قَالَ الْإِمَامُ أَبُو الْحَسَنِ الْمَرْغِيْنَانِيُّ فِي ‹‹الْهِدَايَةِ››: ثُمَّ يَجُوْزُ التَّقَلُّدُ مِنَ السُّلْطَانِ الْجَائِرِ كَمَا يَجُوْزُ مِنَ الْعَادِلِ، لِأَنَّ الصَّحَابَةَ رضی اللہ عنہم تَقَلَّدُوْهُ مِنْ مُعَاوِيَةَ رضی اللہ عنہ، وَالْحَقُّ كَانَ بِيَدِ عَلِيٍّ علیہ السلام فِي نَوْبَتِهِ. وَالتَّابِعِيْنَ تَقَلَّدُوْهُ مِنَ الْحَجَّاجِ وَكَانَ جَائِرًا.
امام ابو الحسن المرغینانی اپنی کتاب ’’ الهدایة‘‘ میں لکھتے ہیں: (قاضی کے لیے) غیر عادل حکمران سے عہدہ و منصب لینا اُسی طرح جائز ہے جس طرح عادل حکمران سے یہ عہدہ لینا جائز ہے۔ کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے یہ ذمہ داری قبول کی تھی؛ حالاں کہ ان کی خلافت کے معاملے میں حق حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اسی طرح تابعین نے بھی حجاج کے دورِ حکومت میں قضاء کی ذمہ داریاں سنبھالیں، حالاں کہ وہ ایک ظالم حکمران تھا۔ (غیر عادل حکمران سے قضاء وغیرہ کی ذمہ داری قبول کرلینے کا مقصد صرف مخلوقِ خدا کی خدمت اور انہیں اِنصاف کی فراہمی کے عمل کو جاری رکھنا ہوتا ہے۔)
المرغيناني في الهداية شرح بداية المبتدي، 3/102
قَالَ ابْنُ الشَّيْخِ جَمَالُ الدِّيْن الرُّوْمِيُّ الْبَابَرْتِيُّ فِي الْعِنَايَةِ شَرْحِ الْهِدَايَةِ تَحْتَ عِبَارَةِ الْمَرْغِيْنَانِيِّ: (قَوْلُهُ: ثُمَّ يَجُوْزُ التَّقَلُّدُ) تَفْرِيْعٌ عَلَى مَسْأَلَةِ الْقُدُوْرِيِّ يَتَـبَيَّنُ أَنَّهُ لَا فَرْقَ فِي جَوَازِ التَّقَلُّدِ لِأَهْلِهِ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ الْمُوَلِّي عَادِلًا أَوْ جَائِرًا، فَكَمَا جَازَ مِنَ السُّلْطَانِ الْعَادِلِ جَازَ مِنَ الْجَائِرِ، وَهَذَا؛ لِأَنَّ الصَّحَابَةَ رضی اللہ عنہم تَقَلَّدُوا الْقَضَاءَ مِنْ مُعَاوِيَةَ وَكَانَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہما فِي نَوْبَتِهِ، دَلَّ عَلَى ذَلِكَ حَدِيثُ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ (1)،۔۔۔۔۔۔ وَعُلَمَاءُ السَّلَفِ وَالتَّابِعِينَ تَقَلَّدُوهُ مِنَ الْحَجَّاجِ وَجَوْرُهُ مَشْهُورٌ فِي الْآفَاقِ( 2)
ابن الشیخ جمال الدین الرومی البابرتی ’’العناية شرح الهداية‘‘ میں امام مرغینانی کی عبارت کے تحت لکھتے ہیں: امام مرغینانی کا یہ کہنا کہ [عہدہ لینا جائز ہے] امام قدوری کے بیان کردہ مسئلہ پر تفریع ہے جو اس بات کو خوب واضح کرتی ہے کہ اَہل، مستحق اور قابل اَفراد کے عہدہ و منصب لینے کے جائز ہونے میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تقرری کرنے والا حکمران عادل ہے یا غیر عادل۔ لہٰذا جس طرح کسی نیک اور خود عادل حکمران سے ذمہ دار ی لینا درست ہے، اُسی طرح غیر عادل حکمران سے بھی کسی عہدے کی ذمہ داری قبول کرنا جائز ہے۔
یہ اِس لیے بھی روا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے (ان کے دورِ ملوکیت میں مفادِ عامہ کی غرض سے) قضاء کی ذمہ داریاں قبول کی تھیں، حالاں کہ خلافت کے اَصل حق دار اس وقت حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم تھے۔ اس (خلافت کی حقانیت) پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی حدیث صراحتاً دلالت کرتی ہے۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اِقتداء میں ) علماء سلف صالحین اور تابعین نے بھی حجاج کے زمانہ میں اس سے ذمہ داریاں اور عہدے لیے، حالاں کہ اس کا ظلم کل عالم میں مشہور تھا۔
امام ابو الحسن المرغینانی اپنی کتاب ’’ الهدایة‘‘ میں لکھتے ہیں: (قاضی کے لیے) غیر عادل حکمران سے عہدہ و منصب لینا اُسی طرح جائز ہے جس طرح عادل حکمران سے یہ عہدہ لینا جائز ہے۔ کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے یہ ذمہ داری قبول کی تھی؛ حالاں کہ ان کی خلافت کے معاملے میں حق حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔ اسی طرح تابعین نے بھی حجاج کے دورِ حکومت میں قضاء کی ذمہ داریاں سنبھالیں، حالاں کہ وہ ایک ظالم حکمران تھا۔ (غیر عادل حکمران سے قضاء وغیرہ کی ذمہ داری قبول کرلینے کا مقصد صرف مخلوقِ خدا کی خدمت اور انہیں اِنصاف کی فراہمی کے عمل کو جاری رکھنا ہوتا ہے۔)
المرغيناني في الهداية شرح بداية المبتدي، 3/102
قَالَ ابْنُ الشَّيْخِ جَمَالُ الدِّيْن الرُّوْمِيُّ الْبَابَرْتِيُّ فِي الْعِنَايَةِ شَرْحِ الْهِدَايَةِ تَحْتَ عِبَارَةِ الْمَرْغِيْنَانِيِّ: (قَوْلُهُ: ثُمَّ يَجُوْزُ التَّقَلُّدُ) تَفْرِيْعٌ عَلَى مَسْأَلَةِ الْقُدُوْرِيِّ يَتَـبَيَّنُ أَنَّهُ لَا فَرْقَ فِي جَوَازِ التَّقَلُّدِ لِأَهْلِهِ بَيْنَ أَنْ يَكُونَ الْمُوَلِّي عَادِلًا أَوْ جَائِرًا، فَكَمَا جَازَ مِنَ السُّلْطَانِ الْعَادِلِ جَازَ مِنَ الْجَائِرِ، وَهَذَا؛ لِأَنَّ الصَّحَابَةَ رضی اللہ عنہم تَقَلَّدُوا الْقَضَاءَ مِنْ مُعَاوِيَةَ وَكَانَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ رضی اللہ عنہما فِي نَوْبَتِهِ، دَلَّ عَلَى ذَلِكَ حَدِيثُ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضی اللہ عنہ (1)،۔۔۔۔۔۔ وَعُلَمَاءُ السَّلَفِ وَالتَّابِعِينَ تَقَلَّدُوهُ مِنَ الْحَجَّاجِ وَجَوْرُهُ مَشْهُورٌ فِي الْآفَاقِ( 2)
ابن الشیخ جمال الدین الرومی البابرتی ’’العناية شرح الهداية‘‘ میں امام مرغینانی کی عبارت کے تحت لکھتے ہیں: امام مرغینانی کا یہ کہنا کہ [عہدہ لینا جائز ہے] امام قدوری کے بیان کردہ مسئلہ پر تفریع ہے جو اس بات کو خوب واضح کرتی ہے کہ اَہل، مستحق اور قابل اَفراد کے عہدہ و منصب لینے کے جائز ہونے میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تقرری کرنے والا حکمران عادل ہے یا غیر عادل۔ لہٰذا جس طرح کسی نیک اور خود عادل حکمران سے ذمہ دار ی لینا درست ہے، اُسی طرح غیر عادل حکمران سے بھی کسی عہدے کی ذمہ داری قبول کرنا جائز ہے۔
یہ اِس لیے بھی روا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے (ان کے دورِ ملوکیت میں مفادِ عامہ کی غرض سے) قضاء کی ذمہ داریاں قبول کی تھیں، حالاں کہ خلافت کے اَصل حق دار اس وقت حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم تھے۔ اس (خلافت کی حقانیت) پر حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کی حدیث صراحتاً دلالت کرتی ہے۔ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اِقتداء میں ) علماء سلف صالحین اور تابعین نے بھی حجاج کے زمانہ میں اس سے ذمہ داریاں اور عہدے لیے، حالاں کہ اس کا ظلم کل عالم میں مشہور تھا۔
- أخرجه البخاري في الصحيح، كتاب الصلاة، أبواب المساجد، 1/172، الرقم/436، وأيضًا في كتاب الجهاد والسير، باب مسح الغبار عن الناس في السبيل، 3/1035، الرقم/2657، ومسلم في الصحيح، كتاب الفتن وأشراط الساعة، باب لا تقوم الساعة حتى يمر الرجل بقبر الرجل، 4/2235-2236، الرقم/2915- 2916
- ابن الشيخ جمال الدين الرومي البابرتي في العناية شرح الهداية (على حاشية شرح فتح القدير)، 7/246
اہل علم سے درج بالا حوالہ جات کی وضاحت و توضیح و تحقیق درکار ہے ؟؟
Last edited: