ہنسنا منع ہے
پیٹو ابن ہبیرہ
بنی امیہ کے گورنروں میں ابن ہبیرہ مشہور"تلقاموں" میں تھا جس نے حضرت مام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ سے کو تازیانوں سے پیٹا ہے ۔لکھا کہ :پیٹو ابن ہبیرہ
" صبح ہو نے کے ساتھ پہلا کام ابن ہبیرہ کا (حاجات ضروری اور نماز وغیرہ سے فارغ ہو نے کے بعد) یہ تھا کہ دودھ کا ایک بڑا پیالہ اس کے سامنے پیش کیا جاتا تھا شہد یا شکر کو پیالے میں رکھ کر دودھ کو اسی میں دوھتے تھے اور اسی تازہ تازہ دودھ کے " قدح کبیر " کو وہ چڑھا جاتا تھا ۔آفتاف جب نکلتا تب نا شتہ حاضر کیا جاتا تھا ۔یہ ناشتہ کیا تھا؟ دو تلی ہو ئی مر غیاں، دو کبوتر کے پٹھے اور ایک حیوان کا نصف بھنا ہوا دھڑ اس کے سوا چند دوسرے قسم کے گوشت بھی نا شتے کے اس دستر خوان پر ہو تے تھےاور یہ سب کچھ ایک ابن ہبیرہ کا ذاتی نا شتہ تھا ۔اس کے بعد وہ دفتری کا رو بار میں مشغول ہو جاتا تھا ۔دوپہر تک کام کرتا تھا ۔اس کے بعد دفتر سے اٹھ کر پھر آرام گاہ میں آتا اور اب دو پہر کے کھا نے کا دستر خوان چنا جاتا اس وقت بھی بڑے بڑے لقمے اٹھاتا تھا کیونکہ دو پہر کے کھا نے کے بعد اس کے ساتھ دوسرے ارباب حکومت بھی شریک رہتے تھے ۔ کھانے کے بعد اندر حرم میں چلا جااتا تھا ۔ظہر کی نماز کے لیے پھر بر آمد ہو تا اور نماز کے بعد کا ر وبار میںمشغول ہو جاتا عصر کی نماز پڑھ کر بیٹھتا اس وقت عام عام مجلس ہو تی تھی ۔خود تو تخت پر بیٹھتا تھا اور گردو پیش میں لوگ کرسیوں پر بیٹھتے اس کے بعددودھ شہد کا آمیختہ اور دوسرے قسم کے مشروبات کا دور چلتا اسی عرصے میں پھرد سترخوان بچھ جاتا جس پر کھانے والوں کی ایک بڑی تعداد بیٹھتی تھی عوام کے لیے تو دسترخون ا پر کھانے چنے جاتے تھے اور خود ابن ہبیرہ ااس اس کے مخصوص دربا ریوں کے لیے خوان( یعنی چھوٹے چھوٹے پا ئے کی میز پر رکھی جاتی ہے ۔مغرب کے وقت تک کھانے کا یہ قصہ ختم ہو تا تھا "۔ ہزار سال پہلے۔