سلطان معظم شیر ہیں شیر گوشت کی خوشبو سونگھ کر مد ہوش ہو جاتا ہے اسلے سلطان معظم ایام عید میں گوشت کا تینچہ بانچہ کھانچہ سانچہ کرتے کرتے اعضاء ریسہ میں تھکاوٹ کے اثار قدیمہ کے ظہور پذیر یر ہونے کے ناتے ارام مخمل میں نیند فیل وابل سے لطف خرگوش سے خراٹے ککڑو کڑو سے اندوز ہورہے ہیں بیھنس کے اگے۔۔۔ نہیں نہی سلطان کے اگے اب بانسری نہیں ڈھول بجانے سے بھی کوی فایدہ نہی کیونکہ کانو ں سنگ مرمر یاقوتی پتھرعں کی ٹکیاں ٹھونس رکھی ہیں اب نقار خانہ سلطان میں اواز بھینس کا کوی فایدہ عظیمہ لا حاصل۔۔کیونکہ انف مبارک میں گوشت کی مہک اور اردگرد کے گھروں سے اٹھنے والے تکے کبابوں قورموں کی لذیذ دھیمی دھیمی خوشبو سلطان۔معظم کو ہوش فردا سے بیگانہ کئے ہوئے ہے ۔۔۔ ہم جیسے ہڈی بوٹی کھانے والے غریب وغربا کی اواز تو کوہ قاف کی بوڑھی چڑیلوں کی طرح ہے جو تصور حور میں. میں ہو انہیں تصور لنگور کی طرف لانا شیر کی دم کا بال اخیر کھنچنے کے مترادف ہے
سلطان سے معزرت۔۔۔اس مذاق پر