سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے اسلام لانے سے پہلے کا اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ
”میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا دیکھا کہ آپ مسجد حرم میں پہنچ گئے ہیں
میں بھی گیا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا
آپ نے سورۃ الحاقہ شروع کی جسے سن کر مجھے اس کی پیاری نشست الفاظ اور بندش مضامین اور فصاحت و بلاغت پر تعجب آنے لگا آخر میں میرے دل میں خیال آیا کہ
قریش ٹھیک کہتے ہیں یہ شخص شاعر ہے ابھی میں اسی خیال میں تھا کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں تلاوت کیں کہ ” یہ قول رسول اللہ کا ہے، شاعر کا نہیں، تم میں ایمان ہی کم ہے “
تو میں نے کہا اچھا شاعر نہ سہی، کاہن تو ضرور ہے
ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت میں یہ آیت آئی کہ ” یہ کاہن کا قول بھی نہیں تم نے نصیحت ہی کم لی ہے “،
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ پوری سورت ختم کی۔
فرماتے ہیں یہ پہلا موقعہ تھا کہ میرے دل میں اسلام پوری طرح گھر کر گیا اور روئیں روئیں میں اسلام کی سچائی گھس گئی۔
”میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا دیکھا کہ آپ مسجد حرم میں پہنچ گئے ہیں
میں بھی گیا اور آپ کے پیچھے کھڑا ہو گیا
آپ نے سورۃ الحاقہ شروع کی جسے سن کر مجھے اس کی پیاری نشست الفاظ اور بندش مضامین اور فصاحت و بلاغت پر تعجب آنے لگا آخر میں میرے دل میں خیال آیا کہ
قریش ٹھیک کہتے ہیں یہ شخص شاعر ہے ابھی میں اسی خیال میں تھا کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیتیں تلاوت کیں کہ ” یہ قول رسول اللہ کا ہے، شاعر کا نہیں، تم میں ایمان ہی کم ہے “
تو میں نے کہا اچھا شاعر نہ سہی، کاہن تو ضرور ہے
ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت میں یہ آیت آئی کہ ” یہ کاہن کا قول بھی نہیں تم نے نصیحت ہی کم لی ہے “،
اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ پوری سورت ختم کی۔
فرماتے ہیں یہ پہلا موقعہ تھا کہ میرے دل میں اسلام پوری طرح گھر کر گیا اور روئیں روئیں میں اسلام کی سچائی گھس گئی۔