*درد سے یادوں سے اشکوں سے شناسائی ہے*
*کتنا آباد مرا گوشۂ تنہائی ہے*
*خار تو خار ہیں، کچھ گل بھی خفا ہیں مجھ سے*
*میں نے کانٹوں سے الجھنے کی سزا پائی ہے*
*میرے پیچھے تو ہے ہر آن یہ خلقت کا ہجوم*
*اب خدا جانے یہ عزت ہے کہ رسوائی ہے*
*ہاتھ نیکی سے تہی، سر پہ گناہوں کے پہاڑ*
*سب سہی، دل مگر اک تیرا ہی شیدائی ہے*
*پھونک کر ساری تمناؤں کے دفتر، یہ دل*
*اب تو بس تیری تمنا کا تمنائی ہے*
*ان کا دیدار تقی کیسا قیامت ہوگا*
*جب فقط انکے تصور میں یہ رعنائی ہے*
*کتنا آباد مرا گوشۂ تنہائی ہے*
*خار تو خار ہیں، کچھ گل بھی خفا ہیں مجھ سے*
*میں نے کانٹوں سے الجھنے کی سزا پائی ہے*
*میرے پیچھے تو ہے ہر آن یہ خلقت کا ہجوم*
*اب خدا جانے یہ عزت ہے کہ رسوائی ہے*
*ہاتھ نیکی سے تہی، سر پہ گناہوں کے پہاڑ*
*سب سہی، دل مگر اک تیرا ہی شیدائی ہے*
*پھونک کر ساری تمناؤں کے دفتر، یہ دل*
*اب تو بس تیری تمنا کا تمنائی ہے*
*ان کا دیدار تقی کیسا قیامت ہوگا*
*جب فقط انکے تصور میں یہ رعنائی ہے*