میرتقی میر کا درد ناک واقعہ

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
تقی میر کا درد ناک واقعہ​
میر تقی میر اردو کےنامور شاعر گزرے ہیں ۔ان کے اشعار مختصر اور آسان الفاظ میں ،مگر احساس سے بھر پور اور سننے والے پر گہرا اثر چھوڑت ہیں ۔زیادہ تر اشعار تو شیشے کے مانندنازک جذبات کی تر جمانی کرتے ہیں ۔میر بڑے غیرت مندانسان تھے اور زندگی مجبوری اور تنگی میں گزاری مگر کبھی نوابوں اور رئیسوں کے رو برو کسی مدد کے لیے ہاتھ نہیں بڑھایا ۔اس خود دار طبیعت کی وجہ سے انہیں شاید ہی کبھی مزیدار کھانا نصیب ہوا ہو ۔ سہولتوں کی تنگی نے گویا ان کی حیات کو بے نور کردیا ۔ان کی شاعری گزر معاش کی تنگی کی مکمل تصویر ہے ۔ خدا نے میر تقی میرؔ کو ایک بیٹی عطا کی تھی ۔ جہیز کے بیجا مطالبات کے دور میں لڑکی کا باپ بننا بے حد پریشانی کا باعث تھا ۔ وہ اکثر اس تعلق سے فکر مند رہا کرتے تھے ، کہ جہیزکا تقاضا کیسے پورا کیا جائے ۔ جب شادی کا وقت آیا تو میر نے اپنی بچت شدہ پو نجی جمع کی اور کچھ رقم قرض لے لی تا کہ کوئی مطالبہ پورا ہو نے سے رہ نہ جائے ۔ شادی کی شام بیٹی رخصت ہو ئی اور تحائف وضروریات زندگی کی چیزوں سے لدی بیل گاڑی بھی لکھنؤ کے قریب واقع قریب کے سسرال بھیج دی گئی دلہن کو اپنے پیارے والد سے جدا ہو نے کا بڑا غم تھا۔ وہ راستہ بھر روتی رہی یہاں تک کہ سسرال پہنچتے پہنچتے ،سسکیاں ہچکیوں میں تبدیل ہو گئیں اور نئے گھر میں داخلے کے بعد دم توڑ دیا ۔سسرال والے سکتے میں آگئے اور فورا باپ کو خبر دینے کیلئے ایک شخص کو لکھنؤ روانہ کیا وہ ہاتھ میں لالٹین لیے رات کے دوسرے پہر لکھنؤ پہنچے اور میرؔکے در پر دستک دی ۔رات کے اس پہر میں میر ؔکو شک ہوا کہ کیا جہیز کے مطالبے میں سے کوئی مطالبہ پورا ہو نے سے رہ گیا ! مگر دروازہ کھلنے پر اس نے محض اتنا کہا کہ بچی کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ہے اور وہ باپ سے ملنےکی تمنا کر رہی ہے ۔اس کے ساتھ میر تقی میر صبح دم سسرال پہنچے تو دیکھا کہ بیٹی سرخ لباس عروسی میں سسرالی مکان کے مر کزی ہال میں " سورہی ہے " اور جہیز کا سامان آس پاس رکھا ہوا ہے ۔سسرالی رشتہ داروں کے چہروں پر گہرا ملال ہے ۔ بیٹی کے سرہانے بیٹھ کر پیشانی پر ہاتھ رکھا تو پیشانی ٹھنڈی ملی ،نبض ٹٹولی تو اندازہ ہوا کہ روح جسم سے نکل چکی ہے ۔ میر کے دل میں غم کا آتش فشاں پھوٹ پڑا ۔ پھوٹ پھوٹ کر روئے ، یہاں تک کہ کرتہ بھیگ گیا ۔ذرا قرار آیا تو قلم وقرطاس سنبھالا اور یہ شعرتحریر کیا:
اب آیا خیال اے آرام جاں، اس نامرادی میں
کفن دینا تجھے بھولے تھے ہم اسباب شادی میں
زمانے کے ستائے ہوئے اور جہیز کی رسم کے کے شکار میر تقی میر کی زندگی سے رنگ جاتا رہا اور انہوں نےبقہ زندگی اکلوتی بیٹی کے صدمے میں گزاردی۔
 
Top