منصور کے درباریوں میں ایک صاحب جن کا نام ابوالعاس طوسی تھا، حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی روز افزوں مقبولیت اس کوبھی دوسرے حاسدوں کی طرح ایک لمحہ نہ بھاتی تھی ایک روز جب خلیفہ منصور کا دربار لگا ہوا تھا تو اس نے موقع غنیمت سمجھتے ہوئے بر سرِدر بار امام صاحب سے مسئلہ دریافت کرتے ہوئے کہا:
اے ابوحنیفہ! یہ بتائیے کہ اگر امیر المومنین ہم میں سے کسی کو حکم دیں کہ فلاں آدمی کی گردن ماردو اور معلوم نہ ہو کہ اس شخص کا قصور کیا ہے تو کیا ہمارے لیے اس کی گردن مارنی جائز ہوگی؟
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ابوالعاس سے برجستہ سوال فرمایا کہ ابوالعاس! میں تم سے پوچھتا ہوں کہ امیر المومنین صحیح حکم دیتے ہیں یا غلط؟
ابوالعاس طوسی نے کہا کہ امیر المومنین غلط حکم کیوں دینے لگے ان کا تو ہر حکم صحیح ہوتا ہے۔ تب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: تو صحیح حکم کے نافذ کرنے میں تردکی گنجائش کیا ہے؟ طوسی امام صاحب سے یہ جواب پا کر کھسیانا ہو کر بے حد شرمندہ ہوا۔ جس جال میں وہ امام صاحب کو پھنسانا چاہتا تھا اس میں وہ خود پھنس گیا۔
الجھا ہے پاؤں یا رکا زلفِ دراز میں
لوآپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
(عقودایمان)
اے ابوحنیفہ! یہ بتائیے کہ اگر امیر المومنین ہم میں سے کسی کو حکم دیں کہ فلاں آدمی کی گردن ماردو اور معلوم نہ ہو کہ اس شخص کا قصور کیا ہے تو کیا ہمارے لیے اس کی گردن مارنی جائز ہوگی؟
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے ابوالعاس سے برجستہ سوال فرمایا کہ ابوالعاس! میں تم سے پوچھتا ہوں کہ امیر المومنین صحیح حکم دیتے ہیں یا غلط؟
ابوالعاس طوسی نے کہا کہ امیر المومنین غلط حکم کیوں دینے لگے ان کا تو ہر حکم صحیح ہوتا ہے۔ تب امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا: تو صحیح حکم کے نافذ کرنے میں تردکی گنجائش کیا ہے؟ طوسی امام صاحب سے یہ جواب پا کر کھسیانا ہو کر بے حد شرمندہ ہوا۔ جس جال میں وہ امام صاحب کو پھنسانا چاہتا تھا اس میں وہ خود پھنس گیا۔
الجھا ہے پاؤں یا رکا زلفِ دراز میں
لوآپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
(عقودایمان)