اللہ تعالیٰ کی محبت

خواجہ ابو اسحاق شامی

شرف الدین چشتی
رکن
صوفیأ حضرات اپنی تعلیمات میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیتے ہیں وہ عشق ومحبتِ خداوندی ہے ،کیونکہ محبت ہی ایک ایسی چیزہے جو محب کو اپنے محبوب کی اطاعت پر مجبور کرتی ہے اور اس کی نا فرمانی سے روکتی ہے اور محب کے دل میں محبوب کی رضا کی خاطر ہر مصیبت و تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی قوت وصلاحیت پیدا کرتی ہے،اور محبت ہی وہ چیز ہے جو محب کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ایسا عمل کرے جس سے محبوب راضی ہو اور ہر اس عمل وکردارسے باز رہے جس سے محبوب ناراض ہو ، چنانچہ صوفیأ حضرات اگر زہد، تقویٰ،عبادت،ریاضت اور مجاہدے اختیار کرتے ہیں تو ان کا مقصد صرف اور صرف خداکی رضا حاصل کرنا ہوتا ہے۔وہ جنت کی لالچ یا جہنم کے خوف سے خداکی بندگی نہیں کرتے

چنانچہ حضرت رابعہ بصریہؒ اپنی ایک دعا میں فرماتی ہیں :
’’خدایا! اگر میں تیری بندگی جنت کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اس سے محروم رکھنا ،اگر میں جہنم کے خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے اس میں جھونک دینا، لیکن اگر میں تیری بندگی تجھے پانے کے لیے کرتی ہوں تو مجھے اپنے آپ سے محروم نہ رکھنا ‘‘۔
(مرزا قلیچ بیگ:مقالات الاولیاء ،سندھ پرنٹنگ ،پریس ،نوشہری دروازہ شکارپور ،۱۹۲۷ء ص: ۱۵ ۔)

فراق و وصل چہ خواہی رضائے دوست طلب
کہ حیف باشد ازو غیر ازیں تمنائے
ترجمہ: ’’ فراق وو صل کیا ڈھونڈتا ہے ،محبوب کی رضا مندی ڈھونڈ کہ محبوب سے محبوب کے سوا کی تمنا کرنا افسوس کی بات ہے ‘‘ ۔
(مولانا محمد زکریا :شریعت وطریقت کا تلازم ،طبع اول: ۱۹۹۳ء ،ص:۱۰۲ ۔)

علامہ شبلیؒ تو یہاں تک فرماتے ہیں:
’’الصوفی لا یریٰ فی الدارین مع اللّٰہ غیراللّٰہ ‘‘۔
(کشف المحجوب، ص:۷۶۔)
ترجمہ: ’’ صوفی دونوں جہانوں میں اللہ تعالیٰ کی ہستی کے علاوہ اور کسی چیز کو نہیں دیکھتا۔ ‘‘

امام ربانیؒ فرماتے ہیں :’’ مقربین بارگاہِ الٰہی ( یعنی صوفیأ حضرات ) اگر بہشت چاہتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ ان کا مقصد نفس کی لذت ہے ، بلکہ اس لیے کہ وہ خدا کی رضا کی جگہ ہے۔ اگر وہ دوزخ سے پناہ مانگتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ اس میں رنج والم ہے ، بلکہ اس لیے کہ وہ خدا کی ناراضی کی جگہ ہے ، ورنہ ان کے لیے انعام اور رنج والم دونوں برابر ہیں، ان کا اصل مقصود رضائے الٰہی ہے‘‘۔
(امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی: مکتوبات امام ربانی ،کراچی دار الاشاعت ،طبع اول: ۲۰۰۶ء، مکتوب: ۳۵، جلد اول،ص: ۱۹۱۔)

شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ فرماتے ہیں:
محبت سندو من ۾ ماڻڪ ٻارج مچ
ان پر اٿي اچ تة سودو ٿئي سڦرو
(بھٹائی شاہ عبد اللطیف ؒ: شاہ جو رسالو، مرتب کلیان آدوانی ،روشنی پبلیکیشن کنڈیارو، طبع اول، ۱۹۹۷ء، سُر سریراگ ،داستان: اول، ص: ۱۱۴۔)
ترجمہ: ’’ اے موتی جیسے انسان ! اپنے اندر خدا کی محبت کا اَلاؤ جلا دے ، یہ راہ اختیار کرو گے توتمہارا لین دین کامیاب ہوگا۔‘‘
عاشقناﷲ ويرو تار نة وسري
اَه ڪريندي ساه ڪڏهن ويندو نڪري۔
ترجمہ:’’خدا سے عشق کرنے والے اسے کبھی نہیں بھلاتے، کبھی عشق ومحبت کی آہ بھرتے ہوئے ان کی روحیں پرواز ہو جا ئیں گی ‘‘۔
( شاہ جو رسالو، سر یمن کلیان، داستان :۷ ،ص: ۹۴۔)

اوریہی بات قرآن وسنت کی تعلیم ہے ، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’ وَالَّذِیْنَ أٰ مَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ‘‘۔
(البقرۃ: ۱۶۵۔ )
ترجمہ: ’’ اور جو لوگ مؤمن ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں ‘‘ ۔

ایک اور آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
’’ قُلْ إِنْ کَانَ أٰ بَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَإِخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ إِلَیْْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَأْتِیَ اللّٰہُ بِأَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ ‘‘۔
(التوبہ :۲۴ ۔)
ترجمہ: ’’ (اے رسول ا!مسلمانوں سے )کہہ دیجئے کہ اگر تمہیں اپنے باپ اور دادا اور بیٹے اوربھائی اور بیویاں اور رشتے دار ا ور وہ تجارت جس کے مندا پڑے جانے سے تم بہت ڈرتے ہو، اور وہ مکانات جنہیں تم بہت عزیز رکھتے ہو ، اگر ان میں سے کوئی چیز بھی تمہیں اﷲ سے اور اس کے رسول (ا) سے اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ پیاری ہے تو پھر انتظار کرو، یہاں تک کہ اﷲ کا فیصلہ صادر ہو جائے اور یاد رکھو کہ اﷲ فاسقوں کوہدایت نہیں دیا کرتا‘‘ ۔

آپ ا نے ارشاد فرمایا :
’’من أحب للّٰہ وأبغض للّٰہ و أعطٰی للّٰہ ومنع للّٰہ فقد استکمل الإیمان ‘‘۔
( الخطیب محمد بن عبداﷲ :’’ مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کراچی، قدیمی کتب خانہ ،ص: ۱۴ ۔)
ترجمہ:’’ جس شخص کا یہ حال ہو کہ و ہ اﷲہی کے لیے محبت کرے اور اﷲ ہی کے لیے بغض رکھے اور اﷲ ہی کے لیے دے اور کسی کو کچھ دینے سے اﷲ ہی کے لیے ہاتھ روکے تو اس نے اپنے ایمان کو کا مل کر لیا ‘‘ ۔

آپ یہ دعا مانگا کرتے تھے :
’’ أللّٰھم اجعل حبک أحب إلی من نفسی وأھلی ومن الماء البارد‘‘۔
( ایضاً، ص:۲۲۰۔ )
ترجمہ:’’ اے اﷲ! مجھے ایسا کر دے کہ تیری محبت اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال سے اور پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب ہو‘‘ ۔
اور صوفیأ حضرات اسی محبت کو اپنے دل میں اور اپنے مریدین کے دل میں پیدا کرنے کے لیے مجاہدے اور ریاضت کرتے ہیں اور کراتے ہیں۔
 
Top