استغفر اللہ۔استغفر اللہ
ابن عساکر نے زید بن اسلم سے روایت کی، انھوں نے اپنے باپ سے روایت کی کہ ، میرے باپ نے کہا کہ مجھے ایک حدیث یاد آئی جو حضرت عمر( رضی اللہ عنہ ) نے روایت کی کہ مسلمان کو جائز نہیں کی کہ وہ اپنی وصیت اپنے سر ہانے رکھے بغیرتین رات گزاردے۔ تو میں نےقلم دوات منگائی تا کہ وصیت لکھوں ۔ مگر میں ان سب چیزوں کواپنے سر ہانے رکھ کر سو گیا ۔ میں نے خواب میں دیکھا ،ایک شخص سفید لباس والے جن کے جسم سے خوشبو مہک رہی تھی تشریف لائے ۔میں نے کہا کہ جناب کو میرے گھر میں آنے کی کس نے اجازت دی؟ کہنے لگے کہ گھر والے نے ۔ میں نے کہا، کون ہو؟ کہا ملک الموت ۔میں نے یہ سن کر ان سے پہلو تہی کرنے لگا ۔انہوں نے کہا کہ مجھ سے اعراض نہ کرو ،میں تماری روح قبض کرنے کو نہیں آیا ، میں نے کہا کہ میرے لیے جہنم کی آگ سے نجات کا پروانہ لکھ دو ۔انھوں نے کہا کہ قلم دوات لاؤ ۔میں نے انھیں قلم دوات اور کاغذ اٹھا کردے دیا جو سر ہانے رکھ کر سو گیا تھا، تو انھوں نے لکھا کہ " بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔استغفر اللہ ،استغفر اللہ "۔اور اسی سے کاغذ کے دونوں حصے بھر دئیے اور کاغذ مجھے دیدیا اور کہا کہ یہ ہے تمہارا نجات نامہ ۔میں گھبرا اٹھا اور چراغ منگا کر وہ کاغذ اٹھا کردیکھا، جو سر ہانے رکھا تھا اور اسی پر یہی تحریر موجود تھی۔
Last edited: