دنیا کے اندر اچھا ئی بھی پائی جاتی ہے اور برائی بھی پائی جاتی ہے۔ یہ تضاد شروع سے ہی جاری ہے۔ کسی مخلوق میں اچھائی کو رکھ دیا گیا اور کسی مخلوق میں برائی کو رکھ دیا گیا۔ مثلا فرشتے ہیں کہ ان میں اچھائی ہی اچھائی ہے، برائی اور نافرمائی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ جو اللہ کے کسی حکم میں اس کی نافرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ اور کسی مخلوق کے اندر برائی ہی برائی ہے اچھائی نظر ہی نہیں آتی۔ مثلا: ابلیس ہے کہ اس کے اندر اچھائی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اور شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ انہیں بھٹکا کربہت دور لے جائے۔ یعنی اس کے اندر اچھائی ہے ہی نہیں۔
جبکہ انسان کے اندر اللہ رب العزت نے دونوں صفات رکھی ہیں، اچھائی بھی ہے، برائی بھی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی انسان اپنی محنت سے اپنے اندر اچھائی کو غالب کرلیتا ہے اور کوئی غفلت اور لاپرواہی سے برائیوں کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ اب جو بندہ اچھائیوں اور خوبیوں والا ہے، اسے تو ہر ایک پسند کرتا ہے، پھر اللہ رب العزت تو بطریق اولیٰ اس کو پسند فرماتے ہیں۔ حتی کہ جو زیادہ اچھائیوں والا ہوگا اسے تو اپنا محبوب اور ولی بنا لیتے ہیں، لیکن جو برائیوں والے لوگ ہیں، جن کی زندگیاں برائی کے اندر گذرتی ہیں، جو گناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوتے ہیں، گناہوں کی گندگیوں میں لتھڑے ہوتے ہیں، وہ بھی بظاہر بڑے مزے اور آرام کی زندگی گذار رہے ہوتے ہیں آخر کیوں؟ وہ دیکھتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، اسے علم بھی ہے، پھر بھی نہ جانے کیوں…؟؟؟
یہی سوال کبھی کبھی دل میں پیدا ہوتا ہے۔پھر کبھی امید کا سامان پیدا کرتا ہے اور کبھی خوف کو لانے کا سبب بنتا ہے۔
کیونکہ: میں اس کی نافرمانی بھی کرتا ہوں اور مجھے نافرمانی کرتے ہوئے دیکھتا بھی ہے، مگر…!!!
اس کے دربار میں حاضری کا وقت ہوچکا ہوتا ہے، اس کا قاصد پیغام بھی دے جاتا ہے، مگر میں ٹس سے مس نہیں ہوتا اور بے حس بن جاتا ہوں، لیکن مجھے ہوتا کچھ بھی نہیں ہے۔
میں جھوٹ بولتا ہوں پھر بھی میری زبان کو تالا نہیں لگتا۔
میں چغلیاں کھاتا ہوں، غیبت کرتا ہوں، گالیاں دیتا ہوں، جھوٹی قسمیں کھاجاتا ہوں، لیکن میری زبان گنگی نہیں ہوتی۔
میں حرام کھاتا ہوں، رشوت لیتا ہوں، سودی کاروبار کرتا ہوں، دوسروں کے حقوق غصب کرتا ہوں، زمینیں چھین لیتا ہوں، چوری کا مال کھاتا ہوں، لیکن میرے پیٹ میں آگ نہیں لگتی، میں ناپ تول میں کمی کرتا ہوں لین دین میں ہیرا پھیری کرتا ہوں پھر بھی میرا کاروبار صحیح چل رہا ہوتا ہے، کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
دین اور دین داروں کی عزت و قدر کا جو حق تھا وہ پورا نہیں کرتا بلکہ ان کی گستاخی کا مرتکب بھی ہوتا ہوں پھر بھی مجھے لوگ دیندار ہی سمجھتے ہیں اور میں صحیح سالم پھرتا ہوں۔نہ مجھ پر آگ برستی ہے، نہ پتھر برستے ہیں اور نہ طوفان آتے ہیں۔
کیا اس لیے کہ میں یہ سب کچھ صحیح اور درست کررہا ہوں یا اس لیے کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ غلط ہے؟
نہیں یہ بات بالکل نہیں ہے نہ اس لیے کہ مجھے پتا نہیں کیونکہ پتا تو مجھے سب سے زیادہ ہے بلکہ میں تو سب سے بڑا مفتی ہوں نہ صرف یہ کہ میں اس بات کو جانتا ہوں بلکہ مانتا بھی ہوں کہ یہ غلط ہے۔
عصیاں سے کبھی ہم نے کنارا نہ کیا
پر تونے دل آزردہ ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر
مگر تیری رحمت نے گوارا نہ کیا
تو پھر میں یہ سب کچھ کیوں کرتا ہوں؟
جی ہاں! یہ صرف اور صرف میری ہٹ دھرمی اور بد بختی ہے۔
پھر سب کچھ کے باوجود مجھ پر پکڑ کیوں نہیں آتی؟
یا تو اس وجہ سے کہ میرا رب غفور رحیم ہے جی ہاں بالکل میرا رب بخشنے والا بھی ہے اور مہربان بھی ہے وہ تو کہتا ہے:
’’کیا کوئی سوالی ہے جس کو میں دوں کیا کوئی ہے مجھ سے مغفرت مانگنے والا جس کی میں مغفرت کردوں کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے جس کی توبہ کو قبول کروں کیا کوئی مجھے بلانے والا ہے جس کی دعا قبول کروں۔‘‘
وہ تو انتظار میں ہے کہ کس وقت میں اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ یعنی یہ مہلت میرے لیے فائدہ مند بھی ہوسکتی ہے کہ شاید میں توبہ کرلوں اپنے رب کو منالوں، راضی کرلوں۔
لیکن دوسری طرف خطرہ بھی ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مجھے ڈھیل دی جارہی ہو پھر اچانک گرفت ہوجائے۔ کیونکہ وہ خود فرماتے ہیں:
’’لہٰذا (اے پیغمبر!) تم ان کافروں کو ڈھیل دو، انہیں تھوڑے دنوں اپنے حال پر چھوڑ دو۔‘‘
لہٰذا یہ ڈھیل میرے لیے خطرہ کا الارم بھی ہوسکتی ہے۔ تو اس وقت سے پہلے کہ میری مہلت ختم ہوجائے اور مجھے افسوس کرنا پڑے اور وہ وہ افسوس فائدہ مند بھی ہو کیوں نہ میں اپنے آپ کو بدل لوں اپنی دنیا اور آخرت کو اپنے لیے اچھا بنا لوں؟
اللہ تعالی ہمیں نیکی کے راستے پر چلنے کی اور گناہوں کے راستے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
جبکہ انسان کے اندر اللہ رب العزت نے دونوں صفات رکھی ہیں، اچھائی بھی ہے، برائی بھی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی انسان اپنی محنت سے اپنے اندر اچھائی کو غالب کرلیتا ہے اور کوئی غفلت اور لاپرواہی سے برائیوں کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ اب جو بندہ اچھائیوں اور خوبیوں والا ہے، اسے تو ہر ایک پسند کرتا ہے، پھر اللہ رب العزت تو بطریق اولیٰ اس کو پسند فرماتے ہیں۔ حتی کہ جو زیادہ اچھائیوں والا ہوگا اسے تو اپنا محبوب اور ولی بنا لیتے ہیں، لیکن جو برائیوں والے لوگ ہیں، جن کی زندگیاں برائی کے اندر گذرتی ہیں، جو گناہوں کے دلدل میں پھنسے ہوتے ہیں، گناہوں کی گندگیوں میں لتھڑے ہوتے ہیں، وہ بھی بظاہر بڑے مزے اور آرام کی زندگی گذار رہے ہوتے ہیں آخر کیوں؟ وہ دیکھتا بھی ہے، سنتا بھی ہے، اسے علم بھی ہے، پھر بھی نہ جانے کیوں…؟؟؟
یہی سوال کبھی کبھی دل میں پیدا ہوتا ہے۔پھر کبھی امید کا سامان پیدا کرتا ہے اور کبھی خوف کو لانے کا سبب بنتا ہے۔
کیونکہ: میں اس کی نافرمانی بھی کرتا ہوں اور مجھے نافرمانی کرتے ہوئے دیکھتا بھی ہے، مگر…!!!
اس کے دربار میں حاضری کا وقت ہوچکا ہوتا ہے، اس کا قاصد پیغام بھی دے جاتا ہے، مگر میں ٹس سے مس نہیں ہوتا اور بے حس بن جاتا ہوں، لیکن مجھے ہوتا کچھ بھی نہیں ہے۔
میں جھوٹ بولتا ہوں پھر بھی میری زبان کو تالا نہیں لگتا۔
میں چغلیاں کھاتا ہوں، غیبت کرتا ہوں، گالیاں دیتا ہوں، جھوٹی قسمیں کھاجاتا ہوں، لیکن میری زبان گنگی نہیں ہوتی۔
میں حرام کھاتا ہوں، رشوت لیتا ہوں، سودی کاروبار کرتا ہوں، دوسروں کے حقوق غصب کرتا ہوں، زمینیں چھین لیتا ہوں، چوری کا مال کھاتا ہوں، لیکن میرے پیٹ میں آگ نہیں لگتی، میں ناپ تول میں کمی کرتا ہوں لین دین میں ہیرا پھیری کرتا ہوں پھر بھی میرا کاروبار صحیح چل رہا ہوتا ہے، کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
دین اور دین داروں کی عزت و قدر کا جو حق تھا وہ پورا نہیں کرتا بلکہ ان کی گستاخی کا مرتکب بھی ہوتا ہوں پھر بھی مجھے لوگ دیندار ہی سمجھتے ہیں اور میں صحیح سالم پھرتا ہوں۔نہ مجھ پر آگ برستی ہے، نہ پتھر برستے ہیں اور نہ طوفان آتے ہیں۔
کیا اس لیے کہ میں یہ سب کچھ صحیح اور درست کررہا ہوں یا اس لیے کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ یہ غلط ہے؟
نہیں یہ بات بالکل نہیں ہے نہ اس لیے کہ مجھے پتا نہیں کیونکہ پتا تو مجھے سب سے زیادہ ہے بلکہ میں تو سب سے بڑا مفتی ہوں نہ صرف یہ کہ میں اس بات کو جانتا ہوں بلکہ مانتا بھی ہوں کہ یہ غلط ہے۔
عصیاں سے کبھی ہم نے کنارا نہ کیا
پر تونے دل آزردہ ہمارا نہ کیا
ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر
مگر تیری رحمت نے گوارا نہ کیا
تو پھر میں یہ سب کچھ کیوں کرتا ہوں؟
جی ہاں! یہ صرف اور صرف میری ہٹ دھرمی اور بد بختی ہے۔
پھر سب کچھ کے باوجود مجھ پر پکڑ کیوں نہیں آتی؟
یا تو اس وجہ سے کہ میرا رب غفور رحیم ہے جی ہاں بالکل میرا رب بخشنے والا بھی ہے اور مہربان بھی ہے وہ تو کہتا ہے:
’’کیا کوئی سوالی ہے جس کو میں دوں کیا کوئی ہے مجھ سے مغفرت مانگنے والا جس کی میں مغفرت کردوں کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے جس کی توبہ کو قبول کروں کیا کوئی مجھے بلانے والا ہے جس کی دعا قبول کروں۔‘‘
وہ تو انتظار میں ہے کہ کس وقت میں اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں۔ یعنی یہ مہلت میرے لیے فائدہ مند بھی ہوسکتی ہے کہ شاید میں توبہ کرلوں اپنے رب کو منالوں، راضی کرلوں۔
لیکن دوسری طرف خطرہ بھی ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مجھے ڈھیل دی جارہی ہو پھر اچانک گرفت ہوجائے۔ کیونکہ وہ خود فرماتے ہیں:
’’لہٰذا (اے پیغمبر!) تم ان کافروں کو ڈھیل دو، انہیں تھوڑے دنوں اپنے حال پر چھوڑ دو۔‘‘
لہٰذا یہ ڈھیل میرے لیے خطرہ کا الارم بھی ہوسکتی ہے۔ تو اس وقت سے پہلے کہ میری مہلت ختم ہوجائے اور مجھے افسوس کرنا پڑے اور وہ وہ افسوس فائدہ مند بھی ہو کیوں نہ میں اپنے آپ کو بدل لوں اپنی دنیا اور آخرت کو اپنے لیے اچھا بنا لوں؟
اللہ تعالی ہمیں نیکی کے راستے پر چلنے کی اور گناہوں کے راستے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!