حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ادوارِ خلافت میں اسلامی فتوحات کا دائرہ جن علاقوں تک وسیع ہوا، ان میں براعظم افریقہ کا علاقہ بھی شامل ہے۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جس وقت مصر اور اس کے متعلقہ علاقوں کے گورنر تھے تب انہوں نے افریقہ کے اطراف و اکناف کی طرف اسلامی دستے روانہ کرنا شرو ع کردئیے تھے تاکہ دشمن کے حالات کی اطلاع بھی ملتی رہے اور ان سے جنگ بارے کچھ تجربات بھی ہوتے رہیں۔
پھر سنہ ۲۶ ہجری میں حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کی گورنری سے معزول کردیا اور ان کی جگہ اپنے رضاعی بھائی حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر کردیا۔ چنانچہ وہ بھی اپنے پیشرو گورنر کی طرح افریقہ کی طرف اور خصوصاً تیونس کے علاقے کی طرف اپنے دستے بھیجتے رہے۔
آخر کار انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افریقہ کی طرف بڑے لشکر سے جہادی فتوحات کا سلسلہ شروع کرنے کے لئے اجازت طلب کی۔ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں موجود کبار صحابہ سے مشاورت لی اور آخر کار اجازت کا فیصلہ ہوگیا۔
اس جہاد کی خبر سن کر مدینہ منورہ میں موجود متعدد کبار صحابہ ،متعدد اہل بیت کے نمایاں و سرکردہ افراد اور مہاجرین و انصار صحابہ کی اولاد میں سے بہت سے حضرات اس میں شرکت کے لئے تیار ہوگئے۔ چنانچہ حضرت حارث بن حکم کی قیادت میں ایک بڑا لشکر مدینہ منورہ سے روانہ ہواتاکہ مصر پہنچ کر حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں افریقہ کی فتح اور جہاد میں شریک ہوسکے، چنانچہ یہ لشکر مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر مصر کے شہر فسطاط پہنچ گیا۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جس وقت مصر اور اس کے متعلقہ علاقوں کے گورنر تھے تب انہوں نے افریقہ کے اطراف و اکناف کی طرف اسلامی دستے روانہ کرنا شرو ع کردئیے تھے تاکہ دشمن کے حالات کی اطلاع بھی ملتی رہے اور ان سے جنگ بارے کچھ تجربات بھی ہوتے رہیں۔
پھر سنہ ۲۶ ہجری میں حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کی گورنری سے معزول کردیا اور ان کی جگہ اپنے رضاعی بھائی حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر کردیا۔ چنانچہ وہ بھی اپنے پیشرو گورنر کی طرح افریقہ کی طرف اور خصوصاً تیونس کے علاقے کی طرف اپنے دستے بھیجتے رہے۔
آخر کار انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افریقہ کی طرف بڑے لشکر سے جہادی فتوحات کا سلسلہ شروع کرنے کے لئے اجازت طلب کی۔ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں موجود کبار صحابہ سے مشاورت لی اور آخر کار اجازت کا فیصلہ ہوگیا۔
اس جہاد کی خبر سن کر مدینہ منورہ میں موجود متعدد کبار صحابہ ،متعدد اہل بیت کے نمایاں و سرکردہ افراد اور مہاجرین و انصار صحابہ کی اولاد میں سے بہت سے حضرات اس میں شرکت کے لئے تیار ہوگئے۔ چنانچہ حضرت حارث بن حکم کی قیادت میں ایک بڑا لشکر مدینہ منورہ سے روانہ ہواتاکہ مصر پہنچ کر حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں افریقہ کی فتح اور جہاد میں شریک ہوسکے، چنانچہ یہ لشکر مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر مصر کے شہر فسطاط پہنچ گیا۔