السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
1۔بچوں کے لیے سب سے بہتر غذا ماں کا دودھ ہے، بشرطیکہ ماں کے دودھ میں خرابی نہ ہو۔ اگر ماں کا دودھ کسی بیماری کی وجہ سے خراب ہو تو سب سے مضر ماں کا دودھ ہے۔ تندرست ماں اگر خالی پستان بھی بچے کے منہ میں دے تو بچے کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر یہ عادت بنالیں کہ ہردفعہ دودھ پلانے سے پہلے ایک انگلی شہد چٹادیا کریں تو بہت مفید ہے۔
2۔ بچے کو کبھی بھی منہ کے بل نہ سونے دیا جائے، یہ بہت بری عادت ہے اور اس سے سانس رک جانے کا بھی امکان ہوتا ہے۔ اگر ماں دیکھے کہ اس کا بچہ منہ کے بل سورہا ہے تو فوراً ہی اسے سیدھا کردے۔ بہتر ہے کہ بچے کو دائیں کروٹ سونے کا عادی بنایاجائے۔
3۔ جب بچہ سورہا ہو تو اس بات کا خاص طور سے خیال رکھا جائے کہ اس کا منہ بستر کے کسی کپڑے سے نہ ڈھکا ہو۔ اگر ماں بچے کے منہ کو کپڑے سے ڈھکاہوا دیکھے تو منہ پر سے فوراً کپڑا ہٹا دے، کیونکہ کپڑے سے منہ بند ہوجانے کی وجہ سے سانس کے رک جانے کا خطرہ رہتا ہے۔
4۔ کھانے پینے اور دوسری عادتوں کی طرح سونے کے آداب واطوار اور نیند میں باقاعدگی اور سلیقہ مندی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ پانچ چھ مہینے تک بچہ عموماً بیس گھنٹے سوتا ہے، چھ ماہ اور ایک سال کی عمر کے درمیان عموماً سولہ گھنٹے سوتا ہے۔ بتدریج سونے کی مدت کم ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ بچہ پانچ سال کا ہونے پر بارہ گھنٹے سوتا ہے۔
5۔ بچے کے آرام کے اوقات میں اس کے بول وبراز کے اوقات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ شیر خوار بچہ عمر کے لحاظ سے عموماً آٹھ بار سے سولہ بار تک پیشاب کرتا ہے اور دوبار سے چھ بار تک پاخانہ کرتا ہے۔ اگر بچے کو ہر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد پیشاب کے لیے اور ہر تین یا چار گھنٹے کے بعد پاخانے کے لیے بیدار کیا جائے تو بستر بھی نہیں خراب کرے گا اور بچے کو بھر پور آرام اور سونے کا موقع بھی مل جائے گا۔اگر ماں یادائی اوقات کی پابندی کرے تو خود بھی تکلیف سے بچ سکتی ہے اور بچہ بھی سکون سے سوسکتا ہے۔
(از:بچوں کی تربیت کیسے کریں؟، ص:۱۵۹)
بچہ جس وقت سے پیداہوتا ہے اس کا دماغ کیمرے کی سی خاصیت رکھتا ہے، جو کچھ دیکھتا ہے، سنتاہے، وہ محفوظ کرتا رہتا ہے،
1۔اس کے سامنے دوسرے کسی بچے کو بھی زور سے ڈانٹنا نہیں چاہیے۔
2۔جتنا تمیز سلیقے سے باتیں کریںگے اتنا ہی یہ بھی سلیقہ اور تمیز سے بات کرنا سیکھے گا۔
3۔بچے کے سامنے کوئی بری بات، آواز نہ نکالیں، ذکرکرتی رہیں، دعائیں پڑھتی رہیں۔
4۔ جب دودھ چھڑانے کے دن نزدیک آجائیں اور بچہ کھانے لگے تو اس کا خیال رکھیں کہ کوئی سخت چیز ہرگز نہ چبانے دیں، اس سے ڈر ہے کہ دانت مشکل سے نکلیں اور ہمیشہ کے لیے دانت کم زور رہیںگے۔
5۔اسی طرح چاکلیٹ، سویٹ، گھٹیا قسم کی ٹافیوں وغیرہ کی بجائے گھر کی بنی ہوئی اچھی اور صاف ستھری چیزیں دیں۔
6۔ایسی حالت میں نہ غذاپیٹ بھر کر کھلائیں، نہ پانی زیادہ پلائیں، اس سے معدہ ہمیشہ کے لیے کمزور ہوجاتا ہے۔
7۔اگر ذرا بھی پیٹ پھولادیکھیں تو غذا بند کردیں اور جس طرح ہو سکے بچے کو سلادیں، اس سے غذا جلدی ہضم ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں بدہضمی سے بچانے کا خاص خیال رکھیں۔
8۔ جب مسوڑھے سخت ہوجائیں اور دانت نکلتے معلوم ہوں تو سر اور گردن پر تیل خوب ملاکریں اور کبھی کبھی شہد دو دو بوند نیم گرم کرکے کانوں میں ڈال دیا کریں کہ میل نہ جمے اور لیڈی ڈاکٹر سے پوچھ کر ایسی دوا کا استعمال کریں کہ دانت آسانی سے نکلیں
9۔ کبھی دانتوں کے مشکل سے نکلنے کی وجہ سے بچے کے ہاتھ جسم اینٹھنے لگتے ہیں، اس وقت سر اور گردن پرتیل ملیں اور کبھی کبھی نمک اور شہد ملاکر مسوڑھوں پر ملتے رہیں، اس سے منہ نہیں آتا اور دانت بھی بہت آسانی سے نکلتے ہیں۔
10۔جب بچے کی زبان کچھ کھل چکے تو کبھی کبھی زبان کی جڑ کو انگلی سے مل دیا کریں، اس سے بہت جلدی صاف بولنے لگتا ہے۔
(ماخوذ ازخلاصۂ بہشتی زیور، ص:۷۲۷)
حکمت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ بری عادتوں سے بھی تن درستی خراب ہوجاتی ہے، لہٰذا بچے کی عادتیں درست رکھنے کا بہت خیال رکھیں، جتنا آپ اس ایک بچے کا خیال رکھیں گی، اس کی صحیح تربیت کریںگی تو یہ بچہ کل بڑا ہوکر جو بھی اچھا کام کرے گا اور دنیا میں اس کی وجہ سے جتنی خیر اور بھلائیاں وجود میں آئیںگی، آپ ان کا سبب بنیںگی۔خصوصاً پانچ سال سے کم عمر بچوں کے لیے اور بچوں کی جتنی اچھی تربیت ہوجاتی ہے اتنی ہی زیادہ بچے اخلاق سے بہرہ مند اور صحت مند ہوتے ہیں۔
1۔بچوں کے لیے سب سے بہتر غذا ماں کا دودھ ہے، بشرطیکہ ماں کے دودھ میں خرابی نہ ہو۔ اگر ماں کا دودھ کسی بیماری کی وجہ سے خراب ہو تو سب سے مضر ماں کا دودھ ہے۔ تندرست ماں اگر خالی پستان بھی بچے کے منہ میں دے تو بچے کو فائدہ پہنچتا ہے۔ اگر یہ عادت بنالیں کہ ہردفعہ دودھ پلانے سے پہلے ایک انگلی شہد چٹادیا کریں تو بہت مفید ہے۔
2۔ بچے کو کبھی بھی منہ کے بل نہ سونے دیا جائے، یہ بہت بری عادت ہے اور اس سے سانس رک جانے کا بھی امکان ہوتا ہے۔ اگر ماں دیکھے کہ اس کا بچہ منہ کے بل سورہا ہے تو فوراً ہی اسے سیدھا کردے۔ بہتر ہے کہ بچے کو دائیں کروٹ سونے کا عادی بنایاجائے۔
3۔ جب بچہ سورہا ہو تو اس بات کا خاص طور سے خیال رکھا جائے کہ اس کا منہ بستر کے کسی کپڑے سے نہ ڈھکا ہو۔ اگر ماں بچے کے منہ کو کپڑے سے ڈھکاہوا دیکھے تو منہ پر سے فوراً کپڑا ہٹا دے، کیونکہ کپڑے سے منہ بند ہوجانے کی وجہ سے سانس کے رک جانے کا خطرہ رہتا ہے۔
4۔ کھانے پینے اور دوسری عادتوں کی طرح سونے کے آداب واطوار اور نیند میں باقاعدگی اور سلیقہ مندی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ پانچ چھ مہینے تک بچہ عموماً بیس گھنٹے سوتا ہے، چھ ماہ اور ایک سال کی عمر کے درمیان عموماً سولہ گھنٹے سوتا ہے۔ بتدریج سونے کی مدت کم ہوتی رہتی ہے، یہاں تک کہ بچہ پانچ سال کا ہونے پر بارہ گھنٹے سوتا ہے۔
5۔ بچے کے آرام کے اوقات میں اس کے بول وبراز کے اوقات کا ضرور خیال رکھنا چاہیے۔ شیر خوار بچہ عمر کے لحاظ سے عموماً آٹھ بار سے سولہ بار تک پیشاب کرتا ہے اور دوبار سے چھ بار تک پاخانہ کرتا ہے۔ اگر بچے کو ہر ڈیڑھ گھنٹے کے بعد پیشاب کے لیے اور ہر تین یا چار گھنٹے کے بعد پاخانے کے لیے بیدار کیا جائے تو بستر بھی نہیں خراب کرے گا اور بچے کو بھر پور آرام اور سونے کا موقع بھی مل جائے گا۔اگر ماں یادائی اوقات کی پابندی کرے تو خود بھی تکلیف سے بچ سکتی ہے اور بچہ بھی سکون سے سوسکتا ہے۔
(از:بچوں کی تربیت کیسے کریں؟، ص:۱۵۹)
بچہ جس وقت سے پیداہوتا ہے اس کا دماغ کیمرے کی سی خاصیت رکھتا ہے، جو کچھ دیکھتا ہے، سنتاہے، وہ محفوظ کرتا رہتا ہے،
1۔اس کے سامنے دوسرے کسی بچے کو بھی زور سے ڈانٹنا نہیں چاہیے۔
2۔جتنا تمیز سلیقے سے باتیں کریںگے اتنا ہی یہ بھی سلیقہ اور تمیز سے بات کرنا سیکھے گا۔
3۔بچے کے سامنے کوئی بری بات، آواز نہ نکالیں، ذکرکرتی رہیں، دعائیں پڑھتی رہیں۔
4۔ جب دودھ چھڑانے کے دن نزدیک آجائیں اور بچہ کھانے لگے تو اس کا خیال رکھیں کہ کوئی سخت چیز ہرگز نہ چبانے دیں، اس سے ڈر ہے کہ دانت مشکل سے نکلیں اور ہمیشہ کے لیے دانت کم زور رہیںگے۔
5۔اسی طرح چاکلیٹ، سویٹ، گھٹیا قسم کی ٹافیوں وغیرہ کی بجائے گھر کی بنی ہوئی اچھی اور صاف ستھری چیزیں دیں۔
6۔ایسی حالت میں نہ غذاپیٹ بھر کر کھلائیں، نہ پانی زیادہ پلائیں، اس سے معدہ ہمیشہ کے لیے کمزور ہوجاتا ہے۔
7۔اگر ذرا بھی پیٹ پھولادیکھیں تو غذا بند کردیں اور جس طرح ہو سکے بچے کو سلادیں، اس سے غذا جلدی ہضم ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں بدہضمی سے بچانے کا خاص خیال رکھیں۔
8۔ جب مسوڑھے سخت ہوجائیں اور دانت نکلتے معلوم ہوں تو سر اور گردن پر تیل خوب ملاکریں اور کبھی کبھی شہد دو دو بوند نیم گرم کرکے کانوں میں ڈال دیا کریں کہ میل نہ جمے اور لیڈی ڈاکٹر سے پوچھ کر ایسی دوا کا استعمال کریں کہ دانت آسانی سے نکلیں
9۔ کبھی دانتوں کے مشکل سے نکلنے کی وجہ سے بچے کے ہاتھ جسم اینٹھنے لگتے ہیں، اس وقت سر اور گردن پرتیل ملیں اور کبھی کبھی نمک اور شہد ملاکر مسوڑھوں پر ملتے رہیں، اس سے منہ نہیں آتا اور دانت بھی بہت آسانی سے نکلتے ہیں۔
10۔جب بچے کی زبان کچھ کھل چکے تو کبھی کبھی زبان کی جڑ کو انگلی سے مل دیا کریں، اس سے بہت جلدی صاف بولنے لگتا ہے۔
(ماخوذ ازخلاصۂ بہشتی زیور، ص:۷۲۷)
حکمت کی کتابوں میں لکھا ہے کہ بری عادتوں سے بھی تن درستی خراب ہوجاتی ہے، لہٰذا بچے کی عادتیں درست رکھنے کا بہت خیال رکھیں، جتنا آپ اس ایک بچے کا خیال رکھیں گی، اس کی صحیح تربیت کریںگی تو یہ بچہ کل بڑا ہوکر جو بھی اچھا کام کرے گا اور دنیا میں اس کی وجہ سے جتنی خیر اور بھلائیاں وجود میں آئیںگی، آپ ان کا سبب بنیںگی۔خصوصاً پانچ سال سے کم عمر بچوں کے لیے اور بچوں کی جتنی اچھی تربیت ہوجاتی ہے اتنی ہی زیادہ بچے اخلاق سے بہرہ مند اور صحت مند ہوتے ہیں۔