حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہہ سے روایت ہے کہ ایک عرب قبیلہ کا سردار عیینہ بن حصن مدینہ آیا اور اپنے بھتیجے حُربن قیس کے پاس ٹھہرا، حربن قیس ان لوگوں میں سے تھے جن کو فاروق اعظم رضی اللہ عنہہ کے پاس بڑی قربت تھی؛ بلکہ وہ اراکینِ شوریٰ میں سے تھے
راوی کا بیان ہے کہ حضرت عمر فاروق کے مقرب وہم نشیں علماء و حفاظِ قرآن ہی ہوا کرتے تھے خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے ، سن رسیدہ ہوں یا نو عمر، بہرحال عیینہ نے اپنے بھتیجے حُربن قیس سے کہا:
برادر زادے! تمہیں امیرالمومنین سے خاص قرب حاصل ہے، تم مجھے ملاقات کی اجازت لے دو؛ چنانچہ حربن قیس نے ملاقات کی اجازت طلب کی، حضرت عمررضی اللہ عنہہ نے اجازت دے دی
جب یہ دونوں فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عیینہ نے کہا:
اے خطاب کے بیٹے:
وہ شکایت جس کے پیش کرنے کے لیے میں آیا ہوں یہ ہے کہ خدا کی قسم، تم ہم کو زیادہ نہیں دیتے ہو اور ہمارے حق میں عدل و انصاف کا معاملہ بھی نہیں کرتے ہو
فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ اس دریدہ دہنی اور افترا پردازی پر سخت غصہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ آپ نے قصد کرلیا کہ اسے عبرتناک سزادی جائے۔
حُربن قیس فوراً بول پڑے:
امیر الموٴمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے:
خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرُ بِالْعُرْفِ وَ اعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْن۔
”عفو کو اختیار کرو، بھلی بات کا حکم دو اور جاہلوں سے درگزر کرو“
میرا چچا عیینہ بن حصن یقینا جاہلوں میں سے ہے اور اسلامی اخلاق و آداب سے نابلد ہے، راوی حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم جوں ہی حُربن قیس اس آیت کریمہ کی تلاوت کی، حضرت عمررضی اللہ عنہہ کا غصہ بالکل سرد پڑگیا اور انھوں نے آیتِ کریمہ کے حکم سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کیا۔
(شرح ریاض الصالحین از مولانا محمد ادریس میرٹھی، صفحہ ۱۳۶-۱۳۷)
راوی کا بیان ہے کہ حضرت عمر فاروق کے مقرب وہم نشیں علماء و حفاظِ قرآن ہی ہوا کرتے تھے خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے ، سن رسیدہ ہوں یا نو عمر، بہرحال عیینہ نے اپنے بھتیجے حُربن قیس سے کہا:
برادر زادے! تمہیں امیرالمومنین سے خاص قرب حاصل ہے، تم مجھے ملاقات کی اجازت لے دو؛ چنانچہ حربن قیس نے ملاقات کی اجازت طلب کی، حضرت عمررضی اللہ عنہہ نے اجازت دے دی
جب یہ دونوں فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عیینہ نے کہا:
اے خطاب کے بیٹے:
وہ شکایت جس کے پیش کرنے کے لیے میں آیا ہوں یہ ہے کہ خدا کی قسم، تم ہم کو زیادہ نہیں دیتے ہو اور ہمارے حق میں عدل و انصاف کا معاملہ بھی نہیں کرتے ہو
فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ اس دریدہ دہنی اور افترا پردازی پر سخت غصہ ہوگئے۔ یہاں تک کہ آپ نے قصد کرلیا کہ اسے عبرتناک سزادی جائے۔
حُربن قیس فوراً بول پڑے:
امیر الموٴمنین! اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو حکم دیا ہے:
خُذِ الْعَفْوَ وَ أْمُرُ بِالْعُرْفِ وَ اعْرِضْ عَنِ الْجَاھِلِیْن۔
”عفو کو اختیار کرو، بھلی بات کا حکم دو اور جاہلوں سے درگزر کرو“
میرا چچا عیینہ بن حصن یقینا جاہلوں میں سے ہے اور اسلامی اخلاق و آداب سے نابلد ہے، راوی حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم جوں ہی حُربن قیس اس آیت کریمہ کی تلاوت کی، حضرت عمررضی اللہ عنہہ کا غصہ بالکل سرد پڑگیا اور انھوں نے آیتِ کریمہ کے حکم سے بال برابر بھی تجاوز نہیں کیا۔
(شرح ریاض الصالحین از مولانا محمد ادریس میرٹھی، صفحہ ۱۳۶-۱۳۷)