وصیت

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
وصیت

۱۔ ابو الشیخ اور ابن حبان ن " کتاب الوصایا" میں اپنی سند سے روایت کی (مرفوعی) جس نےوصیت نہ کی ،اس کو مردوں کے ساتھ ہمکلام ہو نےکی اجازت نہ ہو گی ۔لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کیا مردے بھی ہم کلام ہوتے ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں بلکہ وہ ملاقات بھی کرتے ہیں ۔

۲۔ ابن ابی الدنیا نے اپنی سند سے روایت کی کہ ایک شخص بصرہؔ میں قبر کھودنے کا کام کرتا تھا تو اس نے بتایا کہ ایک روز میں نے قبر کھودی اور اسی کے قریب سو گیا تو خواب میں دو عورتیں آئیں ۔ان میں سے ایک نے کہا کہ اے عبد اللہ ! میں تجھے خدا کا واسطہ دیتی ہوں کہ تو اس عورت کو مجھ سے دور کردے ۔میں بیدار ہوا تو دیکھا کہ ایک عورت کا جنازہ لایا جاریا ہے ۔ میں نے لوگوں سے کہا تم دوسری قبر پر چلے جاؤ ۔ وہ چلے گئے اور جب رات ہو ئی تو پھر وہی عورتیں آئیں اور انھوں نے کہاکہ جزاک اللہ تم نے ہم سے بہت لمبی برائی کو دور کر دیا۔ میں اس عوت سے دریافت کیا کہ تو مجھ سے کلام کرتی ہے مگر تیرے ساتھ ولی عورت کلام نہیں کرتی ،اس کا سبب کیا ہے ؟ تو اس نے کہا کہ یہ بلا وصیت کےمر گئی تھی اور جو بلا وصیت مرے تو وہ قیامت تک کلام نہیں کر سکتا ۔

۳۔ دیلمی نے انس ؓ سے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں ے خواب میں دو عورتوں کو دیکھا ،انمیں ایک کلام کر تی ہے اور دوسری خاموش ہے حالانکہ دونوں جنتی ہیں ۔میں نے دریافت کیا تو بتا یا کہ ایک بلا وصیت مری تھی ، اس لیے کلام نہیں کرتی اور قیامت تک نہیں کرے گی ۔
( شرح الصدور بشرحال ا لموتی والقبور)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہ کس قسم کی وصیت کا ذکر ہو رہا ہے۔ ایک وصیت تو وہ تھی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: تم پر فرض کیا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی اپنے پیچھے مال چھوڑکر جانے والا ہو تو جب اس کی موت کا وقت قریب آجائے، وہ اپنے والدین اور قریبی رشتہ داروں کے حق میں دستور کے مطابق وصیت کرے۔ یہ متقی لوگوں کے ذمہ ایک لازمی حق ہے۔۔۔ پھر جو شخص اس وصیت کو سننے کے بعد اس میں کوئی تبدیلی کرے گا۔۔۔۔۔ تو اس کا گناہ ان لوگوں پر ہوگا جو اس میں تبدیلی کریں گے۔ ۔۔۔۔یقین رکھو کہ اللہ (سب کچھ) سنتا جانتا ہے۔۔۔ ہاں اگر کسی شخص کو یہ اندیشہ ہوکہ کوئی وصیت کرنے والا بے جا طرف داری یا گناہ کا ارتکاب کررہا ہے اور وہ متعلقہ آدمیوں کے درمیان صلح کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (سورة البقرہ ۱۸۰ ۔ ۱۸۲)
وصیت کا لازم اورفرض ہونا ، یہ حکم اُس زمانہ میں دیا گیا تھا جب کہ وراثت کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ابتداء اسلام میں جب تک میراث کے حصے مقرر نہیں ہوئے تھے، ہر شخص پر لازم تھا کہ اپنے وارثوں کے حصے بذریعہ وصیت مقرر کرے تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کا حق مارا جائے۔ لیکن جب بعد میں تقسیم وراثت کے لیے اللہ تعالیٰ نے خود اصول وضوابط بنادئے جن کا ذکر سورةا لنساء میں ہے تو پھر وصیت کا وجوب ختم ہوگیا۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
ایک حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جس کے پاس وصیت کے قابل کوئی بھی چیز ہو، درست نہیں کہ دو رات بھی وصیت کو لکھ کر اپنے پاس محفوظ کئے بغیر گزاردے۔ (صحیح بخاری ۔ کتاب الوصیہ) (صحیح مسلم ۔ کتاب الوصایا ۔ باب الوصایا)
قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء نے کہا ہے کہ اس سے مرادایسا شخص ہے جس کے ذمہ قرضہ ہو یا اس کے پاس کسی کی امانت رکھی ہو یا اس کے ذمہ کوئی واجب ہو جسے وہ خود ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے وصیت میں یہ تفصیل لکھ کر رکھنا ضروری ہے، عام آدمی کے لیے وصیت لکھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے۔
 
Top