مسجدوں کے بنانے اور ان کا ادب احترام کرنے انہیں خوشبودار اور پاک صاف رکھنے کے بارے میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اسی جیسا گھر جنت میں بناتا ہے ۔ [صحیح بخاری]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نام اللہ کے ذکر کئے جانے کے لیے جو شخص مسجد بنائے اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے ۔ [سنن ابن ماجه]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور پاک صاف اور خوشبودار رکھی جائیں ۔ [سنن ابوداود]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ”لوگوں کے لیے مسجدیں بناؤ جہاں انہیں جگہ ملے لیکن سرخ یا زردرنگ سے بچو تاکہ لوگ فتنے میں نہ پڑیں۔“ [صحیح بخاری ]
ایک ضعیف سند سے مروی ہے کہ جب تک کسی قوم نے اپنی مسجدوں کو ٹیپ ٹاپ والا، نقش و نگار اور رنگ روغن والا نہ بنایا ان کے اعلام برے نہیں ہوئے ۔ [سنن ابن ماجه]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے مسجدوں کو بلند و بالا اور پختہ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی حدیث فرماتے ہیں کہ ”تم یقیناً مسجدوں کو مزین، منقش اور رنگ دار کرو گے جیسے کہ یہودونصاری نے کیا۔“ [سنن ابوداود]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے پر فخر و غرور نہ کرنے لگیں ۔ [سنن ابوداود]
ایک شخص مسجد میں اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا آیا اور کہنے لگا ہے کوئی جو مجھے میرے سرخ رنگ کے اونٹ کا پتہ دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا کی کہ اللہ کرے تجھے نہ ملے۔ مسجدیں تو جس مطلب کے لیے بنائی گئی ہیں، اسی کام کے لیے ہیں ۔ [صحیح مسلم]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں میں خرید و فروخت، تجارت کرنے سے اور وہاں اشعار کے گائے جانے سے منع فرما دیا ہے ۔ [سنن ابوداود]
فرمان ہے کہ جسے مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ تیری تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی کو گمشدہ جانور مسجد میں تلاش کرتا ہوا پاؤ تو کہو کہ اللہ کرے نہ ملے ۔ [سنن ترمذي]
بہت سی باتیں مسجد کے لائق نہیں، مسجد کو راستہ نہ بنایا جائے، نہ تیر پھیلائے جائیں نہ کچا گوشت لایا جائے، نہ یہاں حد ماری جائے، نہ یہاں باتیں اور قصے کہے جائیں نہ اسے بازار بنایا جائے ۔ [سنن ابن ماجه]
فرمان ہے کہ ہماری مسجدوں سے اپنے بچوں کو، دیوانوں کو، خرید و فروخت کو، لڑائی جھگڑے کو اور بلند آواز سے بولنے کو اور حد جاری کرنے کو اور تلواروں کے ننگی کرنے کو روکو۔ ان کے دروازوں پر وضو وغیرہ کی جگہ بناؤ اور جمعہ کے دن انہیں خوشبو سے مہکا دو ۔ [سنن ابن ماجه]
بعض علماء نے بلا ضرورت کے مسجدوں کو گزرگاہ بنانا مکروہ کہا ہے۔ ایک اثر میں ہے کہ جو شخص بغیر نماز پڑھے مسجد سے گزر جائے، فرشتے اس پر تعجب کرتے ہیں۔ ہتھیاروں اور تیروں سے جو منع فرمایا یہ اس لیے کہ مسلمان وہاں بکثرت جمع ہوتے ہیں ایسان نہ ہو کہ کسی کے لگ جائے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تیر یا نیزہ لے کر گزرے تو اسے چاہیئے کہ اس کا پھل اپنے ہاتھ میں رکھے تاکہ کسی کو ایذاء نہ پہنچے ۔ [صحیح بخاری]
کچا گوشت لانا اس لیے منع ہے کہ خوف ہے اس میں سے خون نہ ٹپکے جیسے کہ حائضہ عورت کو بھی اسی وجہ سے مسجد میں آنے کی ممانعت کر دی گئی ہے۔ مسجد میں حد لگانا اور قصاص لینا اس لیے منع کیا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شخص مسجد کو نجس نہ کر دے۔ بازار بنانا اس لیے منع ہے کہ وہ خرید و فروخت کی جگہ ہے اور مسجد میں یہ دونوں باتیں منع ہیں۔ کیونکہ مسجدیں ذکر اللہ اور نماز کی جگہ ہیں۔ جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے فرمایا تھا، جس نے مسجد کے گوشے میں پیشاب کر دیا تھا کہ مسجدیں اس لیے نہیں بنیں، بلکہ وہ اللہ کے ذکر اور نماز کی جگہ ہے ۔ پھر اس کے پیشاب پر ایک بڑا ڈول پانی کا بہانے کا حکم دیا ۔ [صحیح بخاری]
دوسری حدیث میں ہے اپنے بچوں کو اپنی مسجدوں سے روکو [سنن ابن ماجه] اس لیے کہ کھیل کود ہی ان کا کام ہے اور مسجد میں یہ مناسب نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی نیت سے مسجد بنائے اللہ تعالیٰ اس کے لیے اسی جیسا گھر جنت میں بناتا ہے ۔ [صحیح بخاری]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں نام اللہ کے ذکر کئے جانے کے لیے جو شخص مسجد بنائے اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے ۔ [سنن ابن ماجه]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ محلوں میں مسجدیں بنائی جائیں اور پاک صاف اور خوشبودار رکھی جائیں ۔ [سنن ابوداود]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے ”لوگوں کے لیے مسجدیں بناؤ جہاں انہیں جگہ ملے لیکن سرخ یا زردرنگ سے بچو تاکہ لوگ فتنے میں نہ پڑیں۔“ [صحیح بخاری ]
ایک ضعیف سند سے مروی ہے کہ جب تک کسی قوم نے اپنی مسجدوں کو ٹیپ ٹاپ والا، نقش و نگار اور رنگ روغن والا نہ بنایا ان کے اعلام برے نہیں ہوئے ۔ [سنن ابن ماجه]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے مسجدوں کو بلند و بالا اور پختہ بنانے کا حکم نہیں دیا گیا ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی حدیث فرماتے ہیں کہ ”تم یقیناً مسجدوں کو مزین، منقش اور رنگ دار کرو گے جیسے کہ یہودونصاری نے کیا۔“ [سنن ابوداود]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قیامت قائم نہ ہوگی جب تک کہ لوگ مسجدوں کے بارے میں آپس میں ایک دوسرے پر فخر و غرور نہ کرنے لگیں ۔ [سنن ابوداود]
ایک شخص مسجد میں اپنے اونٹ کو ڈھونڈتا ہوا آیا اور کہنے لگا ہے کوئی جو مجھے میرے سرخ رنگ کے اونٹ کا پتہ دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا کی کہ اللہ کرے تجھے نہ ملے۔ مسجدیں تو جس مطلب کے لیے بنائی گئی ہیں، اسی کام کے لیے ہیں ۔ [صحیح مسلم]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدوں میں خرید و فروخت، تجارت کرنے سے اور وہاں اشعار کے گائے جانے سے منع فرما دیا ہے ۔ [سنن ابوداود]
فرمان ہے کہ جسے مسجد میں خرید و فروخت کرتے ہوئے دیکھو تو کہو کہ اللہ تیری تجارت میں نفع نہ دے اور جب کسی کو گمشدہ جانور مسجد میں تلاش کرتا ہوا پاؤ تو کہو کہ اللہ کرے نہ ملے ۔ [سنن ترمذي]
بہت سی باتیں مسجد کے لائق نہیں، مسجد کو راستہ نہ بنایا جائے، نہ تیر پھیلائے جائیں نہ کچا گوشت لایا جائے، نہ یہاں حد ماری جائے، نہ یہاں باتیں اور قصے کہے جائیں نہ اسے بازار بنایا جائے ۔ [سنن ابن ماجه]
فرمان ہے کہ ہماری مسجدوں سے اپنے بچوں کو، دیوانوں کو، خرید و فروخت کو، لڑائی جھگڑے کو اور بلند آواز سے بولنے کو اور حد جاری کرنے کو اور تلواروں کے ننگی کرنے کو روکو۔ ان کے دروازوں پر وضو وغیرہ کی جگہ بناؤ اور جمعہ کے دن انہیں خوشبو سے مہکا دو ۔ [سنن ابن ماجه]
بعض علماء نے بلا ضرورت کے مسجدوں کو گزرگاہ بنانا مکروہ کہا ہے۔ ایک اثر میں ہے کہ جو شخص بغیر نماز پڑھے مسجد سے گزر جائے، فرشتے اس پر تعجب کرتے ہیں۔ ہتھیاروں اور تیروں سے جو منع فرمایا یہ اس لیے کہ مسلمان وہاں بکثرت جمع ہوتے ہیں ایسان نہ ہو کہ کسی کے لگ جائے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ تیر یا نیزہ لے کر گزرے تو اسے چاہیئے کہ اس کا پھل اپنے ہاتھ میں رکھے تاکہ کسی کو ایذاء نہ پہنچے ۔ [صحیح بخاری]
کچا گوشت لانا اس لیے منع ہے کہ خوف ہے اس میں سے خون نہ ٹپکے جیسے کہ حائضہ عورت کو بھی اسی وجہ سے مسجد میں آنے کی ممانعت کر دی گئی ہے۔ مسجد میں حد لگانا اور قصاص لینا اس لیے منع کیا گیا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ شخص مسجد کو نجس نہ کر دے۔ بازار بنانا اس لیے منع ہے کہ وہ خرید و فروخت کی جگہ ہے اور مسجد میں یہ دونوں باتیں منع ہیں۔ کیونکہ مسجدیں ذکر اللہ اور نماز کی جگہ ہیں۔ جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے فرمایا تھا، جس نے مسجد کے گوشے میں پیشاب کر دیا تھا کہ مسجدیں اس لیے نہیں بنیں، بلکہ وہ اللہ کے ذکر اور نماز کی جگہ ہے ۔ پھر اس کے پیشاب پر ایک بڑا ڈول پانی کا بہانے کا حکم دیا ۔ [صحیح بخاری]
دوسری حدیث میں ہے اپنے بچوں کو اپنی مسجدوں سے روکو [سنن ابن ماجه] اس لیے کہ کھیل کود ہی ان کا کام ہے اور مسجد میں یہ مناسب نہیں۔