فروغِ علم کا ایک اہم ذریعہ یہ ہے کہ تعلیم وتربیت کے لیے مکاتب، مدارس، رباطات، ادارے اور مراکز قائم کیے جائیں ، ان کے لیے اوقاف خاص کیے جائیں ، ان میں تعلیم دینے والوں کے لیے وظائف مقرر کیے جائیں اور تعلیم حاصل کرنے والوں کے مصارف برداشت کیے جائیں ۔جن لوگوں نے خود کو علمی کاموں کے لیے وقف کررکھاہے انہیں معاشی تگ ودورکرنے سے آزاد رکھا جائے۔ اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ حکم راں طبقے سے تعلق رکھنے والی اور دولت وثروت سے بہرہ ور خواتین نے ہر دور میں یہ خدمات انجام دی ہیں ۔ یہاں صرف چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں :
عباسی خلیفہ ہارون رشید (م۱۹۳ھ)کی بیوی زبیدہ بنت جعفر (م ۲۱۶ھ) کو رفاہی کاموں کی انجام دہی کے معاملے میں بہت شہرت حاصل ہے۔ اسے قرآن مجید کی تعلیم سے بہت دل چسپی تھی۔ ابن خلکان نے لکھاہے کہ اس نے اپنی سو (۱۰۰) باندیوں کو اس کے لیے فارغ کررکھاتھا:
کان لھا ماءۃ جاریۃ یحفظن القرآن، ولکل واحدۃ وِرد عُشر القرآن، وکان یسمع في قصرھا کدويّ النحل من قرا ء ۃ القرآن (وفیات الأعیان، ۳؍۳)
’’اس کی سو سے زیادہ باندیاں تھیں ، جو زیادہ تر وقت قرآنِ کریم کی تلاوت اور حفظ میں مشغول رہتی تھیں ۔ ان میں سے ہر ایک قرآن کے دسویں حصہ کی تلاوت کرتی تھی۔ محل میں ان کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کے مثل سنائی دیتی تھی۔‘‘
زمرّد خاتون(۵۵۷ھ)، جو دمشق کے حکم راں الملک دقّاق کی بہن تھیں ، انھوں نے ایک مدرسہ قائم کیا تھا، جو المدرسۃ الخاتونیۃ البرانیۃ کے نام سے معروف تھا۔
[الزرکلی، الاعلام،۳؍۴۹ ]
عائشہ ہانم ( بارہویں صدی ہجری) نے ۱۱۵۴ھ میں ایک مسافر خانہ تعمیر کرایا تھا جس کو ’ سبیل عائشہ ہانم ‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے اوپر انھوں نے قرآن کی تعلیم کے لیے ایک مکتب قائم کیا تھا اور ان دونوں کے مصارف کے لیے بہت سی جائیدادیں وقف کر دی تھیں اور اپنے ورثاء کو ان کا متولّی بنا دیا تھا۔
[ عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۳؍۱۹۴ ]
یمن کے سلطان الملک المظفر کی بیوی مریم نے زبید میں المدرسۃ المجاھدیۃ قایم کیا، اس میں یتیم اور غریب بچوں اور دیگر طالب علموں کو داخل کیا، اس میں امام، مؤذن اور معلّم کو رکھا اوراس کے مصارف کے لیے وقف کا معقول نظم کیا۔[عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۵؍۴۰]السیدۃ ملکۃ بنت ابراہیم البعلیۃ الدمشقیۃ نے خواتین کے لیے مخصوص ایک رباط قائم کیا، جس میں قرآن مجید کے حفظ اور حدیث نبوی کی تعلیم کا نظم کیا۔
[ عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۲؍۳]
عباسی خلیفہ ہارون رشید (م۱۹۳ھ)کی بیوی زبیدہ بنت جعفر (م ۲۱۶ھ) کو رفاہی کاموں کی انجام دہی کے معاملے میں بہت شہرت حاصل ہے۔ اسے قرآن مجید کی تعلیم سے بہت دل چسپی تھی۔ ابن خلکان نے لکھاہے کہ اس نے اپنی سو (۱۰۰) باندیوں کو اس کے لیے فارغ کررکھاتھا:
کان لھا ماءۃ جاریۃ یحفظن القرآن، ولکل واحدۃ وِرد عُشر القرآن، وکان یسمع في قصرھا کدويّ النحل من قرا ء ۃ القرآن (وفیات الأعیان، ۳؍۳)
’’اس کی سو سے زیادہ باندیاں تھیں ، جو زیادہ تر وقت قرآنِ کریم کی تلاوت اور حفظ میں مشغول رہتی تھیں ۔ ان میں سے ہر ایک قرآن کے دسویں حصہ کی تلاوت کرتی تھی۔ محل میں ان کی آواز شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کے مثل سنائی دیتی تھی۔‘‘
زمرّد خاتون(۵۵۷ھ)، جو دمشق کے حکم راں الملک دقّاق کی بہن تھیں ، انھوں نے ایک مدرسہ قائم کیا تھا، جو المدرسۃ الخاتونیۃ البرانیۃ کے نام سے معروف تھا۔
[الزرکلی، الاعلام،۳؍۴۹ ]
عائشہ ہانم ( بارہویں صدی ہجری) نے ۱۱۵۴ھ میں ایک مسافر خانہ تعمیر کرایا تھا جس کو ’ سبیل عائشہ ہانم ‘ کہا جاتا تھا۔ اس کے اوپر انھوں نے قرآن کی تعلیم کے لیے ایک مکتب قائم کیا تھا اور ان دونوں کے مصارف کے لیے بہت سی جائیدادیں وقف کر دی تھیں اور اپنے ورثاء کو ان کا متولّی بنا دیا تھا۔
[ عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۳؍۱۹۴ ]
یمن کے سلطان الملک المظفر کی بیوی مریم نے زبید میں المدرسۃ المجاھدیۃ قایم کیا، اس میں یتیم اور غریب بچوں اور دیگر طالب علموں کو داخل کیا، اس میں امام، مؤذن اور معلّم کو رکھا اوراس کے مصارف کے لیے وقف کا معقول نظم کیا۔[عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۵؍۴۰]السیدۃ ملکۃ بنت ابراہیم البعلیۃ الدمشقیۃ نے خواتین کے لیے مخصوص ایک رباط قائم کیا، جس میں قرآن مجید کے حفظ اور حدیث نبوی کی تعلیم کا نظم کیا۔
[ عمر رضا کحالۃ،اعلام النساء،۲؍۳]