قرآن مجید میں بہت سی جگہ عقیدۂ آخرت کے اثبات کے لئے یہ دلیل پیش کی گئی ہے کہ اگر اس کائنات کی تخلیق کامنشا صرف یہی ہوتا کہ اس دنیا کا نقشہ وجود میں آجائے اور اس کا کوئی نتیجہ نہ ہو تو یہ محض ایک فعلِ عبث اور کھیل تماشا ہوتا اور اللہ تعالیٰ کی ذاتِ قدسی صفات کھیل تماشے سے بلند وبالا اور عبث ولا یعنی سے پاک اور منزہ ہے۔
’’ پس کیا تمہارا خیال ہے کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے۔ (سورۂ المؤمنون)
یہ کارخانہ عالم بے نتیجہ و بے مقصد نہیں بلکہ ذریعہ و وسیلہ ہے ایک بڑے مقصدکا، یہ عبوری و عارضی اور امتحانی وابتلائی زندگی خود مقصد نہیں بلکہ یہ تمہید ہے آخرت کی ،جہاں کی زندگی ابدالآباد کی زندگی ہوگی، سورئہ فاتحہ سے سورئہ الناس تک بے شمار مقامات پر محیر العقول معجزانہ اسلوب اور عجیب مؤثر انداز میں یہ حقیقت بار بار ذہن نشین کرائی گئی ہے، سورئہ فاتحہ میں جسے ایک مسلمان کم ازکم ۳۲ مرتبہ روزانہ پڑھتا یا سنتا ہے حق تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمتِ عامہ کے فوراً بعد یوم الدین کی مالکیت اور بادشاہی کااعلان کیا گیا ہے تاکہ ہر لحظہ یہ عقیدہ پیش نظر رہے کہ دنیا مقصد نہیں اصل منزلِ مقصود آخرت اور صرف آخرت ہے۔
(بصائر و عبر: ص۴۰۴)
’’ پس کیا تمہارا خیال ہے کہ ہم نے تمہیں عبث پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جائو گے۔ (سورۂ المؤمنون)
یہ کارخانہ عالم بے نتیجہ و بے مقصد نہیں بلکہ ذریعہ و وسیلہ ہے ایک بڑے مقصدکا، یہ عبوری و عارضی اور امتحانی وابتلائی زندگی خود مقصد نہیں بلکہ یہ تمہید ہے آخرت کی ،جہاں کی زندگی ابدالآباد کی زندگی ہوگی، سورئہ فاتحہ سے سورئہ الناس تک بے شمار مقامات پر محیر العقول معجزانہ اسلوب اور عجیب مؤثر انداز میں یہ حقیقت بار بار ذہن نشین کرائی گئی ہے، سورئہ فاتحہ میں جسے ایک مسلمان کم ازکم ۳۲ مرتبہ روزانہ پڑھتا یا سنتا ہے حق تعالیٰ کی ربوبیت اور رحمتِ عامہ کے فوراً بعد یوم الدین کی مالکیت اور بادشاہی کااعلان کیا گیا ہے تاکہ ہر لحظہ یہ عقیدہ پیش نظر رہے کہ دنیا مقصد نہیں اصل منزلِ مقصود آخرت اور صرف آخرت ہے۔
(بصائر و عبر: ص۴۰۴)