حضرت شیخ احمد سہروردیؒ فرماتے ہیں کہ خداوندقدوس نے ہر انسان میں چھ لطائف کو پیدا فرمایا ہے جن کے حقائق جدا جدا ہیں ان لطائف سے ہر لطیفہ کو تعلق اور ارتباط ہے۔ بدن کے بعض اعضاء سے قلب کا تعلق بائیں چھاتی کے نیچے دوانگل پر ہے۔ روح کا ارتباط داہنی چھاتی کے نیچے بمقابلہ دل کے ہے اور سر کا تعلق داہنی چھاتی کے اوپر وسط سینے کی طرف جھکتے ہوئے اور خفی بائیں چھاتی کے اوپر وسط سینہ کی طرف مائل ہے اور اخفیٰ کا مقام خٖٖفی کے اوپر ہے اور سر وسط میں ہے اور نفس کا مقام دماغ کے بطن اول میں ہے اور سر ایک عضو میں اعضاء مذکورہ سے نبض کے مانند حرکت ہے۔ پس تفصیل یہ ہے:
(۱) لطیفہ قلب (۲) لطیفہ روح (۳) لطیفہ سر (۴) لطیفہ خفی (۵) لطیفہ اخفیٰ (۶) لطیفہ نفس۔
پس ہر لطیفہ نورانی ہے اور ہر لطیفہ میں ایک نور ہے اور ہر لطیفہ نبض کی طرح متحرک ہے اور ہر لطیفہ سے صوفیاء کرام اور اولیاء عظام ذکر کرواتے ہیں۔ گویا کہ صوفیاء کرام کا ہر لطیفہ ذاکر ہوتا ہے، اللہ سے یا لاالٰہ الااللہ سے۔
نفس سات ہیں: (۱) نفس امارۃ (۲) نفس لوامہ (۳) نفس مطمئنہ (۴) نفس ملہمہ (۵) نفس راضیہ (۶) نفس مرضیہ (۷) نفس کاملہ۔
بعض نے کہا ہے کہ نفس تین ہیں: امارہ۔ لوامہ۔ مطمئنہ۔ باقی اس کی صفات ہیں۔ بعض نے کہا کہ نفس صرف ایک ہے اور باقی صفات ہیں۔ مجھے جو طریقہ اپنے مرشد بزرگوار سے ملا ہے کہ ذکر کیسے کرنا چاہیے وہ یہ ہے:
لفظ لا کو ناف سے کھینچا جائے، الاّ کو دماغ کی جھلی سے، ’’ھَ‘‘ کو بائیں کاندھے سے اور الاّ کو داہنے کاندھے سے کھینچ کر لفظ اللہ کی دل پر ضرب لگائی جائے۔ جیسا کہ نقشہ سے ظاہرہے:
امارہ وہ نفس ہے جو سرکش ہو اور گناہ کرنے پر دلیری دے اور توبہ کی توفیق نہ ہو۔
لوامہ وہ ہے جو گناہ کے بعد ملامت کرے کہ ہائے تو نے ایسا کام کیوں کیا ہے۔
ملہمہ وہ ہے جس سے الہام ہوتا ہے۔
مطمئنہ وہ ہے جس سے عبادت وریاضت کے ساتھ اطمینان حاصل ہو۔
راضیہ وہ ہے جو خدا کی حکمت اور حکم کے ساتھ راضی ہو، ہر تکلیف دکھ، سکھ، غمی اور خوشی میں راضی ہو۔
مرضیہ وہ ہے جس سے راضی ہوجانے کے بعد شکوہ وشکایت کرنے کی کبھی گنجائش نہ ہو۔
کاملہ نفس عارفین کا ہے۔
اگر اللہ کا ذکر کیا جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دل میں ایک خیالی دائرہ بنائے جوکہ مراقبہ کرتے وقت اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھے، اس دائرہ کے اندر ہی لفظ اللہ کو پڑھتا رہے۔ یہاں تک کہ ذکر اس پر غالب آجائے اور وہ مغلوب ہوجائے پس وہ دائرہ نور بن کر اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتا نظر آئے گا۔ جب تک تمام لطائف کے انوار سامنے گھومتے نظر نہ آئیں، مقام کشف تک پہنچنا محال ہے اور کشف کا حاصل ہونا دشوار ہے۔ اب دائرہ اور دل کا نقشہ سامنے ہے
(۱) لطیفہ قلب (۲) لطیفہ روح (۳) لطیفہ سر (۴) لطیفہ خفی (۵) لطیفہ اخفیٰ (۶) لطیفہ نفس۔
پس ہر لطیفہ نورانی ہے اور ہر لطیفہ میں ایک نور ہے اور ہر لطیفہ نبض کی طرح متحرک ہے اور ہر لطیفہ سے صوفیاء کرام اور اولیاء عظام ذکر کرواتے ہیں۔ گویا کہ صوفیاء کرام کا ہر لطیفہ ذاکر ہوتا ہے، اللہ سے یا لاالٰہ الااللہ سے۔
نفس سات ہیں: (۱) نفس امارۃ (۲) نفس لوامہ (۳) نفس مطمئنہ (۴) نفس ملہمہ (۵) نفس راضیہ (۶) نفس مرضیہ (۷) نفس کاملہ۔
بعض نے کہا ہے کہ نفس تین ہیں: امارہ۔ لوامہ۔ مطمئنہ۔ باقی اس کی صفات ہیں۔ بعض نے کہا کہ نفس صرف ایک ہے اور باقی صفات ہیں۔ مجھے جو طریقہ اپنے مرشد بزرگوار سے ملا ہے کہ ذکر کیسے کرنا چاہیے وہ یہ ہے:
لفظ لا کو ناف سے کھینچا جائے، الاّ کو دماغ کی جھلی سے، ’’ھَ‘‘ کو بائیں کاندھے سے اور الاّ کو داہنے کاندھے سے کھینچ کر لفظ اللہ کی دل پر ضرب لگائی جائے۔ جیسا کہ نقشہ سے ظاہرہے:
امارہ وہ نفس ہے جو سرکش ہو اور گناہ کرنے پر دلیری دے اور توبہ کی توفیق نہ ہو۔
لوامہ وہ ہے جو گناہ کے بعد ملامت کرے کہ ہائے تو نے ایسا کام کیوں کیا ہے۔
ملہمہ وہ ہے جس سے الہام ہوتا ہے۔
مطمئنہ وہ ہے جس سے عبادت وریاضت کے ساتھ اطمینان حاصل ہو۔
راضیہ وہ ہے جو خدا کی حکمت اور حکم کے ساتھ راضی ہو، ہر تکلیف دکھ، سکھ، غمی اور خوشی میں راضی ہو۔
مرضیہ وہ ہے جس سے راضی ہوجانے کے بعد شکوہ وشکایت کرنے کی کبھی گنجائش نہ ہو۔
کاملہ نفس عارفین کا ہے۔
اگر اللہ کا ذکر کیا جائے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دل میں ایک خیالی دائرہ بنائے جوکہ مراقبہ کرتے وقت اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھے، اس دائرہ کے اندر ہی لفظ اللہ کو پڑھتا رہے۔ یہاں تک کہ ذکر اس پر غالب آجائے اور وہ مغلوب ہوجائے پس وہ دائرہ نور بن کر اس کی آنکھوں کے سامنے گھومتا نظر آئے گا۔ جب تک تمام لطائف کے انوار سامنے گھومتے نظر نہ آئیں، مقام کشف تک پہنچنا محال ہے اور کشف کا حاصل ہونا دشوار ہے۔ اب دائرہ اور دل کا نقشہ سامنے ہے