تاتاریوں کی خلاف ہندوستان کی مدافعت میں علاء الدین خلجی کے کارنامے . (1)
علاء الدین خلجی (١٢٩٦-١٣١٦ء) کے زمانے میں تاتاریوں کے سات حملے ہوئے اور ہر حملہ ہندوستانی فوج کی نمبر آزما ئی سے پسپا ہوا ،پہلا حملہ ابارہ سو اٹھانوے میں ماوراءالنہر کے تاتاریوں نے ایک لاکھ لشکریوں کے ساتھ کیا وہ غارتگری کرتے ہوئے دریائے سندھ تک پہنچ گئےہند وستانی فوج نے الغ خان اور ظفر خان کی سرداری میں مندھ کے پاس ان کا مقابلہ کیا تاتاری ہارے اور بارہ ہزار لشکر ی مارے گئے ان کے سردار بھی بیوی بچوں کے ساتھ قیدی بنا کر دہلی لائے گئے، اس فتح سے ہندوستان کی قوت کی شہرت ہوئی اس کی خوشی پر بڑا جشن منایا گیا شہر میں قبےبنائے گئے فتح نامہ پڑھ کر سنایا گیا شادمانی کے باجے بجائے۔(تاریخ فیروز شاہی از ضیاء الدین برنی)١٢٩٩ء میں تاتاری حملہ آور ہوئے انہوں نے سیوستا ن پر قبضہ کرلیا ،لیکن ظفر خان نے وہاں پہنچ کر ان حملہ آوروں کو پسپا کیا اور ان کے سردار صلدی اس کے بھائی اور دوسرے لشکریوں کو ان کی عورتوں سمیت گرفتار کرکے دلی لایا ،جس سے اس کی بہادری،دلاوذی اور بے باکی کا بڑا رعب بیٹھا اور ان لوگوں کو خیال ہوا کہ ہندوستان میں ایک دوسرا رستم پیدا ہوگیا ہے۔
(برنی:٢٥٤)
تاتاری اس ذلت آمیز پسپائی کے کا بدلہ لینے کے لیے بارہ سو ننانوے کے آخر میں قتلغ خواجہ کے سرداری میں دو لاکھ لشکری کے ساتھ ہندوستان کی طرف بڑھے ،اور انہوں نے دریائے سندھ کو عبور کر کے سیدھا دلی کی طرف رخ کیا یہاں کے باشندوں میں بڑی سر اسمگی پھیلی ،وہ سب سمٹ کر دلی کے حصار اندر چلے آئے ،بازاروں گلیوں، گھروں اور مسجدوں میں لوگ کھچا کھچ بھر گئے، شہر میں گرانی بڑھ گئی حملہ آوروں نے راستے مسدود کردیے تھے اس لئے سوداگروں اور غلہ فروشوں کا آنا جانا بھی بند ہوگیا لیکن اس موقع پر سلطان علاء الدین کی بہادری کا م آئی،وہ اپنے پورے دبدبے کے ساتھ لشکر لے کر شہر سے باہر چلا آیا اور سیری میں خیمہ زن ہوا اس نے اپنی مملکت کے ہر طرف سے فوجی سرداروں اور لشکریوں کو طلب کرنا شروع کیا ،دلی کا کوتوال اس وقت عمادالملک تھا جس کی رائے اور ہوشمندی پرسلطان علاء الدین اکو بڑا بھروسہ تھا وہ سلطان کو اس کی مجلس خلوت میں مشورہ دیا کرتا تھا ،وہ بھی تاتاریوں کی زبردست یورس سے پریشان ہوا وہ سلطان کے پاس آیااور اس کو مخاطب ہو کر کہنے لگا۔
"ہم سے پہلے کہ جن قدیم بادشاہوں اور وزیروں نے جہاں داری اور جہاں بانی کی ہے وہ کسی بڑی لڑائی کے موقع پر جب یہ نہیں سمجھ سکتے تھے ایک لمحے میں کیا ہوجائے گا اور فتح کس کی ہوگی اور وہ بڑی لڑائی سے اجتناب کرتے تھے اور انہوں نے جب ملک اور سلطنت کو بڑی لڑائیوں کی وجہ سے خطرے میں دیکھا تو اس کے لیے کچھ وصیتیں چھوڑیں ہیں، پرانے بادشاہوں کے وصایامیں لکھا ہے کہ لڑائی ترازو کا پلہ ہوتی ہے، چند نفر کے غلبہ سے بھاری اور دوسرا ہلکا پڑ جاتا ہے ،اور کچھ دیر میں کام ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور اس کو پھر سے کامیابی سے سرانجام دینے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اگرچہ لڑائیوں میں لشکر کے سردرول سے سے انہرام اور شکست کا چندہ خطرہ نہیں ہوتا ،اور امید منقطع ہیں ہو سکتی ،لیکن ہمسروں کی لڑائیوں میں جب ملک کی بازی لگا دی جاتی ہے تو اس وقت باد شاہ ہوں کو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے تاکہ مضبوطی اور ٹھیک طرح سے لڑائی کو روک سکیں اور اگر وہ لڑائی کو مہلک سمجھتے ہیں تو قاصد وغیرہ کو بھیجتے ہیں، خداوندعالم کوہان والے اونٹوں کو مغلوں کے مقابلے کو بھیجیں اور لشکریوں کو پیچھے رکھیں ،مغل مور وملخ کی طرح آتے ہیں، ان سے لڑنے میں ابھی توقف کریں، اور دیکھیں وہ کیا کرتے ہیں ،معاملہ کہاں تک بڑھتا ہے اگر لڑائی کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو،تو لڑائی کی جائے ۔تمام لوگ حصار کے اندر سمٹ آئیں مغلوں کے پاس بہت بڑا لشکر ہے وہ دس سواروں کو بھی اپنے پاس سے جدا نہیں کر سکتے یہ دیکھنا چاہیے کہ رسد کے بغیر کا تک رہ سکتے ہیں اگر کچھ روز میں ان کے مزاج، ارادے اور نیت کا اندازہ ہو جائے تو بہتر ہے، اگر یہ تنگ ہوکر واپس ہو جائیں اور لوٹ مار میں مشغول ہو جائیں تو اس وقت ان کا تعاقب کرنا درست ہوگا"- (برنی٢٥٦)
علاء الملک کی ان باتوں کو سن کر سلطان علاء الدین پر جو اثر ہوا وہ بھی ضیاء الدین برنی ہی کے الفاظ میں سننے کے لائق ہے. جاری
Last edited: