افریقہ کی فتوحات پر ایک طائرانہ نظر

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ادوارِ خلافت میں اسلامی فتوحات کا دائرہ جن علاقوں تک وسیع ہوا، ان میں براعظم افریقہ کا علاقہ بھی شامل ہے۔

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جس وقت مصر اور اس کے متعلقہ علاقوں کے گورنر تھے تب انہوں نے افریقہ کے اطراف و اکناف کی طرف اسلامی دستے روانہ کرنا شرو ع کردئیے تھے تاکہ دشمن کے حالات کی اطلاع بھی ملتی رہے اور ان سے جنگ بارے کچھ تجربات بھی ہوتے رہیں۔

پھر سنہ ۲۶ ہجری میں حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کی گورنری سے معزول کردیا اور ان کی جگہ اپنے رضاعی بھائی حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر کردیا۔ چنانچہ وہ بھی اپنے پیشرو گورنر کی طرح افریقہ کی طرف اور خصوصاً تیونس کے علاقے کی طرف اپنے دستے بھیجتے رہے۔

آخر کار انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افریقہ کی طرف بڑے لشکر سے جہادی فتوحات کا سلسلہ شروع کرنے کے لئے اجازت طلب کی۔ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں موجود کبار صحابہ سے مشاورت لی اور آخر کار اجازت کا فیصلہ ہوگیا۔

اس جہاد کی خبر سن کر مدینہ منورہ میں موجود متعدد کبار صحابہ ،متعدد اہل بیت کے نمایاں و سرکردہ افراد اور مہاجرین و انصار صحابہ کی اولاد میں سے بہت سے حضرات اس میں شرکت کے لئے تیار ہوگئے۔ چنانچہ حضرت حارث بن حکم کی قیادت میں ایک بڑا لشکر مدینہ منورہ سے روانہ ہواتاکہ مصر پہنچ کر حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں افریقہ کی فتح اور جہاد میں شریک ہوسکے، چنانچہ یہ لشکر مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر مصر کے شہر فسطاط پہنچ گیا۔
 

مولانانورالحسن انور

رکن مجلس العلماء
رکن مجلس العلماء
حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ادوارِ خلافت میں اسلامی فتوحات کا دائرہ جن علاقوں تک وسیع ہوا، ان میں براعظم افریقہ کا علاقہ بھی شامل ہے۔

حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ جس وقت مصر اور اس کے متعلقہ علاقوں کے گورنر تھے تب انہوں نے افریقہ کے اطراف و اکناف کی طرف اسلامی دستے روانہ کرنا شرو ع کردئیے تھے تاکہ دشمن کے حالات کی اطلاع بھی ملتی رہے اور ان سے جنگ بارے کچھ تجربات بھی ہوتے رہیں۔

پھر سنہ ۲۶ ہجری میں حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کی گورنری سے معزول کردیا اور ان کی جگہ اپنے رضاعی بھائی حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح رضی اللہ عنہ کو گورنر مقرر کردیا۔ چنانچہ وہ بھی اپنے پیشرو گورنر کی طرح افریقہ کی طرف اور خصوصاً تیونس کے علاقے کی طرف اپنے دستے بھیجتے رہے۔

آخر کار انہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے افریقہ کی طرف بڑے لشکر سے جہادی فتوحات کا سلسلہ شروع کرنے کے لئے اجازت طلب کی۔ حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مدینہ منورہ میں موجود کبار صحابہ سے مشاورت لی اور آخر کار اجازت کا فیصلہ ہوگیا۔

اس جہاد کی خبر سن کر مدینہ منورہ میں موجود متعدد کبار صحابہ ،متعدد اہل بیت کے نمایاں و سرکردہ افراد اور مہاجرین و انصار صحابہ کی اولاد میں سے بہت سے حضرات اس میں شرکت کے لئے تیار ہوگئے۔ چنانچہ حضرت حارث بن حکم کی قیادت میں ایک بڑا لشکر مدینہ منورہ سے روانہ ہواتاکہ مصر پہنچ کر حضرت عبداللہ بن سعد بن ابی السرح رضی اللہ عنہ کی قیادت میں افریقہ کی فتح اور جہاد میں شریک ہوسکے، چنانچہ یہ لشکر مدینہ منورہ سے روانہ ہوکر مصر کے شہر فسطاط پہنچ گیا۔
فسطاط کے بارے میں بھی لکھدیں
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فسطاط کے بارے میں بھی لکھدیں


مدینہ سے مصر تک مسلمان فاتحین نے بہت سے نئے شہر آباد کئے جو آج بھی تہذیب وثقافت کے آئینہ دار ہیں ۔اگرچہ کچھ شہروں اورملکوں کے نام تبدیل کردئےے گئے اور امتداد زمانہ کے بعد ان پر کڑا وقت بھی آیا لیکن ابھی تک ان شہروں میں قدیم مسلمانوں کے آثار نظر آتے ہیں ۔آج کے مصری شہر قاہرہ سے ملحقہ ایک پراناقاہرہ بھی موجود ہے جس کو عظیم القدر صحابی رسولؓ فاتح فاتح اسکندریہ حضرت عمرو بن عاصؓ نے تعمیر کرایا تھا ۔یہ شہر مسلم مصر میں الفسطاط کے نام سے معروف تھا ۔مسلمانوں کے عہد میں یہ مصر کا دارلحکومت تھا۔تاریخ بتاتی ہے کہ فتح اسکندریہ کے بعد حضرت عمروؓ نے حضرت عمر فاروقؓ کو لکھا کہ کیا ہم یہاں رہائش رکھ سکتے ہیں؟امیر المومنین نے جواب بھیجا ”مسلمانوں کو ایسی جگہ مت ٹھہراﺅ کہ میرے اور ان کے درمیان کوئی دریا یا سمندر حائل ہوتا ہو“،حضرت عمروؓ نے ساتھیوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے کہا ”اے امیر!آپ کے خیمے (فسطاط)کے پاس ہی ٹھہرانا چاہیے،وہاں پانی بھی ہے اور صحرا بھی ہے“

عمروؓنے لشکر کو حکم دیا اور وہ دریائے نیل کے مشرقی کنارے فسطاط (خیمے)کی جگہ آگئے اور وہ آپس میں کہتے تھے ”میں فسطاط کے دائیں جانب ہوں“اور ”میں فسطاط کے بائیں جانب ہوں۔“ اسی سے اس شہر کا نام فسطاط پڑ گیا۔ فتح مصر کے بعد نیا صدر مقام بابلیون کے نزدیک بسایا گیا جس کی نوعیت خالص عسکری تھی۔یہ نیا شہر دریائے نیل کے ساتھ ساتھ تقریباً تین میل تک پھیلا ہوا تھا۔ بابلیون کے شمال میں گورنر مصرحضرت عمروبن عاصؓ کی قیام گاہ تھی جس کی نشان دہی مسجد عمروؓ کرتی ہے۔254ھ/868ءمیں احمد بن طولون کی خود مختاری سے تاریخ مصر کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا جس کی یادگار جامع ابن طولون آج بھی موجود ہے۔آخری فاطمی خلیفہ العاضد کے عہد(555ھ۔567ھ)میں صلیبی جنگجو مصر آئے تو مورچہ بند قاہرہ کے برعکس فسطاط کی حفاظت کا کوئی انتظام نہ تھا، لہٰذا اس پر عیسائیوں کے ممکنہ قبضے کے پیش نظر وزیر شاور نے19صفر567ھ/22نومبر1168ءکو اسے نذر آتش کرنے کاحکم دیا۔20ہزار سے زائد نقطہ(آتش گیر مادہ ،یعنی پٹرولیم وغیرہ)کے ظروف سارے شہر میں جگہ جگہ رکھوا دیئے گئے اور آگ45دن جلتی رہی۔اس کے بعد قاہرہ(تعمیر شدہ358ھ/969ئ)تجارت کا مرکز بن گیا۔ بچے کھچے فسطاط کو اب مصر العتیقہ یا قدیم قاہرہ کہا جانے لگا،چنانچہ اٹھارھویں صدی عیسوی کے اواخر میں حملہ آور فرانسیسیوں نے اسےLe Vieux Kaireکا نام دیا۔

خلیج امیر المومنین نہر فسطاط کے شمال میں دریائے نیل سے نکلتی اور قدیم عین الشمس (Heliopils)میں سے گزرتی تھی اور (شرقی ) میدان عبور کرکے .... سویس (سویز)کے قریب سمندر(خلیج قلزم)میں جاگرتی تھی۔یہ نہر گاد اور مٹی سے اٹ گئی تھی۔اسے عمرو بن عاصؓ نے صاف کرایا تاکہ اس کے ذریعے سے فسطاط اور حجاز کے درمیان مقامات مقدسہ کو اناج کی رسد پہنچائی جائے۔اب اسے”خلیج امیر المومنین“کا نام ملا۔ بعد میں اس کے مختلف قطعوں کے الگ الگ نام ہو گئے۔آخری صدیوں میں سمندر تک جانے کے بجائے یہ نہر قاہرہ کے شمال میں برکة الجب پر ختم ہو گئی تھی۔اس کی گزر گاہ اب تک قابل شناخت ہے۔

منقول
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
فسطاط کے بارے میں بھی لکھدیں
فسطاط کی فتح کے بعدحضرت عمروؓ نے چند روز تک یہاں قیام کیا اور یہیں سے حضرت عمرؓ کو خط لکھا کہ

’’ فسطاط فتح ہوچکا، اجازت ہو تو اسکندریہ پر فوجیں بڑھائی جائیں۔‘‘

وہاں سے منظوری آئی توحضرت عمروؓ نے کوچ کا حکم دیا۔ اتفاق سے حضرت عمروؓ کے خیمہ میں ایک کبوتر نے گھونسلہ بنالیا تھا۔خیمہ اکھاڑا جانے لگا توحضرت عمروؓ کی نگاہ پڑی حکم دیا کہ اس کو یہیں رہنے دو کہ ہمارے مہمان کوتکلیف نہ ہونے پائے۔ چونکہ عربی میں خیمہ کو فسطاط کہتے ہیں اورحضرت عمروؓ نے اسکندریہ سے واپس آکر اسی خیمہ کے قریب شہر بسایا اس لیے خود شہر بھی فسطاط کے نام سے مشہور ہوگیا اور آج تک یہی نام لیا جاتاہے، بہرحال ۲۱ھ میںحضرت عمروؓ نے اسکندریہ کا رخ کیا ۔ اسکندریہ اور فسطاط کے درمیان میں رومیوں کی جو آبادیاں تھیں، انہوں نے سدراہ ہونا چاہا، چنانچہ ایک جماعت عظیم سے جس میں ہزاروں قبطی بھی شامل تھے فسطاط کی طرف بڑھے کہ مسلمانوں کووہیں روک لیں، مقام کربون میں دونوں حریفوں کاسامنا ہوا۔ مسلمانوں نے نہایت طیش میں آکرجنگ کی اور بے شمار عیسائی مارے گئے۔پھر کسی نے روک ٹوک کی جرأت نہ کی اور حضرت عمروؓ نے اسکندریہ پہنچ کردم لیا۔ مقوقس جزیہ دے کر صلح کرنا چاہتا تھا لیکن رومیوں کے ڈر سے نہیں کرسکتا تھا، تاہم یہ درخواست کی کہ ایک مدت معین کے لیے صلح ہوجائے۔ حضرت عمروؓ نے انکار کیا۔ مقوقس نے مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لیے شہر کے تمام آدمیوں کو حکم دیا کہ ہتھیار لگا کر شہر پناہ کی فصیل پر مسلمانوں کے آمنے سامنے صف جما کر کھڑے ہوں، عورتیں بھی اس حکم میں داخل تھیں اوراس غرض سے کہ پہچانی نہ جاسکیں انہوں نے شہرکی طرف منہ کرلیاتھا۔

حضرت عمروؓ نے کہلا بھیجا کہ ہم تمہارا مطلب سمجھے لیکن تم کو معلوم نہیں کہ ہم نے اب تک جو ملک فتح کیے کثرت فوج کے بل پر نہیں کیے۔ تمہارا بادشاہ ہرقل جس سروسامان سے ہمارے مقابلے کو آیا تم کو معلوم ہے اور جونتیجہ ہوا وہ بھی مخفی نہیں۔ مقوقس نے کہا:سچ ہے یہی عرب ہیں جنہوں نے ہمارے بادشاہ کو قسطنطنیہ پہنچا کر چھوڑا۔ اس پر رومی سردار نہایت غضبناک ہوئے مقوقس کو بہت برا بھلا کہا اور لڑائی کی تیاریاں شروع کیں۔

مقوقس کی مرضی چونکہ جنگ کی نہ تھی اس لیے حضرت عمروؓ سے اقرار لے لیا تھا کہ چونکہ میں رومیوں سے الگ ہوں، اس وجہ سے میری قوم (یعنی قبطی) کو تمہارے ہاتھ سے ضرر نہ پہنچنے پائے۔ قبطیوں نے صرف یہی نہیں کیا کہ اس معرکہ میں دونوں سے الگ رہے بلکہ مسلمانوں کو بہت کچھ مدددی۔فسطاط سے اسکندریہ تک فوج کے آگے آگے پلوں کی مرمت کرتے اور سڑکیں بناتے گئے خود اسکندریہ کے محاصرہ میں بھی رسد وغیرہ کا انتظام انہیں کی بدولت ہوسکا۔ رومی کبھی کبھی قلعہ سے باہر نکل کر لڑتے تھے۔ ایک دن نہایت سخت معرکہ ہوا، تیروخدنگ سے گزر کر تلوار کی نوبت آئی۔ ایک رومی نے صف سے نکل کر کہا کہ جس کا دعویٰ ہو تنہامیرے مقابلے کوآئے۔حضرت مسلمہ بن خالدؓ نے گھوڑا بڑھایا۔ رومی نے ان کو زمین پردے ٹپکا اور جھک کر تلوار مارنا چاہتاتھا کہ ایک سوار نے آکر جان بچائی۔حضرت عمروؓ کو اس پر اس قدرغصہ آیا کہ متانت ایک طرف حضرت مسلمہؓ کے رتبہ کا بھی خیال نہ کرکے کہا کہ زنخوں کو میدان جنگ میں آنے کی کیاضرورت ہے۔حضرت مسلمہؓ کو نہایت ناگوار ہوا لیکن مصلحت کے لحاظ سے کچھ نہ کہا۔

لڑائی کا زور اسی طرح قائم تھا۔ آخر مسلمانوں نے اس طرح دل توڑ کر حملہ کیا کہ رومیوں کو دباتے ہوئے قلعہ کے اندرگھس گئے۔ دیرتک قلعہ کے صحن میں معرکہ رہا۔ آخر میں رومیوں نے سنبھل کر ایک ساتھ حملہ کیا اور مسلمانوں کو قلعہ سے باہر نکال کردروازے بندکردیئے۔ اتفاق یہ کہ حضرت عمرو بن العاصؓ اور مسلمہؓ اور دوشخص اور اندر رہ گئے۔ رومیوں نے ان لوگوں کو زندہ گرفتار کرنا چاہا لیکن جب ان لوگوں نے مردانہ وار جان دینی چاہی تو انہوں نے کہا کہ دونوں طرف سے ایک ایک آدمی مقابلے کو نکلے، اگر ہمارا آدمی مارا گیا تو ہم تم کو چھوڑ دیں گے کہ قلعہ سے نکل جائو اور تمہارا آدمی مارا جائے تو تم سب ہتھیار ڈال دو۔

حضرت عمروبن العاصؓ نے نہایت خوشی سے منظور کیا اور خود مقابلے کے لیے نکلنا چاہا۔حضرت مسلمہ نے روکا کہ تم فوج کے سردار ہو ، تم پر آنچ آئی تو انتظام میں خلل ہوگا۔ یہ کہہ کر گھوڑا بڑھایا۔ رومی بھی ہتھیار سنبھال چکا تھا۔ دیر تک وار ہوتے رہے بالآخر مسلمہؓ نے ایک ہاتھ مارا کہ رومی وہیں ڈھیر ہو کر رہ گیا ۔رومیوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ ان میں کوئی سردار ہے انہوں نے اقرار کے موافق قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور سب صحیح سلامت باہر نکل آئے۔حضرت عمروؓ نے حضرت مسلمہؓ سے اپنی گستاخی کی معافی مانگی اور انہوں نے نہایت صاف دلی سے معاف کردیا۔
 
Top