کرامت کی تلاش

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
انسانی سوچ کے مختلف انداز ہوتے ہیں کسی کی سو میں محنت مزدوری کرکے۔ مال کماؤں ۔۔ اور کوئی ہمارے جیسے نکمے بس کوئی کرامت ہی ظاہر ہو جاے اور دولت کے ڈھیر لگ جائیں ہم لوگ بلا تحقیق ہر بات
کسی گاؤں میں ایک اللہ دتہ رہتا تھا لوگ اسے بس دتہ کہتے تھے
دتے کے گھر کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ایک دن تنگ آ کر وہ اچانک گاوں سے چپ چاپ غائب ہو گیا۔
گاوں سے دور نکل کر وہ ایک مدرسے میں جا پہنچا۔مدرسے کے مولوی صاحب سے اس نے کہا کہ وہ قرآن پاک حفظ کرنا چاہتا ہے۔انگوٹھا چھاپ دتے نے مولوی صاحب کی کچھ اس طرح منت سماجت کی کہ مولوی صاحب کا دل نرم ہو گیا۔ انہوں نے دتے کو قرآن پاک حفظ کروانا شروع کر دیا۔دن رات محنت کر کے دتے نے ایک سال میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔
قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد دتہ اسی طرح خاموشی سے گاوں واپس آ گیا۔ گاوں کے لوگوں نے نہ اس کے غائب ہونے کا نوٹس لیا تھا اور نہ ہی واپس آنے کا، میرے اور میرے ساتھ والے پنڈ کے لوگ ایسے ہی ہیں۔
دتہ سارا دن خاموشی سے گاوں میں مٹر گشت کرتا رہتا۔چھ ماہ گزرنے کے بعد ایک دن وہ گاوں کی بڑی مسجد کے بلند مینار پر چڑھ گیا۔اس زمانے میں لاؤڈ اسپیکر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مسجد کے مینار پر چڑھ کر اعلان یا اذان دیا کرتے تھے۔دتے نے مینار پر چڑھ کر بلند آواز میں لوگوں کو بتایا کہ
پچھلی رات جب میں سو رہا تھا تو خواب میں آ کر ایک فرشتے نے مجھے سینے سے لگایا ۔سینے سے لگاتے ہی مجھے قرآن پاک حفظ ہو گیا۔ لوگو! یہ بہت بڑی کرامت ہے جو میرے ساتھ ہو گئی ہے۔
ان پڑھ دتے کے منہ سے یہ دعویٰ سن کر گاوں والے حیران ہو کر رہ گئے۔
مسجد کے مولوی صاحب بھی اعلان سن کر گھر سے باہر نکل آئے۔گاوں والے سب کے سب بھی چوھدری سمیت مسجد کے گرد جمع ہو گئے۔ گاوں کا چوھدری حقے کا کش لگا کر بولا
"اوئے دتے تیرے پاس کیا ثبوت ہے اپنے دعوے کا؟
دتہ بولا چوھدری جی مجھ سے پورا قرآن پاک سن لو ۔اس کے ساتھ ہی اس نے بلند آواز میں قرآت شروع کر دی۔گاوں والے دتے کی قرآن پاک کی روانی دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ادھر دتہ آنکھیں بند کیئے تلاوت میں مشغول تھا۔میرے گاوں کے اور ساتھ والے پنڈ کے لوگ ایسی کرامات دیکھنے کے حد سے زیادہ شوقین ہیں۔چٹے ان پڑھ دتے کی اس کرامت نے ان لوگوں کو پاگل سا کر دیا۔ تلاوت کے دوران چند جوشیلے دیہاتیوں نے نعرہ تکبیر لگانا شروع کر دیا۔پنڈ کے مرد و زن جوش و خروش سے نعروں کے جواب دینے لگے۔
مولوی صاب کا پورا دھیان دتے کی تلاوت کی طرف تھا وہ دتے کی غلطی پکڑنا چاہتے تھے۔ لیکن دتے کی تلاوت میں ان کو کوئی غلطی نہیں مل رہی تھی۔
بالآخر مولوی جی نے اعلان کیا کہ دتے کی بتائی ہوئی کرامت حق پر مبنی ہے۔مولوی جی کی بات سن کر گاوں والوں کے جذبات اپنے عروج پر پہنچ گئے۔کچھ تو خوشی سے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ میرے گاوں کے اور میرے ساتھ والے پنڈ کے لوگ ایسے ہی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ جذباتی ہو کر مینار پر چڑھنے لگے ۔انہوں نے اوپر پہنچ کر دتے کے ہاتھ پاؤں چوم کر عقیدت کا اظہار کیا اور اپنے آپ کو ان خوش نصیبوں میں شمار کرنے لگے جنہوں نے سب سے پہلے دتے کے ہاتھ پاؤں چومے تھے۔خیر ان عقیدت مندوں نے آنکھیں بند کر کے تلاوت کرتے ہوئے دتے کو کندھوں پر اٹھا لیا اور بہت احترام سے مینار سے نیچے اتار لائے جبکہ دتہ ہنوز آنکھیں بند کئے تلاوت میں مشغول تھا۔دتے کے مینار سے نیچے اترتے ہی چوھدری نے روتے ہوئے اپنے کھیسے (جیب)میں سے ہاتھ ڈال کر دس کا نوٹ نکالا اور دتے کے مٹھی میں دے دیا۔باقی گاؤں والے بھی حسب توفیق دتے کی خدمت کرنے لگے۔
دتہ اچانک پیر بن چکا تھا۔اس کو کندھے پر اٹھا کر گھر پہنچایا گیا۔ نہلا دہلا کر نیا جوڑا پہنایا گیا۔اس کے بعد لنگر کا اہتمام کیا گیا۔ وہ دتہ جس کو اپنی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے تھے اب اس کے لنگر پر غریب آکر اپنا پیٹ بھرنے لگے۔ قوالوں نے مستقل دتے کے گھر پر ڈیرے لگا لئے محفل سماع کا اہتمام کیا جانے لگا۔ جس میں لوگوں پر حال (وجد) طاری ہوتا۔دتے کو اونچی سی مسند پر بٹھا کر اس کے سامنے قوالیاں کی جاتیں۔ دھمالیں ڈال کر گھر پورا پورا دربار بنا دیا گیا تھا۔ قصہ مختصر ایک دن دتہ مرگیا
دتے کے مرنے کے بعد گاوں والوں نے باقاعدہ عرس شروع کر دیا۔
ایک بار اسی مدرسے والے مولوی صاحب بھی دربار پر منت مانگنے آئے جہاں سے دتے نے قرآن پاک حفظ کیا تھا۔ان مولوی صاحب کو بتایا گیا کہ یہ ایک کراماتی والے پیر کا دربار ہے جہاں منتیں مانی جاتی ہیں اور ہر کام ہو جاتا ہے۔مولوی کو پیر کی کرامات کے بارے میں بتایا گیا۔
دتے کے مزار کے کونے میں لگی ایک بڑی سے تصویر پر اچانک مولوی صاحب کی نظر پڑی تو دیکھ کر بوڑھے مولوی صاحب کو اپنا ایک شاگرد یاد آگیا۔مولوی صاحب سیانے تھے ساری کہانی سمجھ کر دربار پر دتے کے مریدوں کو اصل کہانی بتانے کی کوشش کی مگر مریدوں نے مولوی کی ٹھکائی شروع کر دی۔
مرید دتہ پیر جی کے خلاف ایک لفظ بھی سننے پر تیار نہ تھے بمشکل مولوی صاحب لنگر کھائے بغیر ہی جان بچا کر بھاگ نکلے اور پھر دوبارہ دربار کے قریب بھی جانے کی کوشش نہ کی۔
ان اندھیروں میں کوئی سچ کا دیا جلاتا بھی ہے مگر کوئی اس سجائی کو ماننے کے لئیے کوئی تیار نہیں حالانکہ ہمارے پاس قرآن وسنت کی روشنی موجود ہے مگر ہم اس روشنی سے فایدہ اٹھانا نہیں چاہتے
 

اثم اثری

وفقہ اللہ
رکن
ہمارے ہاں بس یہ ہی کچھ چل رہا ہے جھوٹے پیر جھوٹی انکی کرامتیں ۔۔۔ اور ان جھوٹے مریدوں کو سچے پیر اور انکی زند چی کے حالات بیان کیئے جائیں تو ۔۔ تو دتے کے مرید پھر وہی حشر کرتے ہین جو ان نے مولوی صاحب کا کیا جہالت کسی نہ کسی روپ میں کہیں نہ کہیں موجود رہتی ہے ۔۔۔ مولانا نے اس واقعے کے ذریعہ خوبسورت سبق ہمیں سمھجایا ہے جزاک اللہ خیرا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
انسانی سوچ کے مختلف انداز ہوتے ہیں کسی کی سو میں محنت مزدوری کرکے۔ مال کماؤں ۔۔ اور کوئی ہمارے جیسے نکمے بس کوئی کرامت ہی ظاہر ہو جاے اور دولت کے ڈھیر لگ جائیں ہم لوگ بلا تحقیق ہر بات
کسی گاؤں میں ایک اللہ دتہ رہتا تھا لوگ اسے بس دتہ کہتے تھے
دتے کے گھر کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ایک دن تنگ آ کر وہ اچانک گاوں سے چپ چاپ غائب ہو گیا۔
گاوں سے دور نکل کر وہ ایک مدرسے میں جا پہنچا۔مدرسے کے مولوی صاحب سے اس نے کہا کہ وہ قرآن پاک حفظ کرنا چاہتا ہے۔انگوٹھا چھاپ دتے نے مولوی صاحب کی کچھ اس طرح منت سماجت کی کہ مولوی صاحب کا دل نرم ہو گیا۔ انہوں نے دتے کو قرآن پاک حفظ کروانا شروع کر دیا۔دن رات محنت کر کے دتے نے ایک سال میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔
قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد دتہ اسی طرح خاموشی سے گاوں واپس آ گیا۔ گاوں کے لوگوں نے نہ اس کے غائب ہونے کا نوٹس لیا تھا اور نہ ہی واپس آنے کا، میرے اور میرے ساتھ والے پنڈ کے لوگ ایسے ہی ہیں۔
دتہ سارا دن خاموشی سے گاوں میں مٹر گشت کرتا رہتا۔چھ ماہ گزرنے کے بعد ایک دن وہ گاوں کی بڑی مسجد کے بلند مینار پر چڑھ گیا۔اس زمانے میں لاؤڈ اسپیکر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مسجد کے مینار پر چڑھ کر اعلان یا اذان دیا کرتے تھے۔دتے نے مینار پر چڑھ کر بلند آواز میں لوگوں کو بتایا کہ
پچھلی رات جب میں سو رہا تھا تو خواب میں آ کر ایک فرشتے نے مجھے سینے سے لگایا ۔سینے سے لگاتے ہی مجھے قرآن پاک حفظ ہو گیا۔ لوگو! یہ بہت بڑی کرامت ہے جو میرے ساتھ ہو گئی ہے۔
ان پڑھ دتے کے منہ سے یہ دعویٰ سن کر گاوں والے حیران ہو کر رہ گئے۔
مسجد کے مولوی صاحب بھی اعلان سن کر گھر سے باہر نکل آئے۔گاوں والے سب کے سب بھی چوھدری سمیت مسجد کے گرد جمع ہو گئے۔ گاوں کا چوھدری حقے کا کش لگا کر بولا
"اوئے دتے تیرے پاس کیا ثبوت ہے اپنے دعوے کا؟
دتہ بولا چوھدری جی مجھ سے پورا قرآن پاک سن لو ۔اس کے ساتھ ہی اس نے بلند آواز میں قرآت شروع کر دی۔گاوں والے دتے کی قرآن پاک کی روانی دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ادھر دتہ آنکھیں بند کیئے تلاوت میں مشغول تھا۔میرے گاوں کے اور ساتھ والے پنڈ کے لوگ ایسی کرامات دیکھنے کے حد سے زیادہ شوقین ہیں۔چٹے ان پڑھ دتے کی اس کرامت نے ان لوگوں کو پاگل سا کر دیا۔ تلاوت کے دوران چند جوشیلے دیہاتیوں نے نعرہ تکبیر لگانا شروع کر دیا۔پنڈ کے مرد و زن جوش و خروش سے نعروں کے جواب دینے لگے۔
مولوی صاب کا پورا دھیان دتے کی تلاوت کی طرف تھا وہ دتے کی غلطی پکڑنا چاہتے تھے۔ لیکن دتے کی تلاوت میں ان کو کوئی غلطی نہیں مل رہی تھی۔
بالآخر مولوی جی نے اعلان کیا کہ دتے کی بتائی ہوئی کرامت حق پر مبنی ہے۔مولوی جی کی بات سن کر گاوں والوں کے جذبات اپنے عروج پر پہنچ گئے۔کچھ تو خوشی سے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ میرے گاوں کے اور میرے ساتھ والے پنڈ کے لوگ ایسے ہی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ جذباتی ہو کر مینار پر چڑھنے لگے ۔انہوں نے اوپر پہنچ کر دتے کے ہاتھ پاؤں چوم کر عقیدت کا اظہار کیا اور اپنے آپ کو ان خوش نصیبوں میں شمار کرنے لگے جنہوں نے سب سے پہلے دتے کے ہاتھ پاؤں چومے تھے۔خیر ان عقیدت مندوں نے آنکھیں بند کر کے تلاوت کرتے ہوئے دتے کو کندھوں پر اٹھا لیا اور بہت احترام سے مینار سے نیچے اتار لائے جبکہ دتہ ہنوز آنکھیں بند کئے تلاوت میں مشغول تھا۔دتے کے مینار سے نیچے اترتے ہی چوھدری نے روتے ہوئے اپنے کھیسے (جیب)میں سے ہاتھ ڈال کر دس کا نوٹ نکالا اور دتے کے مٹھی میں دے دیا۔باقی گاؤں والے بھی حسب توفیق دتے کی خدمت کرنے لگے۔
دتہ اچانک پیر بن چکا تھا۔اس کو کندھے پر اٹھا کر گھر پہنچایا گیا۔ نہلا دہلا کر نیا جوڑا پہنایا گیا۔اس کے بعد لنگر کا اہتمام کیا گیا۔ وہ دتہ جس کو اپنی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے تھے اب اس کے لنگر پر غریب آکر اپنا پیٹ بھرنے لگے۔ قوالوں نے مستقل دتے کے گھر پر ڈیرے لگا لئے محفل سماع کا اہتمام کیا جانے لگا۔ جس میں لوگوں پر حال (وجد) طاری ہوتا۔دتے کو اونچی سی مسند پر بٹھا کر اس کے سامنے قوالیاں کی جاتیں۔ دھمالیں ڈال کر گھر پورا پورا دربار بنا دیا گیا تھا۔ قصہ مختصر ایک دن دتہ مرگیا
دتے کے مرنے کے بعد گاوں والوں نے باقاعدہ عرس شروع کر دیا۔
ایک بار اسی مدرسے والے مولوی صاحب بھی دربار پر منت مانگنے آئے جہاں سے دتے نے قرآن پاک حفظ کیا تھا۔ان مولوی صاحب کو بتایا گیا کہ یہ ایک کراماتی والے پیر کا دربار ہے جہاں منتیں مانی جاتی ہیں اور ہر کام ہو جاتا ہے۔مولوی کو پیر کی کرامات کے بارے میں بتایا گیا۔
دتے کے مزار کے کونے میں لگی ایک بڑی سے تصویر پر اچانک مولوی صاحب کی نظر پڑی تو دیکھ کر بوڑھے مولوی صاحب کو اپنا ایک شاگرد یاد آگیا۔مولوی صاحب سیانے تھے ساری کہانی سمجھ کر دربار پر دتے کے مریدوں کو اصل کہانی بتانے کی کوشش کی مگر مریدوں نے مولوی کی ٹھکائی شروع کر دی۔
مرید دتہ پیر جی کے خلاف ایک لفظ بھی سننے پر تیار نہ تھے بمشکل مولوی صاحب لنگر کھائے بغیر ہی جان بچا کر بھاگ نکلے اور پھر دوبارہ دربار کے قریب بھی جانے کی کوشش نہ کی۔
ان اندھیروں میں کوئی سچ کا دیا جلاتا بھی ہے مگر کوئی اس سجائی کو ماننے کے لئیے کوئی تیار نہیں حالانکہ ہمارے پاس قرآن وسنت کی روشنی موجود ہے مگر ہم اس روشنی سے فایدہ اٹھانا نہیں چاہتے
زبردست ۔۔۔ سبق آموز
اندھے عقائد رکھنے والوں کے لیے ایک سبق ہے۔
 

محمدشعیب

وفقہ اللہ
رکن
انسانی سوچ کے مختلف انداز ہوتے ہیں کسی کی سو میں محنت مزدوری کرکے۔ مال کماؤں ۔۔ اور کوئی ہمارے جیسے نکمے بس کوئی کرامت ہی ظاہر ہو جاے اور دولت کے ڈھیر لگ جائیں ہم لوگ بلا تحقیق ہر بات
کسی گاؤں میں ایک اللہ دتہ رہتا تھا لوگ اسے بس دتہ کہتے تھے
دتے کے گھر کے مالی حالات بہت خراب ہو گئے تھے۔ایک دن تنگ آ کر وہ اچانک گاوں سے چپ چاپ غائب ہو گیا۔
گاوں سے دور نکل کر وہ ایک مدرسے میں جا پہنچا۔مدرسے کے مولوی صاحب سے اس نے کہا کہ وہ قرآن پاک حفظ کرنا چاہتا ہے۔انگوٹھا چھاپ دتے نے مولوی صاحب کی کچھ اس طرح منت سماجت کی کہ مولوی صاحب کا دل نرم ہو گیا۔ انہوں نے دتے کو قرآن پاک حفظ کروانا شروع کر دیا۔دن رات محنت کر کے دتے نے ایک سال میں قرآن پاک حفظ کر لیا۔
قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد دتہ اسی طرح خاموشی سے گاوں واپس آ گیا۔ گاوں کے لوگوں نے نہ اس کے غائب ہونے کا نوٹس لیا تھا اور نہ ہی واپس آنے کا، میرے اور میرے ساتھ والے پنڈ کے لوگ ایسے ہی ہیں۔
دتہ سارا دن خاموشی سے گاوں میں مٹر گشت کرتا رہتا۔چھ ماہ گزرنے کے بعد ایک دن وہ گاوں کی بڑی مسجد کے بلند مینار پر چڑھ گیا۔اس زمانے میں لاؤڈ اسپیکر نہ ہونے کی وجہ سے لوگ مسجد کے مینار پر چڑھ کر اعلان یا اذان دیا کرتے تھے۔دتے نے مینار پر چڑھ کر بلند آواز میں لوگوں کو بتایا کہ
پچھلی رات جب میں سو رہا تھا تو خواب میں آ کر ایک فرشتے نے مجھے سینے سے لگایا ۔سینے سے لگاتے ہی مجھے قرآن پاک حفظ ہو گیا۔ لوگو! یہ بہت بڑی کرامت ہے جو میرے ساتھ ہو گئی ہے۔
ان پڑھ دتے کے منہ سے یہ دعویٰ سن کر گاوں والے حیران ہو کر رہ گئے۔
مسجد کے مولوی صاحب بھی اعلان سن کر گھر سے باہر نکل آئے۔گاوں والے سب کے سب بھی چوھدری سمیت مسجد کے گرد جمع ہو گئے۔ گاوں کا چوھدری حقے کا کش لگا کر بولا
"اوئے دتے تیرے پاس کیا ثبوت ہے اپنے دعوے کا؟
دتہ بولا چوھدری جی مجھ سے پورا قرآن پاک سن لو ۔اس کے ساتھ ہی اس نے بلند آواز میں قرآت شروع کر دی۔گاوں والے دتے کی قرآن پاک کی روانی دیکھ کر ہکا بکا رہ گئے۔ادھر دتہ آنکھیں بند کیئے تلاوت میں مشغول تھا۔میرے گاوں کے اور ساتھ والے پنڈ کے لوگ ایسی کرامات دیکھنے کے حد سے زیادہ شوقین ہیں۔چٹے ان پڑھ دتے کی اس کرامت نے ان لوگوں کو پاگل سا کر دیا۔ تلاوت کے دوران چند جوشیلے دیہاتیوں نے نعرہ تکبیر لگانا شروع کر دیا۔پنڈ کے مرد و زن جوش و خروش سے نعروں کے جواب دینے لگے۔
مولوی صاب کا پورا دھیان دتے کی تلاوت کی طرف تھا وہ دتے کی غلطی پکڑنا چاہتے تھے۔ لیکن دتے کی تلاوت میں ان کو کوئی غلطی نہیں مل رہی تھی۔
بالآخر مولوی جی نے اعلان کیا کہ دتے کی بتائی ہوئی کرامت حق پر مبنی ہے۔مولوی جی کی بات سن کر گاوں والوں کے جذبات اپنے عروج پر پہنچ گئے۔کچھ تو خوشی سے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ میرے گاوں کے اور میرے ساتھ والے پنڈ کے لوگ ایسے ہی خوشی کا اظہار کرتے ہیں۔ کچھ جذباتی ہو کر مینار پر چڑھنے لگے ۔انہوں نے اوپر پہنچ کر دتے کے ہاتھ پاؤں چوم کر عقیدت کا اظہار کیا اور اپنے آپ کو ان خوش نصیبوں میں شمار کرنے لگے جنہوں نے سب سے پہلے دتے کے ہاتھ پاؤں چومے تھے۔خیر ان عقیدت مندوں نے آنکھیں بند کر کے تلاوت کرتے ہوئے دتے کو کندھوں پر اٹھا لیا اور بہت احترام سے مینار سے نیچے اتار لائے جبکہ دتہ ہنوز آنکھیں بند کئے تلاوت میں مشغول تھا۔دتے کے مینار سے نیچے اترتے ہی چوھدری نے روتے ہوئے اپنے کھیسے (جیب)میں سے ہاتھ ڈال کر دس کا نوٹ نکالا اور دتے کے مٹھی میں دے دیا۔باقی گاؤں والے بھی حسب توفیق دتے کی خدمت کرنے لگے۔
دتہ اچانک پیر بن چکا تھا۔اس کو کندھے پر اٹھا کر گھر پہنچایا گیا۔ نہلا دہلا کر نیا جوڑا پہنایا گیا۔اس کے بعد لنگر کا اہتمام کیا گیا۔ وہ دتہ جس کو اپنی دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے رہتے تھے اب اس کے لنگر پر غریب آکر اپنا پیٹ بھرنے لگے۔ قوالوں نے مستقل دتے کے گھر پر ڈیرے لگا لئے محفل سماع کا اہتمام کیا جانے لگا۔ جس میں لوگوں پر حال (وجد) طاری ہوتا۔دتے کو اونچی سی مسند پر بٹھا کر اس کے سامنے قوالیاں کی جاتیں۔ دھمالیں ڈال کر گھر پورا پورا دربار بنا دیا گیا تھا۔ قصہ مختصر ایک دن دتہ مرگیا
دتے کے مرنے کے بعد گاوں والوں نے باقاعدہ عرس شروع کر دیا۔
ایک بار اسی مدرسے والے مولوی صاحب بھی دربار پر منت مانگنے آئے جہاں سے دتے نے قرآن پاک حفظ کیا تھا۔ان مولوی صاحب کو بتایا گیا کہ یہ ایک کراماتی والے پیر کا دربار ہے جہاں منتیں مانی جاتی ہیں اور ہر کام ہو جاتا ہے۔مولوی کو پیر کی کرامات کے بارے میں بتایا گیا۔
دتے کے مزار کے کونے میں لگی ایک بڑی سے تصویر پر اچانک مولوی صاحب کی نظر پڑی تو دیکھ کر بوڑھے مولوی صاحب کو اپنا ایک شاگرد یاد آگیا۔مولوی صاحب سیانے تھے ساری کہانی سمجھ کر دربار پر دتے کے مریدوں کو اصل کہانی بتانے کی کوشش کی مگر مریدوں نے مولوی کی ٹھکائی شروع کر دی۔
مرید دتہ پیر جی کے خلاف ایک لفظ بھی سننے پر تیار نہ تھے بمشکل مولوی صاحب لنگر کھائے بغیر ہی جان بچا کر بھاگ نکلے اور پھر دوبارہ دربار کے قریب بھی جانے کی کوشش نہ کی۔
ان اندھیروں میں کوئی سچ کا دیا جلاتا بھی ہے مگر کوئی اس سجائی کو ماننے کے لئیے کوئی تیار نہیں حالانکہ ہمارے پاس قرآن وسنت کی روشنی موجود ہے مگر ہم اس روشنی سے فایدہ اٹھانا نہیں چاہتے
ماشاءاللہ زبردست انداز میں سمجھایا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
البتہ ولبتہ کچھ نہیں سب جگہ پٹھان بہت ہی عقل مند اور پہنچے ہوئے ثابت ہوئے ہیں۔
علماء و مشائخ کی ایک بہت بڑی تعداد پٹھانوں پر مشتمل ہے
 
Top