کسری اور قیصر

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
جس وقت آنحضرتﷺ کو نبوت عطا ہوئی اس وقت دنیا میں دو بڑی طاقتیں تھیں، ایک ایران کی حکومت جو مشرق کے علاقے میں پھیلی ہوئی تھی، اور اس کے ہر بادشاہ کو کسری کہا جاتا تھا، یہ لوگ آتش پرست تھے، یعنی آگ کو پوجتے تھے، دوسری بڑی طاقت روم کی تھی، جو مکہ مکرمہ کے شمال اور مغرب میں پھیلی ہوئی تھی، شام، مصر، ایشیائے کو چک اور یورپ کے علاقے اسی سلطنت کے ماتحت تھے، اور اس کے ہر بادشاہ کو قیصر کہا جاتا تھا، اور ان کی اکثریت عیسائی مذہب پر تھی۔

اس وقت ان دونوں طاقتوں کے درمیان شدید جنگ ہو رہی تھی، اور اس جنگ میں ایران کا پلہ ہر لحاظ سے بھاری تھا، اور اس کی فوجوں نے ہر محاذ پر روم کی فوجوں کو شکست دے کر ان کے بڑے بڑے شہر فتح کر لئے تھے، یہاں تک کہ وہ بیت المقدس میں عیسائیوں کا مقدس ترین کلیسا تباہ کر کے رومیوں کو مسلسل پیچھے ڈھکیلتی جا رہی تھی، اور روم کے بادشاہ ہرقل کو جائے پناہ تلاش کرنا مشکل ہو رہا تھا، ایران کی حکومت چونکہ آتش پرست تھی اس لئے مکہ مکرمہ کے بت پرستوں کی ہمدردیاں اس کے ساتھ تھیں، اور جب کبھی اریان کی کسی فتح کی خبر آتی تو مکہ مکرمہ کے بت پرست اس پر نہ صرف خوشی مناتے بلکہ مسلمانوں کو چڑاتے کہ عیسائی لوگ جو آسمانی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں مسلسل شکست کھاتے جا رہے ہیں، اور ایران کے لوگ جو ہماری طرح پیغمبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے، انہیں برابر فتح نصیب ہو رہی ہے۔

اس موقع پر یہ سورہ روم نازل ہوئی، اور اس کے بالکل شروع میں یہ پیشین گوئی کی گئی کہ روم کے لوگ اگرچہ اس وقت شکست کھا گئے ہیں، لیکن چند سالوں میں وہ فتح حاصل کر کے ایرانیوں پر غالب آ جائیں گے، اور اس دن مسلمان اللہ کی مدد سے خوش ہوں گے۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
 
Top