مرحوم یوسف خان(دلیپ کمار) کے گھر میں

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
*مرحوم یوسف خان کے گھر میں انکی اہلیہ سائرہ فضائل اعمال کی تعلیم کرتی تھی*
یوسف خان عرف دلیپ کمار کی حضرت محی السنہ مولانا محمد ابرارالحق صاحب نور اللہ مرقدہ سے وقتاً فوقتاً ملاقات کرتے تھے
ممبئ میں حضرت محی السنہ کے قریبی اور خدام میں ایک اہم نام حاجی امتیاز بھوئیرا صاحب کا ہے ، جو ہردوئی کے فیض یافتہ ہیں، حضرت کے مجاز صحبت بھی تھے ( اب حضرت حکیم کلیم اللہ صاحب دامت برکاتہم کے مجاز ہیں )، احباب کے اصرار پر ان سے فون سے تفصیلی احوال معلوم کئے تاکہ قلمبند کر سکوں ۔

انھوں نے بتایا کہ واقعہ کی ابتداء ہوتی ہے ایک معروف اداکارہ وینا سے جن کا اصل نام تاجور سلطانہ تھا ، یہ یوسف خان سے چند ہی سال چھوٹی تھیں، ان کی پیدائش کوئٹہ پاکستان میں ہوئی ، ان کے ایک بیٹے ہیں ، پیشہ سے ڈاکٹر ہیں، غزنوی صاحب کے نام سے معروف ہیں، جماعت سے جڑے ہوئے ہیں، ہر رمضان ڈاکٹروں کی ایک جماعت حضرت محی السنہ رح سے استفادہ و اصلاح کی غرض ممبئی سے ہردوئی آتی تھی ، غزنوی صاحب اس میں مسلسل ہردوئی آتے تھے ، ان ہی محنت کا نتیجہ تھا کہ سائرہ بانو اپنے گھر میں فضائل اعمال کی تعلیم کیا کرتی تھی ۔
ایک دن غزنوی صاحب نے جناب حاجی فہیم الحق صاحب مدظلہ (سبط حضرت محی السنہ ) کو فون کیا کہ یوسف صاحب حضرت سے ملنا چاہتے ہیں، حاجی فہیم الحق صاحب نے امتیاز بھوئیرا صاحب کو حکم دیا کہ یوسف خان صاحب نانا جان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، اس کا انتظام کردیں ۔
غزنوی صاحب اور بھوئیرا صاحب کی گفتگو ہوئی تو بھوئیرا صاحب نے کہا میں حضرت سے پوچھ کر بتاتا ہوں، اس وقت حضرت بریج کینڈی اسپتال میں داخل تھے ، حضرت سے عرض کیا تو فرمایا کہ زیارت و ملاقات کے وقت میں بلا لیں ۔
واضح ہو کہ حضرت جب کہیں مہمان ہوتے ، خواہ کسی بھی غرض سے ہوں اگر صحت میں ذرا بھی بحالی ہوتی تو زیارت و ملاقات کا ایک وقت کا باقاعدہ اعلان کرادیتے ۔
اس عرصے شام کا وقت طے تھا ،
شام کو قریب 5 وہ اسپتال پہنچے اور بھوئیرا صاحب کو فون کیا ، انھوں نے حضرت سے بتایا ، تو حضرت نے کہا جاؤ انھیں اوپر لے کر آو، اوپر لے کر ، کمرے کے باہر روک دیا ، پھر اندر جاکر عرض کیا کہ یوسف صاحب آگئے ہیں، باوجودیکہ حضرت تنہا تھے ، کوئی مصروفیت نہ تھی ، حضرت نے فرمایا ابھی باہر ہی رہنے دو ، پانچ سات منٹ بعد بھوئیرا صاحب نے پھر یاددہانی کی ، مکرر فرمایا کہ ابھی رکو ۔
حضرت کی یہ ادا تھی ، جو انھیں کے ساتھ نہیں، اوروں کے ساتھ بھی ہوتی تھی، اس کا راز شاید حضرت کے خواص کے علم میں ہو ۔
کچھ دس سے بیس منٹ کا وقت اسی طرح گذرا، اس درمیان یوسف صاحب باہر بے چین ٹہلتے رہے ، پھر حکم دیا انھیں اندر بلاو ۔
جیسے ہی اندر گئے ، حضرت کا ہاتھ پکڑ کر زار و قطار رو پڑے، کہ میں نے اپنی زندگی برباد کرلی ، اس فلمی دنیا کی گندگی میں، اصل زندگی تو وہ ہے جو آپ حضرات جیتے ہیں اور بتاتے ہیں ، اس کے بعد حضرت نے تمام خدام کو باہر کردیا ، اور اندر طالب و مطلوب کے درمیان کیا گفتگو رہی اس کا ہمارے علم میں کوئی عینی شاہد نہیں ۔
یہ پہلی ملاقات تھی ، جو 2003 سے 2005 کے درمیان ہوئی ہے ، بھوئیرا صاحب سے سن کی تصدیق چاہی تو انھوں اسی کے درمیان بتایا ۔
اس کے بعد وہ حضرت محی السنہ رح کی مجلس میں مسلسل آتے رہے ، رابطے میں رہے ، سائرہ بانو بھی بارہا حاضر خدمت ہوئیں ۔
پھر جب حضرت کا قیام سہاگ پیلس میں ہوا تو یوسف خان صاحب نے بھوئیرا صاحب کو فون کیا کہ مجھے سہاگ پیلس معلوم نہیں ہے ، کیسے آؤں؟ تو امتیاز بھوئیرا صاحب نے کہا کہ آپ فلاں جگہ تک آئیں، وہاں سے میں رہبری کردوں گا، اس کے بعد سے سہاگ پیلس بھی مسلسل آمد و رفت رہی ۔
قیام گاہ کے علاوہ بھی بعض جگہوں پر جہاں حضرت محی السنہ رح کے بیانات ہوتے اس میں بھی مکمل حاضری دیتے رہے ۔
یہ اول اور بعد کی ملاقاتوں کی مختصر روداد تھی ، اس تحریر کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ایک واقعہ کی صحیح تصویر بیان کردی جائے ، چمن ہردوئی کا خوشہ چیں ہونے ناطے بعض دوستوں کا اصرار تھا کہ میں اسے لکھ دوں، اس لئے لکھنے کے سوا چارہ نہ تھا ۔
ملحوظہ : بندہ کی سمجھ میں مولانا دریابادی صاحب کی تحریر کی تطبیق یہ آتی ہے کہ یوسف صاحب کو سہاگ پیلس کا پتہ معلوم نہ ہوگا یا سرے سے قیام گاہ کا علم نہ ہوگا ، شاید اس لئے ان سے رابطہ کیا ہو ۔ واللہ اعلم
#محمد_توصیف_قاسمی
7 جولائی 2021
 
Top