آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت دی ہے:
’’وَلَا تَحْقِرَنَّ شَیْئًا مِنَ الْـمَعْرُوفِ۔‘‘ (ابوداؤد، اللباس، باب ما جاء فی اسبال الازار: ۴۰۸۴)
’’تم کبھی کسی نیک کام کو ہرگز حقیر اور معمولی نہ سمجھو۔‘‘
کسی نیکی کو معمولی سمجھنا اور اُسے چھوڑدینا بے حد خطرناک بات ہے، بہت ممکن ہے کہ اسی نیکی کی وجہ سے اللہ کی رحمت متوجہ ہوجائے اور بیڑا پار ہوجائے، نیکیوں کو معمولی قرار دے کر اسے چھوڑنے کا خیال ڈالنا شیطان کی مکارانہ تدبیر ہے، اس دام میں پھنسنا بڑی نادانی ہے۔
حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے فرمایا:
’’میں نے اپنے شیخ حضرت ڈاکٹر عبد الحیٔ صاحب قدس اللہ سرہٗ سے یہ واقعہ سنا کہ:
ایک بزرگ جوبڑے محدث بھی تھے، جنہوں نے ساری عمر حدیث کی خدمت میں گزاری، جب ان کا انتقال ہوگیا تو کسی نے خواب میں ان کی زیارت کی، اور ان سے پوچھا کہ حضرت! اللہ تعالیٰ نے کیسا معاملہ فرمایا؟ جواب میں انہوں نے فرمایاکہ بڑا عجیب معاملہ ہوا، وہ یہ کہ ہم نے تو ساری عمر علم کی خدمت میں اور حدیث کی خدمت میں گزار دی، اور درس و تدریس اور تصنیف اور وعظ و خطابت میں گزاری، تو ہمارا خیال یہ تھا کہ ان اعمال پر اجر ملے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے کچھ اور ہی معاملہ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ ہمیں تمہارا ایک عمل بہت پسند آیا، وہ یہ کہ ایک دن تم حدیث شریف لکھ رہے تھے، جب تم نے اپنا قلم دوات میں ڈبو کرنکالا تو اس وقت ایک پیاسی مکھی آکر اس قلم کی نوک پر بیٹھ گئی، اور سیاہی چوسنے لگی، تمہیں اس مکھی پر تر س آگیا، تم نے سوچا کہ یہ مکھی اللہ کی مخلوق ہے، اور پیاسی ہے، یہ سیاہی پی لے تو پھر میں قلم سے کام کروں،چنانچہ اتنی دیر کے لیے تم نے اپنا قلم روک لیا اور اس وقت تک قلم سے کچھ نہیں لکھا جب تک وہ مکھی اس قلم پر بیٹھ کر سیاہی چوستی رہی، یہ عمل تم نے خالص میری رضامندی کی خاطر کیا، اس لیے اس عمل کی بدولت ہم نے تمہاری مغفرت فرمادی، اور جنت الفردوس عطا کردی۔
دیکھئے! ہم تو یہ سوچ کے بیٹھے ہیں کہ وعظ کرنا، فتویٰ دینا، تہجد پڑھنا، تصنیف کرنا وغیرہ یہ بڑے بڑے اعمال ہیں، لیکن وہاں ایک پیاسی مکھی کو سیاہی پلانے کا عمل قبول کیا جارہا ہے، اور دوسرے بڑے اعمال کا کوئی تذکرہ نہیں ۔
حالانکہ اگر غور کیا جائے تو جتنی دیر قلم روک کر رکھا، اگر اس وقت قلم نہ روکتے تو حدیث شریف ہی کا کوئی لفظ لکھتے، لیکن اللہ کی مخلوق پر شفقت کی بدولت اللہ نے مغفرت فرمادی، اگر وہ اس عمل کو معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتے تو یہ فضیلت حاصل نہ ہوتی۔
لہٰذا کچھ پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کونسا عمل مقبول ہوجائے، وہاں قیمت عمل کے حجم، سائز اور گنتی کی نہیں ہے، بلکہ وہاں عمل کے وزن کی قیمت ہے، اور یہ وزن اخلاص سے پیدا ہوتا ہے، اگر آپ نے بہت سے اعمال کیے، لیکن ان میں اخلاص نہیں تھا تو گنتی کے اعتبار سے تو وہ اعمال زیادہ تھے، لیکن فائدہ کچھ نہیں، دوسری طرف اگر عمل چھوٹا سا ہو، لیکن اس میں اخلاص ہو تو وہ عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑا بن جاتا ہے، لہٰذا جس وقت دل میں کسی نیکی کا ارادہ پیدا ہورہا ہے تو اس وقت دل میں اخلاص بھی موجود ہے، اگر اس وقت وہ عمل کرلو گے تو اُمید ہے کہ وہ ان شاء اللہ مقبول ہوجائے گا۔‘‘
(اصلاحی خطبات،ج:۶،ص: ۲۱۴-۲۱۵)
’’وَلَا تَحْقِرَنَّ شَیْئًا مِنَ الْـمَعْرُوفِ۔‘‘ (ابوداؤد، اللباس، باب ما جاء فی اسبال الازار: ۴۰۸۴)
’’تم کبھی کسی نیک کام کو ہرگز حقیر اور معمولی نہ سمجھو۔‘‘
کسی نیکی کو معمولی سمجھنا اور اُسے چھوڑدینا بے حد خطرناک بات ہے، بہت ممکن ہے کہ اسی نیکی کی وجہ سے اللہ کی رحمت متوجہ ہوجائے اور بیڑا پار ہوجائے، نیکیوں کو معمولی قرار دے کر اسے چھوڑنے کا خیال ڈالنا شیطان کی مکارانہ تدبیر ہے، اس دام میں پھنسنا بڑی نادانی ہے۔
حضرت مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے فرمایا:
’’میں نے اپنے شیخ حضرت ڈاکٹر عبد الحیٔ صاحب قدس اللہ سرہٗ سے یہ واقعہ سنا کہ:
ایک بزرگ جوبڑے محدث بھی تھے، جنہوں نے ساری عمر حدیث کی خدمت میں گزاری، جب ان کا انتقال ہوگیا تو کسی نے خواب میں ان کی زیارت کی، اور ان سے پوچھا کہ حضرت! اللہ تعالیٰ نے کیسا معاملہ فرمایا؟ جواب میں انہوں نے فرمایاکہ بڑا عجیب معاملہ ہوا، وہ یہ کہ ہم نے تو ساری عمر علم کی خدمت میں اور حدیث کی خدمت میں گزار دی، اور درس و تدریس اور تصنیف اور وعظ و خطابت میں گزاری، تو ہمارا خیال یہ تھا کہ ان اعمال پر اجر ملے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے پیشی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے کچھ اور ہی معاملہ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ ہمیں تمہارا ایک عمل بہت پسند آیا، وہ یہ کہ ایک دن تم حدیث شریف لکھ رہے تھے، جب تم نے اپنا قلم دوات میں ڈبو کرنکالا تو اس وقت ایک پیاسی مکھی آکر اس قلم کی نوک پر بیٹھ گئی، اور سیاہی چوسنے لگی، تمہیں اس مکھی پر تر س آگیا، تم نے سوچا کہ یہ مکھی اللہ کی مخلوق ہے، اور پیاسی ہے، یہ سیاہی پی لے تو پھر میں قلم سے کام کروں،چنانچہ اتنی دیر کے لیے تم نے اپنا قلم روک لیا اور اس وقت تک قلم سے کچھ نہیں لکھا جب تک وہ مکھی اس قلم پر بیٹھ کر سیاہی چوستی رہی، یہ عمل تم نے خالص میری رضامندی کی خاطر کیا، اس لیے اس عمل کی بدولت ہم نے تمہاری مغفرت فرمادی، اور جنت الفردوس عطا کردی۔
دیکھئے! ہم تو یہ سوچ کے بیٹھے ہیں کہ وعظ کرنا، فتویٰ دینا، تہجد پڑھنا، تصنیف کرنا وغیرہ یہ بڑے بڑے اعمال ہیں، لیکن وہاں ایک پیاسی مکھی کو سیاہی پلانے کا عمل قبول کیا جارہا ہے، اور دوسرے بڑے اعمال کا کوئی تذکرہ نہیں ۔
حالانکہ اگر غور کیا جائے تو جتنی دیر قلم روک کر رکھا، اگر اس وقت قلم نہ روکتے تو حدیث شریف ہی کا کوئی لفظ لکھتے، لیکن اللہ کی مخلوق پر شفقت کی بدولت اللہ نے مغفرت فرمادی، اگر وہ اس عمل کو معمولی سمجھ کر چھوڑ دیتے تو یہ فضیلت حاصل نہ ہوتی۔
لہٰذا کچھ پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کونسا عمل مقبول ہوجائے، وہاں قیمت عمل کے حجم، سائز اور گنتی کی نہیں ہے، بلکہ وہاں عمل کے وزن کی قیمت ہے، اور یہ وزن اخلاص سے پیدا ہوتا ہے، اگر آپ نے بہت سے اعمال کیے، لیکن ان میں اخلاص نہیں تھا تو گنتی کے اعتبار سے تو وہ اعمال زیادہ تھے، لیکن فائدہ کچھ نہیں، دوسری طرف اگر عمل چھوٹا سا ہو، لیکن اس میں اخلاص ہو تو وہ عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑا بن جاتا ہے، لہٰذا جس وقت دل میں کسی نیکی کا ارادہ پیدا ہورہا ہے تو اس وقت دل میں اخلاص بھی موجود ہے، اگر اس وقت وہ عمل کرلو گے تو اُمید ہے کہ وہ ان شاء اللہ مقبول ہوجائے گا۔‘‘
(اصلاحی خطبات،ج:۶،ص: ۲۱۴-۲۱۵)