شیخ عبدالقادر جیلانی کی فاقہ کشی

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
شیخ عبدالقادر جیلانی نے فرمایا: میں نہر کے کنارے سے خرنوب اشوک،گری پڑی سبزی اور خس کے پتے لے کر آتا اور ان کو کھاکر گذارہ کرتا، بغداد میں اس قدر ہوش ربا گرانی تھی کہ مجھے کئی دن بغیر کھائے ہوجاتے تھے، اور میں اس تلاش میں رہتا تھا کہ کہیں کوئی پھینکی ہوئی چیز مل جائے تو اسے اٹھاکر بھوک مٹالوں، ایک روز، بھوک کی شدت میں اس امید پر دریا کے کنارے چلاگیا کہ شاید مجھے خس یا سبزی وغیرہ کے پتے پڑے ہوئے مل جائیں گے، تو اسے کھالوں گا، مگر میں جہاں بھی پہنچا معلوم ہوا، مجھ سے پہلے کوئی دوسرا اٹھاکر لے گیا، کہیں کچھ ملا بھی تو وہاں دوسرے غریبوں اور ضرورت مندوں کو اس پر چھینا جھپٹی کرتے ہوئے دیکھا، اور میں ان کی محبت میں اسے چھوڑ کر چلاآیا۔

میں وہاں سے چلتا ہوا اندرونِ شہر آیا، خیال تھا کہ کوئی پھینکی ہوئی چیز مل جائے گی لیکن یہاں بھی اندازہ ہوا کہ کوئی مجھ سے پہلے اٹھاکر لے گیا ․․․․ میں بغداد کے ”عطر بازار“ میں واقع مسجد یاسین کے پاس پہنچا تو بہت ہی نڈھال ہوچکا تھا اور قوتِ برداشت جواب دے چکی تھی، میں مسجد میں داخل ہوگیا، اور ایک کونے میں بیٹھ کر موت کا انتظار کرنے لگا۔

اتنے ہی میں ایک عجمی نوجوان صاف ستھری روٹیاں اور بھنا ہوا گوشت لے کر آیا اور بیٹھ کر انہیں کھانا شروع کردیا وہ جب لقمہ لیکر ہاتھ اوپر کرتا تو بھوک کی شدت کی وجہ سے بے اختیار میرا منھ کھل جاتا، کچھ دیر کے بعد میں نے اپنے آپ کو ملامت کی، اور دل میں کہا: یہ کیاحرکت ہے؟ یا تو خدا کھانے پینے کا کوئی انتظام کرے گا،اوراگرموت کا فیصلہ لکھ چکا ہے تو پھر وہ پورا ہوکر رہے گا!!

اچانک عجمی کی نظر میرے اوپر پڑی، اوراس نے مجھے دیکھ کر کہا: بھائی، آؤ کھانا کھالو، میں نے منع کردیا، اس نے قسم دی تو میرے نفس نے لپک کر کہا کہ اس کی بات مان لو، لیکن میں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے پھر انکار کردیا، اس نے پھر قسم دی، اور آخر میں راضی ہوگیا اور رُک رُک کر تھوڑا تھوڑا کھانے لگا، وہ مجھ سے پوچھنے لگا، تم کیا کرتے ہو؟ کہاں کے ہو؟ اور کیا نام ہے؟ میں نے کہا: میں جیلان سے پڑھنے کے لئے آیا ہوں، اس نے کہا: ”میں بھی جیلان کا ہوں“ کیا تم ابوعبداللہ صومعی درویش کے نواسے، عبدالقادر نامی، جیلانی نوجوان کو جانتے ہو؟ میں نے کہا: میں وہی تو ہوں!۔
(صبر و استقامت ، ص:۱۰۷، ترجمہ : عبدالستار قاسمی)
 
Top