قرآن کریم انسان کے مال میں سائل وغیر سائل ہر دو کا حق تجویز کرتا ہے:
’’وَفِیْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ‘‘ ۔ (الذاریات:۱۹)
ترجمہ:…’’اور ان (اللہ سے ڈرنے والوں) کے اموال میں حصہ ہے: مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (ضرورت مندوں) کا‘‘۔
نیز مانگنے والے باحمیت ضرورت مند کو مانگنے والے پر ترجیح دیتا ہے اور اربابِ اموال کو ایسے غیور ضرورت مندوں کی ضروریات پورا کرنے کی ترغیب دیتا ہے،
ارشاد ہے:
’’لِلْفُقَرَائِ الَّذِیْنَ أُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْباً فِیْ الْأَرْضِ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ أَغْنِیَائَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمَاہُمْ لاَ یَسْأَلُوْنَ النَّاسَ إِلْحَافاً ‘‘۔(البقرۃ:۲۷۳)
ترجمہ:’’(وہ صدقات وخیرات) ان ضرورت مندوں کے لیے ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دیئے گئے ہیں (اپنی زندگی اللہ کے لیے وقف کردی ہے، اس لیے) وہ زمین میں (کاروبار کے لیے) سفر نہیں کر سکتے، نادان آدمی ان کو غنی سمجھتا ہے، تم ان کے چہروں سے ان کو پہچان لوگے (کہ یہ ضرورت مند ہیں) وہ نہ سوال کرتے ہیں، نہ اصرار‘‘۔
’’وَفِیْ أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوْمِ‘‘ ۔ (الذاریات:۱۹)
ترجمہ:…’’اور ان (اللہ سے ڈرنے والوں) کے اموال میں حصہ ہے: مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (ضرورت مندوں) کا‘‘۔
نیز مانگنے والے باحمیت ضرورت مند کو مانگنے والے پر ترجیح دیتا ہے اور اربابِ اموال کو ایسے غیور ضرورت مندوں کی ضروریات پورا کرنے کی ترغیب دیتا ہے،
ارشاد ہے:
’’لِلْفُقَرَائِ الَّذِیْنَ أُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْباً فِیْ الْأَرْضِ یَحْسَبُہُمُ الْجَاہِلُ أَغْنِیَائَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُہُمْ بِسِیْمَاہُمْ لاَ یَسْأَلُوْنَ النَّاسَ إِلْحَافاً ‘‘۔(البقرۃ:۲۷۳)
ترجمہ:’’(وہ صدقات وخیرات) ان ضرورت مندوں کے لیے ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دیئے گئے ہیں (اپنی زندگی اللہ کے لیے وقف کردی ہے، اس لیے) وہ زمین میں (کاروبار کے لیے) سفر نہیں کر سکتے، نادان آدمی ان کو غنی سمجھتا ہے، تم ان کے چہروں سے ان کو پہچان لوگے (کہ یہ ضرورت مند ہیں) وہ نہ سوال کرتے ہیں، نہ اصرار‘‘۔