ہجرت نبوی کے تیسرے سال اُحد کے میدان میں معرکۂ حق وباطل برپا ہو تو چشمِ فلک نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ بلند وبالا قد اور گندم گوں رنگ کے ایک نورانی صورت مجاہد، قمیص اور زرہ سے بے نیاز، ننگے بدن مشرکین مکہ کی صفوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں اس حالت میں دیکھا تو بے تاب ہوگئے۔ آگے بڑھ کر انہیں روک لیا اور کہا:
’’خدا کی قسم! میں آپ کو اس حالت میں دشمن کا ہدف نہیں بننے دوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر اپنی زرہ اتار کر ان صاحب کو پہنادی۔ اس وقت تو انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بات مان لی لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد زرہ اتار پھینکی اور پھر سینہ عریاں کیے، شمشیر بدست، دشمن کی طرف بڑھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پھر دوڑتے ہوئے ان کے پاس گئے اور پوچھا کہ آپ نے زرہ کیوں اتار دی ہے؟ انہوں نے کڑک کر کہا:
’’عمر میرے راستے سے ہٹ جاؤ! اگر تم شہادت کے تمنائی ہوتو میرے دل میں بھی شوقِ شہادت کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ زرہ وہ پہنے جس کو زندگی عزیز ہو، میں تو اپنی زندگی راہِ حق میں بیچ چکا ہوں۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے اور سرجھکائے ہوئے واپس اپنی صف میں آگئے۔ ادھر وہ صاحب برہنہ تن ہی دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور اس جوش اور وارفتگی سے لڑنے لگے کہ شجاعت بھی آفریں پکار اٹھی… یہ مردِ جری جن کو شوقِ شہادت نے قمیص اور زرہ سے بے نیاز کردیا تھا، حضرت زید بن خطاب عدوی رضی اللہ عنہ تھے۔
سیدنا حضرت ابو عبدالرحمن زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کا شمار بڑے جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق قریش کے خاندان ’’بنو عدی‘‘ سے تھا۔ سلسلۂ نسب یہ ہے۔
زیدؓ بن خطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لؤی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کے سوتیلے بھائی تھے اور عمر میں ان سے چھوٹے تھے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام اسماء بنت وہب تھا اوروہ بنو اسد سے تھیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خطاب بن نفیل کی دوسری اہلیہ حنتمہ بنتِ ہاشم بن المغیرہ کے بطن سے تھے۔ سوتیلے ہونے کے باوجود دونوں بھائیوں میں کمال درجے کی محبت تھی، جس میں عمر کے ساتھ ساتھ برابر اضافہ ہوتا رہا۔
حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے فطرتِ سعید سے نوازا تھا۔ وہ ان عظیم المرتبت نفوس میں سے ہیں جنہوں نے بعثتِ نبوی کے ابتدائی تین سالوں کے دوران دعوت حق پر لبیک کہا اور پھر سالہا سال تک مشرکین مکہ کے ہولناک مظالم کا ہدف بنے رہے۔ ۱۳ بعد بعثت میں سرورِ عالم ﷺ نے مسلمانوں کو مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی تو حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ مہاجرین کے پہلے قافلے کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق انہوں نے مہاجرین کے تیسرے قافلے کے ساتھ ہجرت کی اورقباء میں حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کے ہاں قیام کیا۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد سرورِ عالم ﷺ نے بھی مدینہ میں نزولِ اجلال فرمایا اور اس قدیم شہر کے در و دیوار طلعتِ اقدس سے جگمگانے لگے۔ ہجرت کے چھٹے مہینے میں حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ (خادمِ رسول اللہ ﷺ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے سوتیلے والد) کے مکان پر انصار ومہاجرین کو جمع کیا اور ان میں مواخاۃ قائم کی۔
حافظ ابنِ عبدالبرؒ کا بیان ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حضرت معن بن عدی عجلانی انصاری رضی اللہ عنہ کا دینی بھائی بنایا۔
۲ھ میں بدر کے مقام پر حق اور باطل کے درمیان پہلا معرکہ ہواتو حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ’’اصحاب بدر‘‘ میں شامل ہونے کا عظیم شرف حاصل ہوا۔ اگلے سال غزوۂ اُحد میں انہوں نے جس والہانہ جوش وخروش سے دادِ شجاعت دی اس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ اُحد کے بعد غزوۂ خندق میں سرفروشی کا حق ادا کیا۔ ۶ھ میں انہوں نے حدیبیہ کے مقام پر بیعتِ رضوان میں شریک ہونے کی لازوال سعادت حاصل کی۔ فتح مکہ کے بعد حنین، اوطاس اور طائف کے معرکے پیش آئے تو ان میں بھی وہ برابر رحمتِ عالم ﷺ کے ہمرکاب رہے۔ حجۃ الوداع ( ۱۰ھ) میں بھی حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔ ابنِ سعد رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ حجۃ الوداع کے زمانے میں ایک دن سرورِ عالم ﷺ نے حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ حدیث بیان فرمائی۔
’’جو تم کھاتے ہو وہی اپنے غلاموں کو کھلاؤ۔ جو پہنتے ہو وہی اپنے غلاموں کو پہناؤ۔ اگر وہ کوئی خطا کریں جو تم معاف نہ کرسکو تو ان کو فروخت کر ڈالو۔‘‘
غرض عہدِ رسالت میں شاید ہی کوئی ایسا شرف ہو جو حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حاصل نہ کیا ہو۔ وہ خیر البشر ﷺ کے ان جاں نثاروں میں سے تھے جو حق کی حمایت میں ہمیشہ سربکف رہتے تھے اور کسی قسم کا دباؤ، لالچ یا خوف انہیں اس کام سے باز نہیں رکھ سکتا تھا۔
۱۱ ہجری میں آفتابِ رسالت اللہ تعالیٰ کی شفقِ رحمت میں غروب ہوا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سریر آرائے خلافت ہوئے تو دفعتاً سارے عرب میں فتنۂ ارتداد کے شعلے بھڑک اٹھے۔ قریش مکہ، انصارِ مدینہ، بنو ثقیفِ طائف اور تین چار دوسرے قبیلوں کے سوا عرب میں کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جو اس فتنے سے کسی نہ کسی صورت میں متاثر نہ ہوا ہو۔ امتِ مسلمہ پر یہ وقت سخت نازک تھا اور مرتدین کے مقابلے میں ذرا سی کمزوری کا مظاہرہ بھی خوفناک نتائج پیدا کرسکتا تھا۔ اس موقع پرسیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کمال درجہ کے عزم وہمت اور فراستِ مؤمنانہ سے کام لیا۔ وہ بادِ حوادث کے سامنے کوہِ استقامت بن کر کھڑے ہوگئے اور مرتدین کے تمام مطالبوں کو یکسر رد کرکے ان کے استیصال پر کمر باندھ لی۔ اس سلسلہ میں علمبردارانِ حق اور مرتدین کے درمیان کئی خونریز لڑائیاں ہوئیں۔ ان میں سب سے ہولناک لڑائی مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے مقام پر پیش آئی۔ مورخ طبری رحمہ اللہ نے اس لڑائی کی بابت لکھا ہے کہ ’’ لم یلق المسلمون حرباً مثلھا قط‘‘ یعنی مسلمانوں کو اس سے زیادہ سخت معرکہ کبھی پیش نہیں آیا۔
اہلِ سیر کا بیان ہے کہ حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شروع ہی سے فتنۂ ارتداد کو فروکرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی تھی اور مرتدین کے خلاف کئی معرکوں میں انہوں نے والہانہ جوش وخروش سے حصہ لیا تھا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب مسیلمہ کی زبردست جنگی تیاریوں کی اطلاع ملی تو انہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مسیلمہ سے معرکہ آرا ہونے کا حکم دیا اور ان کی کمک کے لیے تازہ دم فوج روانہ کی۔ اس فوج میں انصار کے سردار حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور مہاجرین کے امیر حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے ۔ یمامہ کے قریب عقرباء کے مقام پر مسلمانوں و مسلیمہ کے لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔ مسلیمہ کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تھی، جبکہ مسلمانوں کی کل تعداد مل ملاکر دس ہزار کے قریب تھی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اس موقع پر اسلامی لشکر کے علمبردار حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے۔ جب دونوں جانب جنگ کی صفیں آراستہ ہولیں تو سب سے پہلے مسیلمہ کی جانب سے نہّار الرجال بن عنفوہ میدان میں نکلا اور اس نے مسلمانوں کو للکار کر دعوتِ مبارزت دی۔ یہ ایک نہایت شریر النفس شخص تھا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ عہدِ رسالت میں یمامہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلا گیا تھا اور سرورِ عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر آپ ﷺ سے قرآنِ حکیم اور مسائلِ دین کی تعلیم حاصل کی تھی۔ جب ضروری تعلیم حاصل کرچکا تو حضور ﷺ نے اسے اہل یمامہ کی تعلیم پر مامور فرمایا۔ یہ بدبخت یمامہ پہنچ کر مسیلمہ کذاب سے مل گیا اور نہایت بے حیائی سے مسیلمہ کے جھوٹے دعوے کی ان الفاظ میں شہادت دی کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ مسیلمہ میری نبوت میں شریک ہے۔ چونکہ نہار، رسول اللہ ﷺ کی خدمت بابرکت میں رہ چکا تھا اور حضور ﷺ کی جانب سے ہی معلم اور مبلغ بن کر آیا تھا اس لیے ہزاروں لوگ اس کی باتوں سے گمراہ ہوگئے اور انہوںنے مسیلمہ کا دعویٰ تسلیم کرلیا۔ اور اب جب وہ میدان میں نکل کر مسلمانوں سے مبارزت طلب ہوا تو حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ جوشِ غضب سے بے قرار ہوگئے اور تیر کی طرح اس پر جھپٹے۔ نہار ایک آزمودہ کار جنگجو تھا اس نے نہایت ہوشیاری سے حضرت زیدرضی اللہ عنہ کا مقابلہ کیا۔ لیکن ان کے جوش ایمانی کے سامنے اس کی کچھ پیش نہ چلی اور وہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے بُری طرح مارا گیا۔ اس کے بعد عام لڑائی شروع ہوگئی۔
’’خدا کی قسم! میں آپ کو اس حالت میں دشمن کا ہدف نہیں بننے دوں گا۔‘‘
یہ کہہ کر اپنی زرہ اتار کر ان صاحب کو پہنادی۔ اس وقت تو انہوں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بات مان لی لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد زرہ اتار پھینکی اور پھر سینہ عریاں کیے، شمشیر بدست، دشمن کی طرف بڑھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پھر دوڑتے ہوئے ان کے پاس گئے اور پوچھا کہ آپ نے زرہ کیوں اتار دی ہے؟ انہوں نے کڑک کر کہا:
’’عمر میرے راستے سے ہٹ جاؤ! اگر تم شہادت کے تمنائی ہوتو میرے دل میں بھی شوقِ شہادت کے شعلے بھڑک رہے ہیں۔ زرہ وہ پہنے جس کو زندگی عزیز ہو، میں تو اپنی زندگی راہِ حق میں بیچ چکا ہوں۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خاموش ہوگئے اور سرجھکائے ہوئے واپس اپنی صف میں آگئے۔ ادھر وہ صاحب برہنہ تن ہی دشمنوں کی صفوں میں گھس گئے اور اس جوش اور وارفتگی سے لڑنے لگے کہ شجاعت بھی آفریں پکار اٹھی… یہ مردِ جری جن کو شوقِ شہادت نے قمیص اور زرہ سے بے نیاز کردیا تھا، حضرت زید بن خطاب عدوی رضی اللہ عنہ تھے۔
سیدنا حضرت ابو عبدالرحمن زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کا شمار بڑے جلیل القدر صحابہ میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق قریش کے خاندان ’’بنو عدی‘‘ سے تھا۔ سلسلۂ نسب یہ ہے۔
زیدؓ بن خطاب بن نفیل بن عبد العزیٰ بن رباح بن عبداللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لؤی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان کے سوتیلے بھائی تھے اور عمر میں ان سے چھوٹے تھے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کی والدہ کا نام اسماء بنت وہب تھا اوروہ بنو اسد سے تھیں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ خطاب بن نفیل کی دوسری اہلیہ حنتمہ بنتِ ہاشم بن المغیرہ کے بطن سے تھے۔ سوتیلے ہونے کے باوجود دونوں بھائیوں میں کمال درجے کی محبت تھی، جس میں عمر کے ساتھ ساتھ برابر اضافہ ہوتا رہا۔
حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے فطرتِ سعید سے نوازا تھا۔ وہ ان عظیم المرتبت نفوس میں سے ہیں جنہوں نے بعثتِ نبوی کے ابتدائی تین سالوں کے دوران دعوت حق پر لبیک کہا اور پھر سالہا سال تک مشرکین مکہ کے ہولناک مظالم کا ہدف بنے رہے۔ ۱۳ بعد بعثت میں سرورِ عالم ﷺ نے مسلمانوں کو مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دی تو حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ مہاجرین کے پہلے قافلے کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ آگئے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق انہوں نے مہاجرین کے تیسرے قافلے کے ساتھ ہجرت کی اورقباء میں حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر رضی اللہ عنہ کے ہاں قیام کیا۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد سرورِ عالم ﷺ نے بھی مدینہ میں نزولِ اجلال فرمایا اور اس قدیم شہر کے در و دیوار طلعتِ اقدس سے جگمگانے لگے۔ ہجرت کے چھٹے مہینے میں حضور اکرم ﷺ نے حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ (خادمِ رسول اللہ ﷺ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے سوتیلے والد) کے مکان پر انصار ومہاجرین کو جمع کیا اور ان میں مواخاۃ قائم کی۔
حافظ ابنِ عبدالبرؒ کا بیان ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کو حضرت معن بن عدی عجلانی انصاری رضی اللہ عنہ کا دینی بھائی بنایا۔
۲ھ میں بدر کے مقام پر حق اور باطل کے درمیان پہلا معرکہ ہواتو حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ’’اصحاب بدر‘‘ میں شامل ہونے کا عظیم شرف حاصل ہوا۔ اگلے سال غزوۂ اُحد میں انہوں نے جس والہانہ جوش وخروش سے دادِ شجاعت دی اس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ اُحد کے بعد غزوۂ خندق میں سرفروشی کا حق ادا کیا۔ ۶ھ میں انہوں نے حدیبیہ کے مقام پر بیعتِ رضوان میں شریک ہونے کی لازوال سعادت حاصل کی۔ فتح مکہ کے بعد حنین، اوطاس اور طائف کے معرکے پیش آئے تو ان میں بھی وہ برابر رحمتِ عالم ﷺ کے ہمرکاب رہے۔ حجۃ الوداع ( ۱۰ھ) میں بھی حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔ ابنِ سعد رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ حجۃ الوداع کے زمانے میں ایک دن سرورِ عالم ﷺ نے حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ حدیث بیان فرمائی۔
’’جو تم کھاتے ہو وہی اپنے غلاموں کو کھلاؤ۔ جو پہنتے ہو وہی اپنے غلاموں کو پہناؤ۔ اگر وہ کوئی خطا کریں جو تم معاف نہ کرسکو تو ان کو فروخت کر ڈالو۔‘‘
غرض عہدِ رسالت میں شاید ہی کوئی ایسا شرف ہو جو حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حاصل نہ کیا ہو۔ وہ خیر البشر ﷺ کے ان جاں نثاروں میں سے تھے جو حق کی حمایت میں ہمیشہ سربکف رہتے تھے اور کسی قسم کا دباؤ، لالچ یا خوف انہیں اس کام سے باز نہیں رکھ سکتا تھا۔
۱۱ ہجری میں آفتابِ رسالت اللہ تعالیٰ کی شفقِ رحمت میں غروب ہوا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سریر آرائے خلافت ہوئے تو دفعتاً سارے عرب میں فتنۂ ارتداد کے شعلے بھڑک اٹھے۔ قریش مکہ، انصارِ مدینہ، بنو ثقیفِ طائف اور تین چار دوسرے قبیلوں کے سوا عرب میں کوئی قبیلہ ایسا نہ تھا جو اس فتنے سے کسی نہ کسی صورت میں متاثر نہ ہوا ہو۔ امتِ مسلمہ پر یہ وقت سخت نازک تھا اور مرتدین کے مقابلے میں ذرا سی کمزوری کا مظاہرہ بھی خوفناک نتائج پیدا کرسکتا تھا۔ اس موقع پرسیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کمال درجہ کے عزم وہمت اور فراستِ مؤمنانہ سے کام لیا۔ وہ بادِ حوادث کے سامنے کوہِ استقامت بن کر کھڑے ہوگئے اور مرتدین کے تمام مطالبوں کو یکسر رد کرکے ان کے استیصال پر کمر باندھ لی۔ اس سلسلہ میں علمبردارانِ حق اور مرتدین کے درمیان کئی خونریز لڑائیاں ہوئیں۔ ان میں سب سے ہولناک لڑائی مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے مقام پر پیش آئی۔ مورخ طبری رحمہ اللہ نے اس لڑائی کی بابت لکھا ہے کہ ’’ لم یلق المسلمون حرباً مثلھا قط‘‘ یعنی مسلمانوں کو اس سے زیادہ سخت معرکہ کبھی پیش نہیں آیا۔
اہلِ سیر کا بیان ہے کہ حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شروع ہی سے فتنۂ ارتداد کو فروکرنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگادی تھی اور مرتدین کے خلاف کئی معرکوں میں انہوں نے والہانہ جوش وخروش سے حصہ لیا تھا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب مسیلمہ کی زبردست جنگی تیاریوں کی اطلاع ملی تو انہوں نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مسیلمہ سے معرکہ آرا ہونے کا حکم دیا اور ان کی کمک کے لیے تازہ دم فوج روانہ کی۔ اس فوج میں انصار کے سردار حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ اور مہاجرین کے امیر حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے ۔ یمامہ کے قریب عقرباء کے مقام پر مسلمانوں و مسلیمہ کے لشکروں کا آمنا سامنا ہوا۔ مسلیمہ کے لشکر کی تعداد چالیس ہزار تھی، جبکہ مسلمانوں کی کل تعداد مل ملاکر دس ہزار کے قریب تھی۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اس موقع پر اسلامی لشکر کے علمبردار حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے۔ جب دونوں جانب جنگ کی صفیں آراستہ ہولیں تو سب سے پہلے مسیلمہ کی جانب سے نہّار الرجال بن عنفوہ میدان میں نکلا اور اس نے مسلمانوں کو للکار کر دعوتِ مبارزت دی۔ یہ ایک نہایت شریر النفس شخص تھا۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ عہدِ رسالت میں یمامہ سے ہجرت کرکے مدینہ منورہ چلا گیا تھا اور سرورِ عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر آپ ﷺ سے قرآنِ حکیم اور مسائلِ دین کی تعلیم حاصل کی تھی۔ جب ضروری تعلیم حاصل کرچکا تو حضور ﷺ نے اسے اہل یمامہ کی تعلیم پر مامور فرمایا۔ یہ بدبخت یمامہ پہنچ کر مسیلمہ کذاب سے مل گیا اور نہایت بے حیائی سے مسیلمہ کے جھوٹے دعوے کی ان الفاظ میں شہادت دی کہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ مسیلمہ میری نبوت میں شریک ہے۔ چونکہ نہار، رسول اللہ ﷺ کی خدمت بابرکت میں رہ چکا تھا اور حضور ﷺ کی جانب سے ہی معلم اور مبلغ بن کر آیا تھا اس لیے ہزاروں لوگ اس کی باتوں سے گمراہ ہوگئے اور انہوںنے مسیلمہ کا دعویٰ تسلیم کرلیا۔ اور اب جب وہ میدان میں نکل کر مسلمانوں سے مبارزت طلب ہوا تو حضرت زید بن خطاب رضی اللہ عنہ جوشِ غضب سے بے قرار ہوگئے اور تیر کی طرح اس پر جھپٹے۔ نہار ایک آزمودہ کار جنگجو تھا اس نے نہایت ہوشیاری سے حضرت زیدرضی اللہ عنہ کا مقابلہ کیا۔ لیکن ان کے جوش ایمانی کے سامنے اس کی کچھ پیش نہ چلی اور وہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے بُری طرح مارا گیا۔ اس کے بعد عام لڑائی شروع ہوگئی۔