حضرت یونس علیہ السلام کی دعا کا اثر

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
حضرت یونس علیہ السلام ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یادکرتے تھے ، اسی کی تسبیح وتحمید کیا کرتے تھے۔
انھیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل اعتماد تھا؛ چناں چہ جب مچھلی کے پیٹ میں بند ہوگئے، اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کو یادکیا :
لَاإلٰہَ إلّا أنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ
(کوئی إلٰہ نہیں سوائے تیرے اور میں ظالموں میں سے ہوں )
بس اللہ تعالی نے اس سے نکلنے کی سبیل پیداکردی اور تین اندھیریوں کی گرفت سے نجات نصیب ہوئی ،
فَلَوْلاَ أنَّہ کَانَ مشنَ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِيْ بَطْنِہ الیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ
( کہ اگر وہ تسبیح کرنے والے نہ ہوتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے اور وہی ان کے لیے قبر بن جاتی، اس کے برعکس فرعون نے دریائے نیل میں غرق ہوتے ہوئے اللہ میا ں کو یاد کیا :
حَتّٰی إذَا أدْرَکَہ الْغَرْقُ قَالَ آمَنْتُ أنَّہ لاَ الٰہَ الاّ الَّذِيْ آمَنَتْ بَنُو اسْرَائِیْلَ وَأنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، آلآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ، فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً
(یہاں تک کہ جب اس کو غرقآبی نے آپکڑا، اس نے کہا : میں ایمان لایاکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں،جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں ہوں فرماں برداروں میں سے۔ کیا ایمان کی بات کرتاہے اور پہلے سے تونافرمانی کرتارہااورفساد کرنے والوں میں سے رہا۔ سوآج تجھے تیرے بدن سے بچادیں گے( غرق نہیں کریں گے)؛ تاکہ تو(تیری لاش) ان کے لیے جو تیرے بعد آئیں ( عبرت کی ) ایک نشانی رہے ) لیکن اب تک خوش حالی کے ایام میں کبھی بھی خدا کویاد نہیں کیا ؛ بل کہ وہ اتراتا رہا غرور اور سرکشی میں مبتلا رہا؛ اس لیے اللہ تعالی نے اس کی دعا قبول نہ کی اور وہ ہلاک وبرباد ہوگیا نیز اس نے براہِ راست دعا نہ کی؛ بل کہ ہارون اور موسی علیہما السلام کو واسطہ بنایا۔

لہٰذا دعا میں کسی کو واسطہ نہ بنائیں براہِ راست اللہ سے مانگے اللہ تعالی ہم سے بہت قریب ہے :
وَ اذَا سَألَکَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَانِّيْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اذَا دَعَانِ،
اللہ تعالی نے براہِ راست مانگنے کی تاکید کی ہے :
اُدْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ
( تم مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ) ۔
 
Top