شیخ بدیع الدین شاہ مدار
شیخ بدیع الدین المعروف شاہ مدار قدس سرہ ہرمزے سے آکر کالپیؔ میں مقیم ہو ئے ۔آپ کا طریق جذب الخلائق تھا۔ ہر خاص وعام آپ کا گرویدہ تھا۔ آپ کے بعض امور خلاف شریعت معلوم ہوتے تھے۔ اس وقت قادر شاہ بن سلطان محمود کالپی کا حکمراں تھا ۔شاہ مدار کی شہرت دیکھ کر آپ کی خدمت میں حاضرہوا ۔ لیکن آپ کے خادموں نے کہا یہ ملاقات کا وقت نہیں ہے اور نہ ہی اس وقت ہم آپ کو اطلاع دے سکتے ہیں ،کسی نے قادر شاہ سے یہ بھی کہہ دیا کہ شاہ مدار اس وقت کسی جوگی کے ساتھ خلوت میں ہیں ۔ یہ سن کر وہ غضب ناک ہوا اور آپ کے خادموں سے کہا اپنے مخدوم سے کہہ دو کہ یہاں سےچلا جائے ۔یہ کہہ کر وہ اپنے گھر چلا گیا ۔ جب یہ بات شاہ مدار کو معلوم ہو ئی تو باہر تشریف لا ئے اور ندی کے کنارے بیٹھ کر اس کے حق میں بد دعا کی ۔آپنے خادموں سے کہا کہ تین دن تک انتظار کرو اس کے بعد وہاں جاکر معلوم کرنا کیاحال ہے ؟ ادھر جو نہی قادر شاہ وہاں سے رخصت ہوا اس کے جسم پر آبلے نکل آئے اور درد سے بے چین ہو کر شیخ سراج الدین کی خدمت میں حاضر ہوا اور آبلے ختم ہو گئے ۔شاہ مدار کے خادم نے جاکر سارا ماجرا آپ کو سنایا ۔اخبار الاخیار میں یہاں تک حکایت بیان کی گئی ہے لیکن دوسری روایت میں یہ پایا جاتا ہے کہ یہ خبر سنتے ہی شاہ مدار نے فرمایا" سراج کیوںنہ جل گیا" جو نہی آپکی زبان سے یہ کلمات نکلے شیخ سراج الدین کے جسم پر آبلے نمودار ہو ئے اور اسی عارضہ سے ان کا انتقال ہو گیا ۔
گویا انہوں نے اپنے آپ کو قادر شاہ پر قربان کر دیا ۔اسی وجہ سے وہ سراج الدین سوختہ کے نام سے مشہو ہو ئے ۔یہ سراج الدین کی بلند ہمتی کو ظاہر کرتی ہے ۔غرضیکہ شاہ مدار وہاں سے رخصت ہو کر قنوج چلے گئے اور خواجہ بزرگ خواجہ معین الدین والحق چشتی قدس سرہ کے با طنی اشارہ سے آپ مانک پور میں مقیم ہو گئے ۔ اس کے بعد جونپور چلے گئے اور اس علاقے کے لوگوں کو فیض پہنچایا اس کے بعد آپ دوبارہ مانکپور تشریف لے گئے اس وقت تک آپ کی سارے ہندوستان میں شہرت ہو گئی اور آپ کے فیض صحبت سے کافی لوگ مرتبہ تکمیل وارشادکو پہنچے ۔آپ کے تقربات حیات وممات میں برابر ہیں ۔آپ کے مفصل حالات رسالہ مرات مداری میں درج ہیں ۔شیخ سراج الدین سوختہ کا مزار کالپیؔ میں ہے ۔( مرآۃ الاسرار ۔ص: 1096 تا1097)
Last edited: