دعا (مسجد قرطبہ میں لکھی گئی)
ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو
میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو
معانی: قرطبہ: سپین کا ایک شہر ۔
مطلب: اقبال جب 32ء میں گول میزکانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو وہاں سے فراغت کے بعد انھوں نے ہسپانیہ کا دورہ بھی کیا ۔ تاریخی اعتبار سے ہسپانیہ جن دنوں مسلمان سلاطین کے زیر نگیں رہا تو اس کی عظمت انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھی ۔ مسلمان سلاطین نے قرطبہ کو اپنا دارالحکومت قرار دیا تھا ۔ یہ نظم علامہ نے قرطبہ کی جامع مسجد میں بیٹھ کر تخلیق کی ۔ یہ مسجد مسلمانوں کے زوال کے بعد عیسائی حکمرانوں نے گرجا میں تبدیل کر دی تھی ۔ اس المیے کے اثرات اقبال کی اس نظم میں جا بجا موجود ہیں ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ عشق حقیقی جب اپنی انتہا پر پہنچتا ہے تو جگر کا لہو بھی آہ و فریاد میں ڈھل جاتا ہے ۔ یہی آہ و فریاد میری نماز اور وضو کا روپ دھار گئی ہے ۔
صحبتِ اہلِ صفا، نور و حضور و سرور
سرخوش و پُرسوز ہے لالہ لبِ آبجو
مطلب: اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ صاف و پاکیزہ محبت سے قلب انسان جلا پاتا ہے ۔ محبوب کی حضوری کے ساتھ کیف و سرور کی وہ صورت ملتی ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے نہر کے کنارے لالے کا پھول لہراتا رہتا ہے اور ندی کی لہریں اس کو ہمیشہ تازگی، سرخوشی اور سوز بخشتی رہتی ہیں ۔
راہِ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق
ساتھ مرے رہ گئی، ایک مری آرزو
مطلب: محبت کی راہیں اس قدر سنگلاخ ہوتی ہیں کہ اس میں انتہائی قربت رکھنے والے عزیزو اقربا بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ چنانچہ اقبال کے مطابق کہ محبت میں کوئی بھی کسی کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ محض عشق کا جذبہ ہی آرزو میں ڈھل کر انسان کو اس کی منزل تک پہنچانے کا اہل ہوتا ہے ۔
میرا نشیمن نہیں درگہ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تو، شاخِ نشیمن بھی تو
مطلب: خدائے عزوجل سے مخاطب ہو کر اس شعر میں علامہ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں امیروں اور وزیروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ۔ میرے لیے تو تو ہی سب کچھ ہے ۔ منزل بھی تو اور راہ منزل بھی ۔
تجھ سے گریباں مرا مطلعِ صبحِ نشور
تجھ سے مرے سینے میں آتشِ اللہ ہو
معانی: مطلع: جہاں سے صبح پھوٹتی ہے ۔ نشور: دوبارہ زندہ ہو کے اٹھنے کی صبح ۔
مطلب: اے خدا تو نے میرے سینے میں عشق حقیقی کی جو آگ روشن کی ہے وہ قیامت کے روز بھڑکنے والی آگ سے کم نہیں ۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا دل اللہ ہو کی حرارت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔
تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ
تو ہی مری آرزو، تو ہی مری جستجو
مطلب: مولائے کائنات تیرے ہی دم سے میری زندگی سوز و درد اور داغ کے علاوہ روشنی کا مظہر بنی ہوئی ہے ۔ تو ہی ہے جو میرے عشق میں آرزو بن کر بسا ہوا ہے اور یہی جذبہ جستجو کا حامل بن جاتا ہے ۔
پاس اگر تو نہیں ، شہر ہے ویراں تمام
تو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو
معانی: کاخ و کو: گلی کوچے ۔
مطلب: اے آقا! یہ تیری یاد ہی ہے جس کے بغیر ہر سو ویرانی ہی ویرانی نظر آتی ہے اور جب مجھے تیری قربت کا احساس ہوتا ہے تو اجڑے ہوئے محلات اور سنسان گلی کوچے بھی آباد و درخشاں نظر آتے ہیں ۔ مراد یہ کہ قرب الہٰی سے انسان عظمت و بلندی سے ہم کنار ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس عشق الہٰی اور اس کی معرفت نہ ہو تو پورا ماحول اجاڑ و سنسان بن کر رہ جاتا ہے ۔
پھر وہ شرابِ کہن مجھ کو عطا کر، کہ میں
ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو
معانی: شرابِ کہن: پرانی شراب یعنی اولین مسلمان کے جذبات اور ایمان ۔
مطلب: اے مالک میں نے جدید تہذیب کے تمام لوازمات سے قطع تعلق کر لیا ہے ۔ مجھے وہی جذبہ عشق سے نواز دے جو میرے اسلاف کا ورثہ ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر میں تو عشق الہٰی میں جذب ہو چکا ہوں ۔ اور محض تیری تلاش میں مصروف ہوں ۔
چشمِ کرم ساقیا، دیر سے ہیں منتظر
جلوتیوں کے سبو، خلوتیوں کے کدو
معانی: جلوتیوں کے سبو: ظاہر شراب پینے والے کا برتن مراد سب کے سامنے نماز روزہ اور عبادت کرنے والے ۔ خلوتیوں کے کدو: چھپ کے پینے والوں کے برتن ، چھپ کر عبادت کرنے والے بزرگ ۔
مطلب: اس شعر میں خدا سے دعا کی گئی ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کے مختلف طبقوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ سب تیری نظر کرم کے محتاج ہیں ۔
تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
اپنے لیے لامکاں میرے لیے چار سو
مطلب: اس شعر میں علامہ کا لہجہ قدرے تبدیل ہو گیا ہے ۔ یہاں وہ مالک حقیقی سے گلہ مند نظر آتے ہیں کہ وہ خود تو لامکاں ہے اور افلاک و کائنات پر اس کی اجارہ داری ہے جب کہ انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجنے کے باوجود زمین کے ایک مختصر علاقے تک محدود کر دیا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ خدا کے لامحدود اختیارات کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں جب کہ انسان تو محض بے اختیار ہے ۔
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرفِ تمنا، جسے کہہ نہ سکیں رُوبرو
مطلب: فلسفہ اور شعر کی تعریف مختصراً اتنی ہی ہے کہ ان کی وساطت سے اپنی دل تمنا کا اظہار کھل کر نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہاں بھی علامتوں کا سہارا لیا جاتا ہے
ہے یہی میری نماز، ہے یہی میرا وضو
میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو
معانی: قرطبہ: سپین کا ایک شہر ۔
مطلب: اقبال جب 32ء میں گول میزکانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو وہاں سے فراغت کے بعد انھوں نے ہسپانیہ کا دورہ بھی کیا ۔ تاریخی اعتبار سے ہسپانیہ جن دنوں مسلمان سلاطین کے زیر نگیں رہا تو اس کی عظمت انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھی ۔ مسلمان سلاطین نے قرطبہ کو اپنا دارالحکومت قرار دیا تھا ۔ یہ نظم علامہ نے قرطبہ کی جامع مسجد میں بیٹھ کر تخلیق کی ۔ یہ مسجد مسلمانوں کے زوال کے بعد عیسائی حکمرانوں نے گرجا میں تبدیل کر دی تھی ۔ اس المیے کے اثرات اقبال کی اس نظم میں جا بجا موجود ہیں ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ عشق حقیقی جب اپنی انتہا پر پہنچتا ہے تو جگر کا لہو بھی آہ و فریاد میں ڈھل جاتا ہے ۔ یہی آہ و فریاد میری نماز اور وضو کا روپ دھار گئی ہے ۔
صحبتِ اہلِ صفا، نور و حضور و سرور
سرخوش و پُرسوز ہے لالہ لبِ آبجو
مطلب: اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ صاف و پاکیزہ محبت سے قلب انسان جلا پاتا ہے ۔ محبوب کی حضوری کے ساتھ کیف و سرور کی وہ صورت ملتی ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے نہر کے کنارے لالے کا پھول لہراتا رہتا ہے اور ندی کی لہریں اس کو ہمیشہ تازگی، سرخوشی اور سوز بخشتی رہتی ہیں ۔
راہِ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق
ساتھ مرے رہ گئی، ایک مری آرزو
مطلب: محبت کی راہیں اس قدر سنگلاخ ہوتی ہیں کہ اس میں انتہائی قربت رکھنے والے عزیزو اقربا بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ چنانچہ اقبال کے مطابق کہ محبت میں کوئی بھی کسی کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ محض عشق کا جذبہ ہی آرزو میں ڈھل کر انسان کو اس کی منزل تک پہنچانے کا اہل ہوتا ہے ۔
میرا نشیمن نہیں درگہ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تو، شاخِ نشیمن بھی تو
مطلب: خدائے عزوجل سے مخاطب ہو کر اس شعر میں علامہ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں امیروں اور وزیروں کے لیے کوئی گنجائش نہیں ۔ میرے لیے تو تو ہی سب کچھ ہے ۔ منزل بھی تو اور راہ منزل بھی ۔
تجھ سے گریباں مرا مطلعِ صبحِ نشور
تجھ سے مرے سینے میں آتشِ اللہ ہو
معانی: مطلع: جہاں سے صبح پھوٹتی ہے ۔ نشور: دوبارہ زندہ ہو کے اٹھنے کی صبح ۔
مطلب: اے خدا تو نے میرے سینے میں عشق حقیقی کی جو آگ روشن کی ہے وہ قیامت کے روز بھڑکنے والی آگ سے کم نہیں ۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا دل اللہ ہو کی حرارت کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔
تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ
تو ہی مری آرزو، تو ہی مری جستجو
مطلب: مولائے کائنات تیرے ہی دم سے میری زندگی سوز و درد اور داغ کے علاوہ روشنی کا مظہر بنی ہوئی ہے ۔ تو ہی ہے جو میرے عشق میں آرزو بن کر بسا ہوا ہے اور یہی جذبہ جستجو کا حامل بن جاتا ہے ۔
پاس اگر تو نہیں ، شہر ہے ویراں تمام
تو ہے تو آباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو
معانی: کاخ و کو: گلی کوچے ۔
مطلب: اے آقا! یہ تیری یاد ہی ہے جس کے بغیر ہر سو ویرانی ہی ویرانی نظر آتی ہے اور جب مجھے تیری قربت کا احساس ہوتا ہے تو اجڑے ہوئے محلات اور سنسان گلی کوچے بھی آباد و درخشاں نظر آتے ہیں ۔ مراد یہ کہ قرب الہٰی سے انسان عظمت و بلندی سے ہم کنار ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس عشق الہٰی اور اس کی معرفت نہ ہو تو پورا ماحول اجاڑ و سنسان بن کر رہ جاتا ہے ۔
پھر وہ شرابِ کہن مجھ کو عطا کر، کہ میں
ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو
معانی: شرابِ کہن: پرانی شراب یعنی اولین مسلمان کے جذبات اور ایمان ۔
مطلب: اے مالک میں نے جدید تہذیب کے تمام لوازمات سے قطع تعلق کر لیا ہے ۔ مجھے وہی جذبہ عشق سے نواز دے جو میرے اسلاف کا ورثہ ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر میں تو عشق الہٰی میں جذب ہو چکا ہوں ۔ اور محض تیری تلاش میں مصروف ہوں ۔
چشمِ کرم ساقیا، دیر سے ہیں منتظر
جلوتیوں کے سبو، خلوتیوں کے کدو
معانی: جلوتیوں کے سبو: ظاہر شراب پینے والے کا برتن مراد سب کے سامنے نماز روزہ اور عبادت کرنے والے ۔ خلوتیوں کے کدو: چھپ کے پینے والوں کے برتن ، چھپ کر عبادت کرنے والے بزرگ ۔
مطلب: اس شعر میں خدا سے دعا کی گئی ہے اور ساتھ ہی مسلمانوں کے مختلف طبقوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ سب تیری نظر کرم کے محتاج ہیں ۔
تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
اپنے لیے لامکاں میرے لیے چار سو
مطلب: اس شعر میں علامہ کا لہجہ قدرے تبدیل ہو گیا ہے ۔ یہاں وہ مالک حقیقی سے گلہ مند نظر آتے ہیں کہ وہ خود تو لامکاں ہے اور افلاک و کائنات پر اس کی اجارہ داری ہے جب کہ انسان کو اپنا نائب بنا کر بھیجنے کے باوجود زمین کے ایک مختصر علاقے تک محدود کر دیا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ خدا کے لامحدود اختیارات کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں جب کہ انسان تو محض بے اختیار ہے ۔
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرفِ تمنا، جسے کہہ نہ سکیں رُوبرو
مطلب: فلسفہ اور شعر کی تعریف مختصراً اتنی ہی ہے کہ ان کی وساطت سے اپنی دل تمنا کا اظہار کھل کر نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہاں بھی علامتوں کا سہارا لیا جاتا ہے