بیٹی کی شادی کی دعوت سنت سمجھ کر کرنا غلط ہے
علماء کرام نے فرمایا کہ بیٹی کی شادی کی دعوت ولیمہ کی طرح سنت سمجھ کر کرنا غلط اور ناجائز ہے، اور یہ سمجھنا کہ ضروری ہے اور اس کے بغیر ہم اپنی بیٹی کو رخصت کر ہی نہیں سکتے ،اورجب تک اس کی دعوت نہ ہو اور سب لوگوں کو نہ بلایا جائے اور دھوم دھام سے نہ ہو، چاہے حیثیت بھی نہ ہو لیکن وہ ضروری سمجھتے ہیں ،تو ضروری سمجھ کر کرنا بھی صحیح نہیں ،یہ بھی غلط ہے۔البتہ یہ گنجائش ہے کہ حسب استطاعت جو خاص خاص عزیز و اقارب ہوں ان کو بلا لیا جائے، اور جب اپنے گھر میں بلایا جائے گا اور کھانا بھی کھلایا جائے گا اسی طرح یہ ان کی مہمان نوازی ہوگی ،وہ بھی کھا لیں گے اور گھر والے بھی کھا لیں گے، کھانے کے بعد بچی کی رخصتی ہو جائے گی۔
لیکن یہاں تو لڑکے والوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے کتنے آدمی آئیں گے اور بعض اوقات تو خود ہی لسٹ بھیج دیتے ہیں کہ کم از کم 500 افراد ہمارے ہوں گے، اور ہزار لڑکی والوں نے بلارکھے ہیں ،اب ڈیڑھ ہزاروں آدمیوں کا کھانا کوئی معمولی بات ہے؟ اگر یہ نہ ہو تو پھر نکاح نہیں ہوسکتا ,رخصتی نہیں ہوسکتی۔
یہ جو لمبے لمبے خرچے ہم نے اپنی طرف سے بنا لیے ہیں یہ سراسر ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہوا ہے ،زیادتی کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے شادی بیاہ کے مسائل کو ہم نے خود ہی مشکل سے مشکل بنالیا ہے۔ بہر حال دیکھ لیجئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی آپ صلی اللہ وسلم کے گھر سے کس طرح رخصت ہو رہی ہیں،اس بات کو ہم یاد رکھیں۔ اگر بیٹی کے لیے کچھ کرنا ہے تو مختصر سے مختصر اور کم سے کم ،بس اپنے خاص عزیزواقارب اور اپنے گھر کی حد تک اور دو چارپڑوسیوں کی حد تک محدود رکھیں ،جس کے لئے کوئی لمبا چوڑا انتظام کرنے کی ضرورت نہیں، اور یہ بھی وہ کرے جس میں استطاعت ہو، جس کی یہ بھی استطاعت نہ ہو اس کے لیے یہ بھی ضروری نہیں (بحوالہ شادی بیاہ کے اسلامی احکام)