امیر شریعت سیّد عطا اللّٰہ شاہ بخاریؒ ایک موقع پر آپ نے فرمایا:
’’مرزائیوں کو میں دعوت فکر دیتا ہوں، وہ غور کریں اور اپنے مدعی نبوت اور اس کے خاندان کی فرنگی نوازی دیکھیں کہ یہ انگریز کا درباری نبی کس طرح ہندوستان میں انگریز افسروں کے دربار میں اپنی اور اپنے باپ دادا کی خدمات کے حوالے سے اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے لجاجت، منت و سماجت اور سراپا حاجت بن کر یقین دہانیاں کرتا ہے۔ ظالم تم نے اگر نبوت کا دعویٰ کر ہی لیا تھا اور تم اپنے تئیں نبی بن ہی بیٹھے تھے تو کم از کم اس کے نام و منصب کا وقار ہی قائم رکھا ہوتا اور فرنگی کی چوکھٹ پر جبہ سائی نہ کرتے۔ اپنی جبین نیاز کو عدو اللہ فرنگی کی خاکِ نجس سے آلودہ نہ کرتے:
’’اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا‘‘
تجھ سے تو سابق کذاب و دجال مدعیان نبوت ہی بہتر تھے جنھوں نے دعوائے نبوت کے بعد مسلمان بادشاہوں کے درباروں کی راہ تک نہ دیکھی۔ ان کا بھی ایک وقار تھا مگر تجھ سا بے حمیت خطۂ ارضی پر کوئی دوسرا نہیں۔‘‘
ز ’’تصویر کا ایک رخ تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قد و قامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کردار کی موت تھا۔ جھوٹ اس کا شیوہ تھا۔ معاملات کا درست نہ تھا۔ بات کا پکا نہ تھا۔ بزدل اور کمزور تھا۔ مسلک کا ٹوڈی تھا۔ تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری نہ بھی ہوتی۔ وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا، قویٰ میں تناسب ہوتا، چھاتی 45 انچ ہوتی، کمر ایسی کہ سی آئی کو بھی پتہ نہ چلتا، بہادر بھی ہوتا، مرد میدان ہوتا، کردار کا آفتاب ہوتا، خاندان کا مہتاب ہوتا، شاعری میں فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اور فیضی اس کا پانی بھرتے، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا، انگریزی کا شیکسپئر ہوتا اور اردو کا ابوالکلام ہوتا، پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟؟؟
میں تو کہتا ہوں کہ خواجہ غریب نواز اجمیریؒ، شیخ سید عبدالقادر جیلانیؒ، امام ابو حنیفہؒ، امام بخاریؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، ابن تیمیہ، امام غزالی ؒ یا حسن بصریؒ بھی نبوت کا دعویٰ کرتے تو کیا ہم انھیں نبی مان لیتے؟ اگر علیؓ دعویٰ کرتے کہ جسے تلوار حق نے اور بیٹی نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے دی، سیدنا ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروق اعظمؓ اور سیدنا عثمان غنی ؓ بھی دعویٰ کرتے تو کیا بخاری انھیں نبی مان لیتا؟ ہرگز نہیں، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج امامت و رسالت جس کے سر پر ناز کر سکے، وہ ایک ہی ہے جس کے دم قدم سے کائنات میں نبوت سرفراز ہوئی۔‘‘
ز ’’آج مسیلمہ کذاب کے مقابلہ میں روحِ صدیقؓ پیدا کرو۔ آج محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر کٹ مرنے کے لیے تیار ہو جائو۔ آج محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو پر کمینے اور ذلیل قسم کے انسان حملہ آور ہیں۔ یاد رکھو! محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے تو خدا ہے، محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے تو قرآن ہے، محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے تو دین ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی کرنے والی کسی تحریر کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہم یقینا ہر اس اخبار کو جلائیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرے گا۔ ہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہیں۔ حضورِ اقدسصلی اللہ علیہ وسلم کا ہر دشمن، ہمارا بدترین دشمن ہے۔ میری گردن تو آج بھی تحفظ ناموسِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر پھانسی لگنے کو تڑپتی ہے۔ میں تمام مسلمانوں سے مخاطب ہوں کہ تم حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو کی حفاظت کرو تو میں تمھارے کتے بھی پالنے کو تیار ہوں اور اگر تم نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کی تو پھر میں تمہارا باغی ہوں۔ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کٹ مرنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
’’میری بیٹی…، میرے ظاہری اسباب میں سے، میری حیات کا باعث ہے۔ اللہ بیٹوں کو بھی سلامت رکھے، مگر بیٹی سے مجھے محبت بہت ہے۔
اس نے کئی بار مجھے کہا:
ابا جی! اب تو اپنے حال پر رحم کریں، آپ کو چین کیوں نہیں آتا، کیا آپ سفر کے قابل ہیں، چلنے پھرنے کی طاقت آپ میں نہیں رہی، کھانا پینا آپ کا نہیں رہا، یہ آپ کا حال ہے، کیا کر رہے ہیں آپ؟ میں نے کہا:
تم نے میری دُکھتی رَگ پکڑی ہے، میں تمھیں کس طرح سمجھائوں؟ بیٹا! تم بہت خوش ہوگی اگر میں چارپائی پر مروں؟ میں تو چاہتا ہوں کسی کے گلے پڑ کے مروں۔ تم اس بات پہ راضی نہیں کہ میں باہر نکلوں میدان میں، اور یہ کہتا ہوا مر جائوں…
لَا نَبِیَّ بَعْدَ مُحَمَّد، لَا رَسُوْلَ بَعْدَ مُحَمَّد، لَا اُمَّۃَ بَعْدَ اُمَّۃِ مُحَمَّد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)
بیٹا! دعا کرو۔
عقیدۂ ختم نبوت بیان کرتے ہوئے اور کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے مجھے موت آ جائے۔
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ وَلَا رَسُوْلَ بَعْدَہٗ۔‘‘
(راولپنڈی میں جلسۂ عام سے خطاب، 1956ئ) (سیدی و ابی از محترمہ سیدہ ام کفیل بخاری)
’’مرزائیوں کو میں دعوت فکر دیتا ہوں، وہ غور کریں اور اپنے مدعی نبوت اور اس کے خاندان کی فرنگی نوازی دیکھیں کہ یہ انگریز کا درباری نبی کس طرح ہندوستان میں انگریز افسروں کے دربار میں اپنی اور اپنے باپ دادا کی خدمات کے حوالے سے اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے لجاجت، منت و سماجت اور سراپا حاجت بن کر یقین دہانیاں کرتا ہے۔ ظالم تم نے اگر نبوت کا دعویٰ کر ہی لیا تھا اور تم اپنے تئیں نبی بن ہی بیٹھے تھے تو کم از کم اس کے نام و منصب کا وقار ہی قائم رکھا ہوتا اور فرنگی کی چوکھٹ پر جبہ سائی نہ کرتے۔ اپنی جبین نیاز کو عدو اللہ فرنگی کی خاکِ نجس سے آلودہ نہ کرتے:
’’اے روسیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا‘‘
تجھ سے تو سابق کذاب و دجال مدعیان نبوت ہی بہتر تھے جنھوں نے دعوائے نبوت کے بعد مسلمان بادشاہوں کے درباروں کی راہ تک نہ دیکھی۔ ان کا بھی ایک وقار تھا مگر تجھ سا بے حمیت خطۂ ارضی پر کوئی دوسرا نہیں۔‘‘
ز ’’تصویر کا ایک رخ تو یہ ہے کہ مرزا قادیانی میں یہ کمزوریاں اور عیوب تھے، اس کے نقوش میں توازن نہ تھا۔ قد و قامت میں تناسب نہ تھا، اخلاق کا جنازہ تھا، کردار کی موت تھا۔ جھوٹ اس کا شیوہ تھا۔ معاملات کا درست نہ تھا۔ بات کا پکا نہ تھا۔ بزدل اور کمزور تھا۔ مسلک کا ٹوڈی تھا۔ تقریر و تحریر ایسی ہے کہ پڑھ کر متلی ہونے لگتی ہے لیکن میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر اس میں کوئی کمزوری نہ بھی ہوتی۔ وہ مجسمہ حسن و جمال ہوتا، قویٰ میں تناسب ہوتا، چھاتی 45 انچ ہوتی، کمر ایسی کہ سی آئی کو بھی پتہ نہ چلتا، بہادر بھی ہوتا، مرد میدان ہوتا، کردار کا آفتاب ہوتا، خاندان کا مہتاب ہوتا، شاعری میں فردوسی وقت ہوتا، ابوالفضل اور فیضی اس کا پانی بھرتے، خیام اس کی چاکری کرتا، غالب اس کا وظیفہ خوار ہوتا، انگریزی کا شیکسپئر ہوتا اور اردو کا ابوالکلام ہوتا، پھر نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم اسے نبی مان لیتے؟؟؟
میں تو کہتا ہوں کہ خواجہ غریب نواز اجمیریؒ، شیخ سید عبدالقادر جیلانیؒ، امام ابو حنیفہؒ، امام بخاریؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، ابن تیمیہ، امام غزالی ؒ یا حسن بصریؒ بھی نبوت کا دعویٰ کرتے تو کیا ہم انھیں نبی مان لیتے؟ اگر علیؓ دعویٰ کرتے کہ جسے تلوار حق نے اور بیٹی نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے دی، سیدنا ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروق اعظمؓ اور سیدنا عثمان غنی ؓ بھی دعویٰ کرتے تو کیا بخاری انھیں نبی مان لیتا؟ ہرگز نہیں، حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تخت نبوت پر سج سکے اور تاج امامت و رسالت جس کے سر پر ناز کر سکے، وہ ایک ہی ہے جس کے دم قدم سے کائنات میں نبوت سرفراز ہوئی۔‘‘
ز ’’آج مسیلمہ کذاب کے مقابلہ میں روحِ صدیقؓ پیدا کرو۔ آج محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس پر کٹ مرنے کے لیے تیار ہو جائو۔ آج محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو پر کمینے اور ذلیل قسم کے انسان حملہ آور ہیں۔ یاد رکھو! محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے تو خدا ہے، محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے تو قرآن ہے، محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے تو دین ہے۔ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہم محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی بے حرمتی کرنے والی کسی تحریر کو نہیں دیکھ سکتے۔ ہم یقینا ہر اس اخبار کو جلائیں گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرے گا۔ ہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا ہیں۔ حضورِ اقدسصلی اللہ علیہ وسلم کا ہر دشمن، ہمارا بدترین دشمن ہے۔ میری گردن تو آج بھی تحفظ ناموسِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر پھانسی لگنے کو تڑپتی ہے۔ میں تمام مسلمانوں سے مخاطب ہوں کہ تم حضورِ اکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی آبرو کی حفاظت کرو تو میں تمھارے کتے بھی پالنے کو تیار ہوں اور اگر تم نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے بغاوت کی تو پھر میں تمہارا باغی ہوں۔ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر کٹ مرنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
’’میری بیٹی…، میرے ظاہری اسباب میں سے، میری حیات کا باعث ہے۔ اللہ بیٹوں کو بھی سلامت رکھے، مگر بیٹی سے مجھے محبت بہت ہے۔
اس نے کئی بار مجھے کہا:
ابا جی! اب تو اپنے حال پر رحم کریں، آپ کو چین کیوں نہیں آتا، کیا آپ سفر کے قابل ہیں، چلنے پھرنے کی طاقت آپ میں نہیں رہی، کھانا پینا آپ کا نہیں رہا، یہ آپ کا حال ہے، کیا کر رہے ہیں آپ؟ میں نے کہا:
تم نے میری دُکھتی رَگ پکڑی ہے، میں تمھیں کس طرح سمجھائوں؟ بیٹا! تم بہت خوش ہوگی اگر میں چارپائی پر مروں؟ میں تو چاہتا ہوں کسی کے گلے پڑ کے مروں۔ تم اس بات پہ راضی نہیں کہ میں باہر نکلوں میدان میں، اور یہ کہتا ہوا مر جائوں…
لَا نَبِیَّ بَعْدَ مُحَمَّد، لَا رَسُوْلَ بَعْدَ مُحَمَّد، لَا اُمَّۃَ بَعْدَ اُمَّۃِ مُحَمَّد (صلی اللّٰہ علیہ وسلم)
بیٹا! دعا کرو۔
عقیدۂ ختم نبوت بیان کرتے ہوئے اور کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے مجھے موت آ جائے۔
لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدُ رَّسُوْلُ اللّٰہ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ وَلَا رَسُوْلَ بَعْدَہٗ۔‘‘
(راولپنڈی میں جلسۂ عام سے خطاب، 1956ئ) (سیدی و ابی از محترمہ سیدہ ام کفیل بخاری)