بیٹی کی شادی کی دعوت سنت سمجھ کر کرنا غلط ہے

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بیٹی کی شادی کی دعوت سنت سمجھ کر کرنا غلط ہے​
علماء کرام نے فرمایا کہ بیٹی کی شادی کی دعوت ولیمہ کی طرح سنت سمجھ کر کرنا غلط اور ناجائز ہے، اور یہ سمجھنا کہ ضروری ہے اور اس کے بغیر ہم اپنی بیٹی کو رخصت کر ہی نہیں سکتے ،اورجب تک اس کی دعوت نہ ہو اور سب لوگوں کو نہ بلایا جائے اور دھوم دھام سے نہ ہو، چاہے حیثیت بھی نہ ہو لیکن وہ ضروری سمجھتے ہیں ،تو ضروری سمجھ کر کرنا بھی صحیح نہیں ،یہ بھی غلط ہے۔

البتہ یہ گنجائش ہے کہ حسب استطاعت جو خاص خاص عزیز و اقارب ہوں ان کو بلا لیا جائے، اور جب اپنے گھر میں بلایا جائے گا اور کھانا بھی کھلایا جائے گا اسی طرح یہ ان کی مہمان نوازی ہوگی ،وہ بھی کھا لیں گے اور گھر والے بھی کھا لیں گے، کھانے کے بعد بچی کی رخصتی ہو جائے گی۔

لیکن یہاں تو لڑکے والوں سے پوچھا جاتا ہے کہ آپ کے کتنے آدمی آئیں گے اور بعض اوقات تو خود ہی لسٹ بھیج دیتے ہیں کہ کم از کم 500 افراد ہمارے ہوں گے، اور ہزار لڑکی والوں نے بلارکھے ہیں ،اب ڈیڑھ ہزاروں آدمیوں کا کھانا کوئی معمولی بات ہے؟ اگر یہ نہ ہو تو پھر نکاح نہیں ہوسکتا ,رخصتی نہیں ہوسکتی۔

یہ جو لمبے لمبے خرچے ہم نے اپنی طرف سے بنا لیے ہیں یہ سراسر ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا ہوا ہے ،زیادتی کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے شادی بیاہ کے مسائل کو ہم نے خود ہی مشکل سے مشکل بنالیا ہے۔ بہر حال دیکھ لیجئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی آپ صلی اللہ وسلم کے گھر سے کس طرح رخصت ہو رہی ہیں،اس بات کو ہم یاد رکھیں۔ اگر بیٹی کے لیے کچھ کرنا ہے تو مختصر سے مختصر اور کم سے کم ،بس اپنے خاص عزیزواقارب اور اپنے گھر کی حد تک اور دو چارپڑوسیوں کی حد تک محدود رکھیں ،جس کے لئے کوئی لمبا چوڑا انتظام کرنے کی ضرورت نہیں، اور یہ بھی وہ کرے جس میں استطاعت ہو، جس کی یہ بھی استطاعت نہ ہو اس کے لیے یہ بھی ضروری نہیں (بحوالہ شادی بیاہ کے اسلامی احکام)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اگر ایک شخص کے گھر پر 3 کاریں کھڑی ہوں۔ ہر شہر میں بنگلہ ہویا کچھ کاروبار ہو۔ اور وہ اپنی بیٹی کو کچھ نہ دے لیکن بیٹوں پر سب کچھ لٹاتا رہے اس کے لیے کیا حکم ہے؟
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اگر ایک شخص کے گھر پر 3 کاریں کھڑی ہوں۔ ہر شہر میں بنگلہ ہویا کچھ کاروبار ہو۔ اور وہ اپنی بیٹی کو کچھ نہ دے لیکن بیٹوں پر سب کچھ لٹاتا رہے اس کے لیے کیا حکم ہے؟
مفتی صاحب جواب عنایت فرمائیں۔
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
لڑکی والوں کی طرف سے مہمانوں کو کھانا کھلانا نہ ولیمہ کےحکم میں ہے اورنہ ہی کوئی سنت یا مستحب عمل، لہذا اسےولیمہ یا مستحب سمجھنا درست نہیں ،نیز مستحب سمجھے بغیررسم کے دباؤکے تحت کھلانا بھی درست نہیں، البتہ اگر کوئی ریا ونمودسے بچتےہوئے، اس کو ولیمہ یا سنت اورمستحب یا رسم کے تحت لازم سمجھےبغیراعتدال کے ساتھ شادی میں شرکت کرنے والے مہمانوں کو کھلادے تو فی نفسہ یہ ایک مباح امر ہوگا،جس میں کوئی قباحت نہیں، لیکن آج کل شادی کے موقع پر جو دعوتیں ہوتی ہیں ان میں تکلفات اوراسراف زیادہ ہوتاہے جوکہ مزاجِِ شریعت کے خلاف ہے،لہذا اس میں اعتدال پیداکیاجائے ورنہ یہ سلسلہ بالکل ختم ہی کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
کیا لڑکے والوں کے ساتھ لڑکی والے ولیمہ کی خرچہ شریک کر سکتے ہیں؟ اور ولیمہ سنت ہے تو ثواب دونوں کو ہوگا یا صرف لڑکے والوں کو؟
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
لڑکی والوں کی طرف سے مہمانوں کو کھانا کھلانا نہ ولیمہ کےحکم میں ہے اورنہ ہی کوئی سنت یا مستحب عمل، لہذا اسےولیمہ یا مستحب سمجھنا درست نہیں ،نیز مستحب سمجھے بغیررسم کے دباؤکے تحت کھلانا بھی درست نہیں، البتہ اگر کوئی ریا ونمودسے بچتےہوئے، اس کو ولیمہ یا سنت اورمستحب یا رسم کے تحت لازم سمجھےبغیراعتدال کے ساتھ شادی میں شرکت کرنے والے مہمانوں کو کھلادے تو فی نفسہ یہ ایک مباح امر ہوگا،جس میں کوئی قباحت نہیں، لیکن آج کل شادی کے موقع پر جو دعوتیں ہوتی ہیں ان میں تکلفات اوراسراف زیادہ ہوتاہے جوکہ مزاجِِ شریعت کے خلاف ہے،لہذا اس میں اعتدال پیداکیاجائے ورنہ یہ سلسلہ بالکل ختم ہی کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
مہمانوں کی مہمان نوازی سنت ہے یا مستحب؟؟؟؟؟؟
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
مہمانوں کی مہمان نوازی سنت ہے یا مستحب؟؟؟؟؟؟
لڑکی کی شادی میں شریک مہمانوں کو کھاناکھلانا اس لیے جائز ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ یہ بذاتِ خود مسنون یا مستحب عمل نہیں نیز یہ ولیمہ مسنونہ بھی نہیں، اسی وجہ سے صحابہ کے زمانہ میں اس کا عام رواج نہیں تھا، لیکن آخر یہ مہمان جوباقاعدہ شادی میں شریک ہیں ،کھانا کہاں سے کھائیں گے؟نبی کریم ﷺ نے مہمان کے اکرام کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔
بعض حضرات حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنھا کے نکاح کے واقعہ سے بھی اس کے جواز پر استدلال کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کو نکاح کرانے کا فرمایاتھا اورخالد بن سعید نکاح کے وکیل تھے نکاح کے بعد اسی مجلس میں نجاشی نے حاضرین کو کھانا بھی کھلایا تھا۔جیسے کہ مستدرک حاکم
کی درج ذیل روایت میں درج ہے۔
المستدرك على الصحيحين للحاكم (4/ 22)
ثم أرادوا أن يقوموا، فقال: اجلسوا فإن سنة الأنبياء عليهم الصلاة والسلام إذا تزوجوا أن يؤكل الطعام على التزويج فدعا بطعام فأكلوا، ثم تفرقوا.
اس پر مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ نے لکھاہے :
ولیس ذلک بولیمۃ بل ھو طعام التزویج ویلحق بہ ماتعارفہ المسلموں من نثرالتمرونحوہ فی مجلس النکاح (اعلاء السنن ۱۱/۱۲)
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اگر وہ خوشی سے کھلا رہے ہیں تو حکم تو یہی ہے کہ فكل من طعامه واشرب من شرابه اس شرط کے ساتھ کہ إذا دخلت على مسلم لا يتهم
بلکہ إذا دعي أحدكم إلى طعام، فليجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترك
 

محمدداؤدالرحمن علی

خادم
Staff member
منتظم اعلی
تاکید سے وجوب سمجھیں ،سنت یا مستحب؟
مہمان کی مہمان داری کرنا سنت ہے
"عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلايؤذ جاره ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر کرے، جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ بھلی بات کہے یا چپ رہے ۔مشكاة المصابيح - (2 / 463)

و عن أبي شريح الكعبي أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "من كان يؤمن بالله و اليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته يوم و ليلة، و الضيافة ثلاثة أيام، فما بعد ذلك فهو صدقة، و لايحلّ له أن يثوي عنده حتى يحرجه
اور حضرت شریح کعبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی تعظیم و خاطر داری کرے، مہمان کے ساتھ تکلف و احسان کرنے کا زمانہ ایک دن و ایک رات ہے، اور مہمان داری کرنے کا زمانہ تین دن ہے، اس (تین دن) کے بعد جو دیا جائے گا وہ ہدیہ و خیرات ہو گا اور مہمان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ میزبان کے ہاں تین دن کے بعد اس کی استدعا کے بغیر ٹھہرے کہ وہ تنگی میں مبتلا ہو جائے ۔مشكاة المصابيح - (2 / 463)
 
Last edited:

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
مفتی صاحب جی اور معلمہ گل صاحبہ حدیث کا ترجمہ بھی لکھدیا کریں بڑی نوازش ہوگی
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
لڑکی کی شادی میں شریک مہمانوں کو کھاناکھلانا اس لیے جائز ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ یہ بذاتِ خود مسنون یا مستحب عمل نہیں نیز یہ ولیمہ مسنونہ بھی نہیں، اسی وجہ سے صحابہ کے زمانہ میں اس کا عام رواج نہیں تھا، لیکن آخر یہ مہمان جوباقاعدہ شادی میں شریک ہیں ،کھانا کہاں سے کھائیں گے؟نبی کریم ﷺ نے مہمان کے اکرام کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔
بعض حضرات حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنھا کے نکاح کے واقعہ سے بھی اس کے جواز پر استدلال کرتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کو نکاح کرانے کا فرمایاتھا اورخالد بن سعید نکاح کے وکیل تھے نکاح کے بعد اسی مجلس میں نجاشی نے حاضرین کو کھانا بھی کھلایا تھا۔جیسے کہ مستدرک حاکم
کی درج ذیل روایت میں درج ہے۔
المستدرك على الصحيحين للحاكم (4/ 22)
ثم أرادوا أن يقوموا، فقال: اجلسوا فإن سنة الأنبياء عليهم الصلاة والسلام إذا تزوجوا أن يؤكل الطعام على التزويج فدعا بطعام فأكلوا، ثم تفرقوا.
اس پر مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ نے لکھاہے :
ولیس ذلک بولیمۃ بل ھو طعام التزویج ویلحق بہ ماتعارفہ المسلموں من نثرالتمرونحوہ فی مجلس النکاح (اعلاء السنن ۱۱/۱۲)
یہ بہت اہم عبارت ہے۔۔جن بعض لوگوں نے بالا عبارت سے جواز پر استدلال کیا ہے۔محدثین کی کیا رائے ہے؟.ترجمہ لکھدیں۔
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
اگر وہ خوشی سے کھلا رہے ہیں تو حکم تو یہی ہے کہ فكل من طعامه واشرب من شرابه اس شرط کے ساتھ کہ إذا دخلت على مسلم لا يتهم
بلکہ إذا دعي أحدكم إلى طعام، فليجب، فإن شاء طعم، وإن شاء ترك
حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: إذَا دَخَلْت عَلَى مُسْلِمٍ لَا يُتَّهَمُ فَكُلْ مِنْ طَعَامِهِ، وَاشْرَبْ مِنْ شَرَابِهِ. (صحیح بخاری)
جب تم کسی مسلمان کے پاس جاؤ جس پر کبھی کوئی تہمت نہ لگی ہو تو اس کا کھانا کھاؤ اور اس کا پانی پیو۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا دعي احدكم إلى طعام فليجب، فإن شاء طعم وإن شاء ترك " ولم يذكر ابن المثنى: إلى طعام، (مسلم)
‏‏‏‏ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو وہ اس میں آئے ، پھر اگراور چاہے تو کھا لے ، چاہے تو نہ کھائے۔ ابن مثنیٰ نے کھانے کی دعوت کے الفاظ ذکر نہیں کیے۔
 
Top