلائٹ سے جب جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں تشریف لائے اور جامعہ کے معائنہ کیا تو حیران ہوکر فرمایا تھا : دیکھئے شیخ مختار کس قدر نشیط ہیں ملک کے سربراہوں اور سلطانوں کے کرنے کے کام آپ کر رہے ہیں !!
جماعت اہل حدیث ہند میں آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے لاکھ مخالفت کے باوجود لڑکیوں کے لیے بھی دینی تعلیم کا انتظام کرتے ہوئے اقامتی درسگاہیں کلیہ عائشہ صدیقہ منصورہ مالیگاؤں، کلیہ فاطمہ الزہراء مئو ، کلیہ عائشہ الصدیقہ بنگلور وغیرہ بنایا جہاں سے سینکڑوں لڑکیاں پڑھ کر دنیا کے کونے کونے میں حتٰی کہ یورپ، کینیڈا، امریکہ میں بھی دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ الحمدللہ۔
آپ 1979ء سے 1989ء تک مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے نائب امیر، پھر 1989ء سے 1990ء تک کار گزار امیر اور 1990ء سے 1997ء تک جماعت کے امیر کے منصب پر فائز رہے، اس دوران ملک میں جماعت کے مورال کو بہت بلند کیا، نیز مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر ہوتے ہوئے مرکزی جمعیت کے مرکز اور اس کے دفاتر کے لیے محسنین کے تعاون سے دہلی میں شاہی جامع مسجد کے قریب ایک بڑی عمارت (جس کی مالیت آج کئی کروڑ میں ہوگی اور جو آج ’اہل حدیث منزل‘ کے نام سے جانی جاتی ہے) خرید کر جماعت کے لیے وقف کیا۔
مولانا موثر خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ نڈر صحافی اور منجھے ہوئے ادیب بھی تھے۔ عربی اور اردو ادب پر آپ کو کمال حاصل تھا۔
سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ سے آپ کا بہت ہی خاص تعلق تھا۔ شیخ محترم نے مولانا سے اپنی اور دوسرے مشائخ کی کئی کتابوں کا اردو ترجمہ کروایا، انہی کتابوں میں ایک اہم کتاب التحقیق والایضاح لکثیر من مسائل الحج والعمرۃ والزیارۃ بھی ہے، حج وعمرہ اور زیارت کے مسائل پر مشتمل مولانا کا ترجمہ کیا ہوا یہ کتابچہ پچھلے کئی سالوں سے برصغیر کے حاجیوں اور معتمرین کو سعودی حکومت بطور ہدیہ برابر دیتی آرہی ہے۔
اللہ تعالی اپنے اس توحید پرست دین کے سچے خادم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آپ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے اور آپ کی دانستہ وغیر دانستہ جملہ خطاؤں کو درگزر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
اللہ رب العزت مولانا مختار احمد ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ، آمین۔
مولانا مختار احمد ندوی 1930ء میں ہندوستانی ریاست اُترپردیش کے مشہور شہر مئو کے وشوناتھ پورہ محلہ میں پیدا ہوئے تھے۔
کئی اداروں سے بھر پور علمی استفادہ کے بعد کلکتہ جامع مسجد اہل حدیث میں خطیب ، امام ، مفتی اور مناد کی حیثیت سے ایک طویل عرصہ تک مقرر رہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو بہت ساری خوبیوں سے نوازا تھا ، صحافت وخطابت کے ذوق کی بنا پر ’اخبار اہل حدیث دہلی‘ کی مجلس ادارت سے منسلک ہوئے اور کئی علمی مقالے آپ نے تحریر فرمائے۔ سلفی العقیدہ کتب کی نشر واشاعت کے لیے عالم اسلام کا معروف و مشہور ادارہ الدارالسلفیہ : بمبئی قائم کیا جس کے ذریعہ سے چھوٹی بڑی تقریبا تین سو کتابیں شائع کروائیں۔ آج سے اٹھارہ سال قبل اپنا ذاتی ماہنامہ البلاغ : بمبئی جاری کیا تھا ، جو اپنی نوعیت کا منفرد ماہنامہ ہے اور جس کو قبولیت عام حاصل ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مولانا محترم اس قدر خوش نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے اپنے دین کی عظیم الشان خدمت لی ہے۔ آپ تھے تو فردِ واحد، لیکن ایک امت کا کام کرگئے ہیں۔
ادارہ اصلاح المساجد ممبئی کے تحت انڈیا میں کشمیر سے کنیا کماری تک مساجد کا جال بچھا دیا۔ محسنین کے تعاون سے چھوٹی بڑی تقریباً چار سو مساجد تعمیر کروائیں۔ اتنے بڑے ملک کا شاید ہی کوئی صوبہ ہوگا جو آپ کے فیض سے محروم رہا ہو، مولانا نے ملک کے تقریباً ہر صوبے کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں پہنچ کر توحید وسنت کو متعارف کروانے کی کوشش کی ہے۔ اسی لیے اہل علم کے علاوہ ملک کے عوام بھی آپ سے بھر پور واقف تھے۔
بچوں کی دینی وعصری تعلیم کے لیے مالیگاؤں، مئو ناتھ بھنجن اور بنگلور وغیرہ میں قلعہ نما بڑے بڑے ادارے قائم کئے۔ ملک کا ممتاز یونانی محمدیہ میڈیکل کالج اور ریسرچ سنٹر قائم کیا۔
سن 1992ء میں عالم اسلام کی معروف شخصیت ڈاکٹر عبداللہ عمر نصیف ، رابطہ عالم اسلامی، مکہ مکرمہ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے تقریباً چالیس اصحاب حل وعقد کے وفد کے ساتھ چارٹرڈ فلائٹ سے جب جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں تشریف لائے اور جامعہ کے معائنہ کیا تو حیران ہوکر فرمایا تھا : دیکھئے شیخ مختار کس قدر نشیط ہیں ملک کے سربراہوں اور سلطانوں کے کرنے کے کام آپ کر رہے ہیں !!
جماعت اہل حدیث ہند میں آپ پہلے شخص ہیں جنہوں نے لاکھ مخالفت کے باوجود لڑکیوں کے لیے بھی دینی تعلیم کا انتظام کرتے ہوئے اقامتی درسگاہیں کلیہ عائشہ صدیقہ منصورہ مالیگاؤں، کلیہ فاطمہ الزہراء مئو ، کلیہ عائشہ الصدیقہ بنگلور وغیرہ بنایا جہاں سے سینکڑوں لڑکیاں پڑھ کر دنیا کے کونے کونے میں حتٰی کہ یورپ، کینیڈا، امریکہ میں بھی دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ الحمدللہ۔
آپ 1979ء سے 1989ء تک مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے نائب امیر، پھر 1989ء سے 1990ء تک کار گزار امیر اور 1990ء سے 1997ء تک جماعت کے امیر کے منصب پر فائز رہے، اس دوران ملک میں جماعت کے مورال کو بہت بلند کیا، نیز مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کے امیر ہوتے ہوئے مرکزی جمعیت کے مرکز اور اس کے دفاتر کے لیے محسنین کے تعاون سے دہلی میں شاہی جامع مسجد کے قریب ایک بڑی عمارت (جس کی مالیت آج کئی کروڑ میں ہوگی اور جو آج ’اہل حدیث منزل‘ کے نام سے جانی جاتی ہے) خرید کر جماعت کے لیے وقف کیا۔
مولانا موثر خطیب ہونے کے ساتھ ساتھ نڈر صحافی اور منجھے ہوئے ادیب بھی تھے۔ عربی اور اردو ادب پر آپ کو کمال حاصل تھا۔
سماحۃ الشیخ ابن باز رحمہ اللہ سے آپ کا بہت ہی خاص تعلق تھا۔ شیخ محترم نے مولانا سے اپنی اور دوسرے مشائخ کی کئی کتابوں کا اردو ترجمہ کروایا، انہی کتابوں میں ایک اہم کتاب التحقیق والایضاح لکثیر من مسائل الحج والعمرۃ والزیارۃ بھی ہے، حج وعمرہ اور زیارت کے مسائل پر مشتمل مولانا کا ترجمہ کیا ہوا یہ کتابچہ پچھلے کئی سالوں سے برصغیر کے حاجیوں اور معتمرین کو سعودی حکومت بطور ہدیہ برابر دیتی آرہی ہے۔
اللہ تعالی اپنے اس توحید پرست دین کے سچے خادم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آپ کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے اور آپ کی دانستہ وغیر دانستہ جملہ خطاؤں کو درگزر فرمائے۔ آمین ثم آمین۔