ام المؤمنین حضرت أم حبیبہ -رضی اللہ عنہا-
زبیر بن بکار نے اسماعیل بن عمرو سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان فرماتی ہیں:
میں ملک حبشہ میں تھی، مجھے اس وقت تک کسی چیز کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوسکا یہاں تک کہ نجاشی کے یہاں سے بطور قاصد ایک باندھی میرے پاس آئی اس کا نام’ ابرہہ‘ تھا اور وہ نجاشی کے کپڑوں کی دیکھ ریکھ اور دوسرے کام انجام دیتی تھی، اس نے کہا: بادشاہ نے یہ کہلوایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے پاس ایک پیغام لکھ کر بھیجا ہے کہ میں تمہارا نکاح آپ ا سے کرادوں، یہ سن کر میں نے اس سے کہا: اللہ تم کو ہمیشہ خوش وخرم رکھے، اس نے مزید یہ بھی کہاکہ بادشاہ نے یہ کہلوایا ہے کہ کسی ایسے شخص کو وکیل بنا دیجئے جو آپ کا نکاح کرے، فرماتی ہیں: میں نے خالد بن سعید بن العاص -رضی اللہ عنہ- کو بلوایا اور ان کو اپنا وکیل بنایا، ابرہہ کو میں نے خوشخبری سنانے کے انعام میں چاندی کے دو کنگن، پازیب اور انگلیوں کے چھلے سب دے دیئے، جب شام ہوئی تو نجاشی نے جعفر بن ابی طالب -رضی اللہ عنہ- کو اور ان کے ساتھ تمام مسلمانوں کو جمع ہونے کا حکم دیا، نجاشی نے خود خطبہ پڑھا اور کہا:
’’الحمد للّٰہ الملک القدوس المؤمن العزیز الجبار، وأشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأن محمدا عبدہ ورسولہ، وأنہ الذي بشر بہ عیسی بن مریم، أما بعد: فإن رسول اللّٰہ ﷺ طلب أن أزوجہ أم حبیبۃ بنت أبي سفیان، فأجبت إلی ما دعا إلیہ رسول اللّٰہ ﷺ، وقد أصدقتھا أربعمائۃ دینار۔‘‘
یعنی: ’’تمام تعریفیں خداوند قدوس اور خدائے غالب اور عزیز وجبار کے لئے سزاوار ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ا اللہ کے برگزیدہ بندے اور رسول برحق ہیں اور آپ ا وہی نبی ہیں جن کی عیسی بن مریمؑ نے بشارت دی ہے۔
اما بعد: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے یہ پیشکش کی ہے کہ میں آپ ا کا نکاح ام حبیبہ بنت ابی سفیان سے کردوں، میں نے آپ ا کے حکم کے مطابق آپ کا نکاح ام حبیبہ سے کردیا اور چار سو دینار مہر مقرر کیا‘‘۔
اس کے بعد نجاشی نے وہ دنیار لوگوں کے سامنے ڈال دئے، خالد بن سعید نے بھی تقریر فرمائی اور کہا:
’’الحمد للّٰہ أحمدہ وأستغفرہ، فأشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأن محمدا عبدہ ورسولہ أرسلہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون، أما بعد: فقد أجبت إلی ما دعا إلیہ رسول اللّٰہ ﷺ وزوجتہ أم حبیبتہ بنت أبي سفیان، فبارک اللّٰہ لرسول اللّٰہ ﷺ۔
یعنی: ’’الحمد للہ، میں اللہ کی حمدوثنا بیان کرتا ہوں اور اس سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ا اللہ کے بندے اور رسول ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور دین برحق دے کر بھیجا ہے تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرکین کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔
امابعد: میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیام کو قبول کیا اور آپ ا سے ام حبیبہ کا نکاح کردیا، اللہ تعالیٰ آنحضور ا کے لئے ان کو بابرکت بنائے۔‘‘
نجاشی نے وہ دینار خالد بن سعید کو دیئے، انھوں نے وہ لے لئے، لوگوں نے اٹھنے کا ارادہ کیا، نجاشی نے کہا: ابھی بیٹھے رہئے، انبیاء کی سنت یہ ہے کہ نکاح کے بعد کھانا کھایا جائے، کھانا منگوایا، دعوت سے فارغ ہوکر سب رخصت ہوگئے۔(۱)
حضرت ام حبیبہؓ فرماتی ہیں: جب مال (مہر) میرے پاس آیا تو میں نے ابرہہ کو بلوایا جس نے مجھے خوشخبری سنائی تھی، میں نے اس سے کہا: اس روز میں نے تمہیں جو کچھ دیا تھا وہ تمہیں معلوم ہی ہے، میرے پاس اس وقت اور مال نہیں تھا، یہ پچاس دینار ہیں، یہ لے لو اور ان کو اپنی ضروریات میں خرچ کرو، اس نے میری جانب ایک تھیلی بڑھائی، اس میں میری دی ہوئی تمام چیزیں موجود تھیں اور اس نے مجھے وہ واپس کرتے ہوئے کہا: بادشاہ نے مجھے یہ تاکید کی ہے کہ آپ سے کچھ بھی نہ لوں، میں بادشاہ کے کپڑوں کی دیکھ ریکھ اور دیگر کام انجام دیتی ہوں، یقین کیجئے میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی کر چکی ہوں اور اللہ کے لئے اسلام قبول کر چکی ہوں، بادشاہ نے اپنی تمام بیگمات کو حکم دیا ہے کہ ان کے پاس جو خوشبودار عطر ہو اس میں سے آپ کے پاس بطور ہدیہ بھیجیں، دوسرے روز وہ میرے پاس بہت سا عود، ورس (ایک قسم کا پودا جو رنگائی میں استعمال ہوتا ہے) عنبر اور زباد (ایک قسم کا خوشبودار مادہ جو ایک چھوٹے سے جانور سے نکلتا ہے) لے کر آئی، میں یہ سب چیزیں آنحضور ا کے پاس لے کر آئی، آپ ا ان چیزوں کو میرے جسم پر بھی اور میرے پاس بھی دیکھا کرتے تھے، کبھی روکتے نہیں تھے۔
ابرہہ نے مجھ سے کہا کہ میری ایک درخواست ہے وہ یہ ہے کہ آنحضور ا سے میرا سلام عرض کر دینا اور یہ بتا دینا کہ میں نے ان کے دین کی اتباع کرلی ہے، فرماتی ہیں؛ اس کے بعد اس نے میرے ساتھ نہایت محبت کا معاملہ کیا، اسی نے مجھے بطور دلہن سجایا اور تیار کیا اور جب جب بھی میرے پاس آتی تھی کہتی تھی: میری درخواست کو بھلا مت دیجئے گا، حضرت ام حبیبہؓ فرماتی ہیں: جب ہم رسول اکرم ا کے پاس آئے اور اس کا سلام میں نے آپ تک پہنچایا تو آپ ا نے فرمایا: ’’وعلیھا السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔‘‘
حضرت ام حبیبہؓ: ان کا نام رملہ ہے اور سردار مکہ اور اس وقت مشرک افواج کے قائد ورہبر ابوسفیان کی بیٹی ہیں، ان کے پہلے شوہر رسول اللہ ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی عبیداللہ بن جحش اسدی ہیں، حضرت ام حبیبہ کا سفرنامہ رملۃ بنت ابی سفیان سے لیکر ام المؤمنین بننے تک بہت سے مراحل پر مشتمل ہے جن میں ہر ایک مرحلہ عبرت ناک بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔
٭ان مراحل میں سے ایک مرحلہ یہ ہے کہ عبیداللہ بن جحش حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کی بیوی رملہ بھی۔۔۔۔ اس طرح رملہ ایک راہ کی راہی بن جاتی ہیں اور ان کے والد دوسری راہ کے راہی۔۔۔۔
٭ان مراحل میں سے ایک مرحلہ وہ بھی ہے کہ رملہ اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ کی جانب ہجرت کرتی ہیں جس کی وجہ سے ابوسفیان کے گھر میں ایک دوسری دراڑ پڑ گئی، اب ان کی صاحبزادی مکہ سے بھی ترک وطن کر جاتی ہے، اپنے والد کو بھی خیر باد کہہ دیتی ہے اور دین کی راہ میں ایک دور دراز ملک کی جانب ہجرت کر جاتی ہیں۔
٭ابھی حبشہ میں رملہ نے اچھی طرح قرار بھی نہیں پکڑا تھا اور ابھی ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک بچی ’’حبیبہ‘‘ عطا فرمائی تھی کہ ان کا شوہر نصرانیت میں داخل ہو جاتا ہے اور اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ ان کو بھی دین اسلام سے باز رکھے، وہ ان سے کہتا ہے: اے ام حبیبہ! میں نے تمام ادیان کو پرکھ لیا نصرانیت (عیسائیت) سے زیادہ بہتر کوئی دین مجھے نظر نہیں آیا، میں اسی پر عمل پیرا تھا، اس کے بعد میں محمد کے دین میں داخل ہوا لیکن پھر مجھے نصرانیت اختیار کرنی پڑی۔
فرماتی ہیں: میں نے کہا: واللہ !یہ تمہارے لئے بہتر نہیں ہے۔۔۔۔ اس کے بعد وہ شراب وکباب میں مگن ہوگیا یہاں تک کہ اسی حال میں انتقال ہوگیا۔
اگر یہی ہونا تھا تو پھر ہجرت ومہاجرت کی صعوبتیں کیوں برداشت کرنی پڑیں اور ظلم وجور کی تکالیف، ترک وطن کی آزمائش، غریب الوطن کا غم اور آباء واجداد کے ساتھ نفرت ودوری کی سختیاں کیوں جھیلنی پڑیں، وہی شخص اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے جس کے لئے رملہ نے یہ سب صعوبتیں برداشت کیں تھی اور اپنے والد کو حسرت وافسوس اور ہموم وغموم کی حالت میں چھوڑنے پر راضی ہوگئیں تھی۔۔۔۔؟
حضرت رملہ لوگوں سے تنہائی اختیار کر لیتی ہیں، اس لئے کہ ان کے دل میں اس شخص کے اس عمل سے ندامت کا احساس پیدا ہوتا ہے کیونکہ یہ اس کی بیوی تھیں اور ہمیشہ ان کی بچی اسی کی جانب منسوب ہوگی۔۔۔۔
اپنے لئے اور اپنی بچی کے لئے لوگوں کے آنے جانے کا دروازہ بند کردیتی ہیں جس سے ان کی اجنبیت اور غریب الوطنی دوچند ہو جاتی ہے، وہ یہ نہیں چاہتی ہیں کہ دارِہجرت میں لوگوں سے ملیں اور نہ ہی وطن تک پہنچنے کی کوئی سبیل ہے کیوں کہ وہاں ان کا باپ اس نبی کے خلاف اعلان جنگ کئے ہوئے ہے جس پر یہ ایمان لائی ہیں اور ان کی تصدیق کی ہے۔
نبی کریم ا دور سے ہی حضرت ام حبیبہؓ کے غم والم کو محسوس کرلیتے ہیں۔۔۔۔ جن کو اپنے شوہر سے ہاتھ دھونا پڑا۔۔۔۔ اپنے وطن کو خیر باد کہنا پڑا۔۔۔۔ اور دین کی وجہ سے اپنے والد سے بھی دوری اختیار کرلی۔۔۔۔ چنانچہ ایک روز ان کو احساس ہوتا ہے کہ دروازے پر کوئی دستک دے رہا ہے، دروازہ کھولتی ہیں تو اپنے آپ کو نجاشی کی جانب سے دی ہوئی بشارت کے سامنے پاتی ہیں کہ محمد ا اپنے بارے میں ان کو پیغام نکاح دے رہے ہیں۔
اس طرح ام حبیبہ اپنے آپ کو ام المؤمنین کے منصب ومقام سے سرفراز پاتی ہیں، مسلمان بھی ان کے ساتھ شفقت ورحمت کا معاملہ کرتے تھے، جو حبشہ میں اپنی زندگی کے ایام گذار رہے تھے اور اس ملک کے فرمانروا نجاشی کی جانب سے بھی اکرام ونوازشات اور حفاظت کے انتظامات کئے جاتے ہیں۔
میں نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ کونسی چیز میرے لئے زیادہ باعث فرحت وانبساط ہے:
مدینہ منورہ میں حکومت اسلامیہ کے قیام کے لئے تمام حالات سازگار ہوئے، قریش کی شان وشوکت بھی زمین بوس ہوگئی اور انھوں نے دین اسلام کی حقانیت کا اعتراف کرلیا، یہود نے بھی بہت سے فیصلہ کن معرکوں کے بعد جزیرۃ العرب میں اسلامی طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کرلیا، ان معرکوں میں سب سے آخری معرکہ خیبر کا معرکہ تھا۔۔۔۔ کمزور وبے بس مہاجرین کے لئے اب وہ وقت آگیا کہ اب اپنے وطن واپس آجائیں جنہوں نے ملک حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی۔۔۔۔ اس لئے کہ اب دارالاسلام امن وامان اور طاقت وقوت کا مرکز بن چکا تھا۔۔۔۔ رسول اکرم ا نے بھی عمرو بن امیہ ضمری کو نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ مسلمان مہاجرین کے ساتھ اس کے حسن سلوک کا شکریہ بھی ادا کریں اور ان کی وطن کی جانب واپسی کے بارے میں اجازت بھی طلب کریں، اہل مدینہ کے لئے یہ موقع دو قسم کی خوشیوں کا تھا، جن کو آنحضور ا نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے: میں نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ کونسی چیز میرے لئے زیادہ باعث فرحت وانبساط ہے: فتح خیبر یا آمد جعفر۔۔۔۔ انہی مہاجرین کے ساتھ حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان بن حرب بھی تھیں، جو نبی کریم ا کے بارے میں انتظار کی گھڑیاں گزار رہی تھیں تاکہ آپ ا ان کو گھرانہ نبوت میں لے جائیں، کیونکہ ان کے نکاح کو کئی سال گزر چکے تھے۔
تمام اہل مدینہ اس نکاح کی وجہ سے جمع ہوئے۔۔۔۔ اور دلہن کے ماموں عثمان بن عفان نے مسلمانوں کے لئے ایک پروقار اور عظیم الشان ولیمہ کا اہتمام کیا، ابوسفیان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے: ’’ھو الفحل لا یجدع أنفہ‘‘ یعنی: وہ ایسا مرد ہے جس کے وقار پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ہے۔
شرک کی چھاونی کا آخر ی کیمپ مکہ مکرمہ بھی اب حلقہ بگوش اسلام ہونے کے لئے تیار تھا۔۔۔۔ قریش حدیبیہ میں کئے ہوئے عہد کو توڑ چکے تھے اور اب حالات کی نزاکت اور خطرہ کا بھی ان کو احساس ہو چلا تھا، محمد ا اور آپ ؐکے لشکر جرار کا مقابلہ کرنے کی اب وہ اپنے اندر قوت نہیں پا رہے تھے، اس لئے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے لیڈر ابوسفیان کو اس متوقع خطرے کے بارے میں مذاکرات کے لئے بھیجیں، تاکہ وہ عہد شکنی کے بارے میں معذرت بھی کریں اور یہ درخواست کریں کہ محمد ا اس صلح کی تجدید فرمائیں۔۔۔۔ ابوسفیان پر آنحضور ا سے ملاقات کرنے سے لرزہ طاری ہوتا ہے۔۔۔۔ وہ تجربہ کار اور منجھا ہوا سیاستداں تھا، اس لئے اس نے مناسب سمجھا کہ اپنی بیٹی ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ ؓکو کامیاب قائد محمد ا سے ملاقات کے لئے واسطہ بنائے۔
’’ام المؤمنین کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب کہ وہ اچانک ان کے گھر میں داخل ہوتا ہے، انھوں نے اس کو اس وقت سے نہیں دیکھا تھا جب سے وہ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئیں تھی، اس لئے وہ اس کے سامنے سراپا حیرت واستعجاب بن کر کھڑی رہیں، وہ نہیں سمجھ پا رہی تھیں کہ وہ کیا کریں یا کیا کہیں۔۔۔۔ جب ابوسفیان بیٹھنا چاہتا ہے تو وہ فرش کو لپیٹ لیتی ہیں۔۔۔۔ ان کا والد ان سے پوچھتا ہے: بیٹی! کیا تم نے بستر اس لئے لپیٹ لیا کہ بستر کو میرے لائق نہیں سمجھا،یا میں اس بستر کے لائق نہیں تھا؟ جواب یہ ملتا ہے: یہ رسول اللہ ﷺ کا بستر ہے، آپ مشرک انسان ہیں، مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ آپ اس پر بیٹھیں!‘‘۔
ابوسفیان اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ پاتا ہے: بیٹی! مجھ سے جدائی کے بعد تم کو شر لاحق ہوگیا ہے۔
مسلمانوں نے فتح مکہ کی پر مسرت بہار بھی دیکھ لی، ام القریٰ مکہ مکرمہ میں اسلام کی فتح ونصرت اور غلبہ مسلمانوں کے لئے نہایت فرحت بخش اور باعث شادمانی تھا، البتہ ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ کی مسرت دو چند تھی، ان کے لئے دوچیزیں باعث فرحت تھیں: ایک فتح مکہ کی فرحت ،اور دوسری اپنے والد کے حلقۂ بگوش اسلام ہونے اور رسول اللہ ﷺکے اس اعلان عام کی فرحت وخوشی کہ: جو ابوسفیانؓ کے گھر میں داخل ہوگا وہ بھی مامون ہے۔
تم نے مجھے خوش کیا اللہ تمہیں خوش رکھے:
حضرت ام حبیبہؓ کو جب یہ اندازہ ہو چلا کہ اب اس دارِفانی سے کوچ کا وقت قریب ہے تو انھوں نے حضرت عائشہؓ کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا: ہمارے درمیان بعض وہ باتیں ہوتی رہیں جو سوکنوں کے مابین ہوتی رہتی ہیں، تو کیا تم مجھے سب معاف کروگی۔۔۔۔؟ حضرت عائشہؓ نے ان کو معاف کردیا اور ان کے لئے استغفار کیا، خوشی کے مارے ان کا چہرہ منور ہوگیا اور آہستہ سے کہا: تم نے مجھے خوش کیا اللہ تمہیں خوشی کی بہاریں دکھائے۔
طویل اور پر مشقت زندگی گزار نے کے بعد ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ بھی اس دار فانی کو خیرباد کہہ کر جنت البقیع میں اپنی آخری آرام گاہ میں دیگر امہات المؤمنین کے ساتھ سکون واطمینان کی نیند سو گئیں۔
زبیر بن بکار نے اسماعیل بن عمرو سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان فرماتی ہیں:
میں ملک حبشہ میں تھی، مجھے اس وقت تک کسی چیز کے بارے میں کوئی علم نہیں ہوسکا یہاں تک کہ نجاشی کے یہاں سے بطور قاصد ایک باندھی میرے پاس آئی اس کا نام’ ابرہہ‘ تھا اور وہ نجاشی کے کپڑوں کی دیکھ ریکھ اور دوسرے کام انجام دیتی تھی، اس نے کہا: بادشاہ نے یہ کہلوایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے پاس ایک پیغام لکھ کر بھیجا ہے کہ میں تمہارا نکاح آپ ا سے کرادوں، یہ سن کر میں نے اس سے کہا: اللہ تم کو ہمیشہ خوش وخرم رکھے، اس نے مزید یہ بھی کہاکہ بادشاہ نے یہ کہلوایا ہے کہ کسی ایسے شخص کو وکیل بنا دیجئے جو آپ کا نکاح کرے، فرماتی ہیں: میں نے خالد بن سعید بن العاص -رضی اللہ عنہ- کو بلوایا اور ان کو اپنا وکیل بنایا، ابرہہ کو میں نے خوشخبری سنانے کے انعام میں چاندی کے دو کنگن، پازیب اور انگلیوں کے چھلے سب دے دیئے، جب شام ہوئی تو نجاشی نے جعفر بن ابی طالب -رضی اللہ عنہ- کو اور ان کے ساتھ تمام مسلمانوں کو جمع ہونے کا حکم دیا، نجاشی نے خود خطبہ پڑھا اور کہا:
’’الحمد للّٰہ الملک القدوس المؤمن العزیز الجبار، وأشھد أن لا إلٰہ إلا اللّٰہ وأن محمدا عبدہ ورسولہ، وأنہ الذي بشر بہ عیسی بن مریم، أما بعد: فإن رسول اللّٰہ ﷺ طلب أن أزوجہ أم حبیبۃ بنت أبي سفیان، فأجبت إلی ما دعا إلیہ رسول اللّٰہ ﷺ، وقد أصدقتھا أربعمائۃ دینار۔‘‘
یعنی: ’’تمام تعریفیں خداوند قدوس اور خدائے غالب اور عزیز وجبار کے لئے سزاوار ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ا اللہ کے برگزیدہ بندے اور رسول برحق ہیں اور آپ ا وہی نبی ہیں جن کی عیسی بن مریمؑ نے بشارت دی ہے۔
اما بعد: رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے یہ پیشکش کی ہے کہ میں آپ ا کا نکاح ام حبیبہ بنت ابی سفیان سے کردوں، میں نے آپ ا کے حکم کے مطابق آپ کا نکاح ام حبیبہ سے کردیا اور چار سو دینار مہر مقرر کیا‘‘۔
اس کے بعد نجاشی نے وہ دنیار لوگوں کے سامنے ڈال دئے، خالد بن سعید نے بھی تقریر فرمائی اور کہا:
’’الحمد للّٰہ أحمدہ وأستغفرہ، فأشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وأن محمدا عبدہ ورسولہ أرسلہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون، أما بعد: فقد أجبت إلی ما دعا إلیہ رسول اللّٰہ ﷺ وزوجتہ أم حبیبتہ بنت أبي سفیان، فبارک اللّٰہ لرسول اللّٰہ ﷺ۔
یعنی: ’’الحمد للہ، میں اللہ کی حمدوثنا بیان کرتا ہوں اور اس سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ا اللہ کے بندے اور رسول ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور دین برحق دے کر بھیجا ہے تاکہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے اگرچہ مشرکین کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔
امابعد: میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیام کو قبول کیا اور آپ ا سے ام حبیبہ کا نکاح کردیا، اللہ تعالیٰ آنحضور ا کے لئے ان کو بابرکت بنائے۔‘‘
نجاشی نے وہ دینار خالد بن سعید کو دیئے، انھوں نے وہ لے لئے، لوگوں نے اٹھنے کا ارادہ کیا، نجاشی نے کہا: ابھی بیٹھے رہئے، انبیاء کی سنت یہ ہے کہ نکاح کے بعد کھانا کھایا جائے، کھانا منگوایا، دعوت سے فارغ ہوکر سب رخصت ہوگئے۔(۱)
حضرت ام حبیبہؓ فرماتی ہیں: جب مال (مہر) میرے پاس آیا تو میں نے ابرہہ کو بلوایا جس نے مجھے خوشخبری سنائی تھی، میں نے اس سے کہا: اس روز میں نے تمہیں جو کچھ دیا تھا وہ تمہیں معلوم ہی ہے، میرے پاس اس وقت اور مال نہیں تھا، یہ پچاس دینار ہیں، یہ لے لو اور ان کو اپنی ضروریات میں خرچ کرو، اس نے میری جانب ایک تھیلی بڑھائی، اس میں میری دی ہوئی تمام چیزیں موجود تھیں اور اس نے مجھے وہ واپس کرتے ہوئے کہا: بادشاہ نے مجھے یہ تاکید کی ہے کہ آپ سے کچھ بھی نہ لوں، میں بادشاہ کے کپڑوں کی دیکھ ریکھ اور دیگر کام انجام دیتی ہوں، یقین کیجئے میں رسول اللہ ﷺ کی پیروی کر چکی ہوں اور اللہ کے لئے اسلام قبول کر چکی ہوں، بادشاہ نے اپنی تمام بیگمات کو حکم دیا ہے کہ ان کے پاس جو خوشبودار عطر ہو اس میں سے آپ کے پاس بطور ہدیہ بھیجیں، دوسرے روز وہ میرے پاس بہت سا عود، ورس (ایک قسم کا پودا جو رنگائی میں استعمال ہوتا ہے) عنبر اور زباد (ایک قسم کا خوشبودار مادہ جو ایک چھوٹے سے جانور سے نکلتا ہے) لے کر آئی، میں یہ سب چیزیں آنحضور ا کے پاس لے کر آئی، آپ ا ان چیزوں کو میرے جسم پر بھی اور میرے پاس بھی دیکھا کرتے تھے، کبھی روکتے نہیں تھے۔
ابرہہ نے مجھ سے کہا کہ میری ایک درخواست ہے وہ یہ ہے کہ آنحضور ا سے میرا سلام عرض کر دینا اور یہ بتا دینا کہ میں نے ان کے دین کی اتباع کرلی ہے، فرماتی ہیں؛ اس کے بعد اس نے میرے ساتھ نہایت محبت کا معاملہ کیا، اسی نے مجھے بطور دلہن سجایا اور تیار کیا اور جب جب بھی میرے پاس آتی تھی کہتی تھی: میری درخواست کو بھلا مت دیجئے گا، حضرت ام حبیبہؓ فرماتی ہیں: جب ہم رسول اکرم ا کے پاس آئے اور اس کا سلام میں نے آپ تک پہنچایا تو آپ ا نے فرمایا: ’’وعلیھا السلام ورحمۃ اللّٰہ وبرکاتہ۔‘‘
حضرت ام حبیبہؓ: ان کا نام رملہ ہے اور سردار مکہ اور اس وقت مشرک افواج کے قائد ورہبر ابوسفیان کی بیٹی ہیں، ان کے پہلے شوہر رسول اللہ ﷺ کے پھوپھی زاد بھائی عبیداللہ بن جحش اسدی ہیں، حضرت ام حبیبہ کا سفرنامہ رملۃ بنت ابی سفیان سے لیکر ام المؤمنین بننے تک بہت سے مراحل پر مشتمل ہے جن میں ہر ایک مرحلہ عبرت ناک بھی ہے اور فکر انگیز بھی۔
٭ان مراحل میں سے ایک مرحلہ یہ ہے کہ عبیداللہ بن جحش حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ان کی بیوی رملہ بھی۔۔۔۔ اس طرح رملہ ایک راہ کی راہی بن جاتی ہیں اور ان کے والد دوسری راہ کے راہی۔۔۔۔
٭ان مراحل میں سے ایک مرحلہ وہ بھی ہے کہ رملہ اپنے شوہر کے ساتھ حبشہ کی جانب ہجرت کرتی ہیں جس کی وجہ سے ابوسفیان کے گھر میں ایک دوسری دراڑ پڑ گئی، اب ان کی صاحبزادی مکہ سے بھی ترک وطن کر جاتی ہے، اپنے والد کو بھی خیر باد کہہ دیتی ہے اور دین کی راہ میں ایک دور دراز ملک کی جانب ہجرت کر جاتی ہیں۔
٭ابھی حبشہ میں رملہ نے اچھی طرح قرار بھی نہیں پکڑا تھا اور ابھی ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک بچی ’’حبیبہ‘‘ عطا فرمائی تھی کہ ان کا شوہر نصرانیت میں داخل ہو جاتا ہے اور اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ ان کو بھی دین اسلام سے باز رکھے، وہ ان سے کہتا ہے: اے ام حبیبہ! میں نے تمام ادیان کو پرکھ لیا نصرانیت (عیسائیت) سے زیادہ بہتر کوئی دین مجھے نظر نہیں آیا، میں اسی پر عمل پیرا تھا، اس کے بعد میں محمد کے دین میں داخل ہوا لیکن پھر مجھے نصرانیت اختیار کرنی پڑی۔
فرماتی ہیں: میں نے کہا: واللہ !یہ تمہارے لئے بہتر نہیں ہے۔۔۔۔ اس کے بعد وہ شراب وکباب میں مگن ہوگیا یہاں تک کہ اسی حال میں انتقال ہوگیا۔
اگر یہی ہونا تھا تو پھر ہجرت ومہاجرت کی صعوبتیں کیوں برداشت کرنی پڑیں اور ظلم وجور کی تکالیف، ترک وطن کی آزمائش، غریب الوطن کا غم اور آباء واجداد کے ساتھ نفرت ودوری کی سختیاں کیوں جھیلنی پڑیں، وہی شخص اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے جس کے لئے رملہ نے یہ سب صعوبتیں برداشت کیں تھی اور اپنے والد کو حسرت وافسوس اور ہموم وغموم کی حالت میں چھوڑنے پر راضی ہوگئیں تھی۔۔۔۔؟
حضرت رملہ لوگوں سے تنہائی اختیار کر لیتی ہیں، اس لئے کہ ان کے دل میں اس شخص کے اس عمل سے ندامت کا احساس پیدا ہوتا ہے کیونکہ یہ اس کی بیوی تھیں اور ہمیشہ ان کی بچی اسی کی جانب منسوب ہوگی۔۔۔۔
اپنے لئے اور اپنی بچی کے لئے لوگوں کے آنے جانے کا دروازہ بند کردیتی ہیں جس سے ان کی اجنبیت اور غریب الوطنی دوچند ہو جاتی ہے، وہ یہ نہیں چاہتی ہیں کہ دارِہجرت میں لوگوں سے ملیں اور نہ ہی وطن تک پہنچنے کی کوئی سبیل ہے کیوں کہ وہاں ان کا باپ اس نبی کے خلاف اعلان جنگ کئے ہوئے ہے جس پر یہ ایمان لائی ہیں اور ان کی تصدیق کی ہے۔
نبی کریم ا دور سے ہی حضرت ام حبیبہؓ کے غم والم کو محسوس کرلیتے ہیں۔۔۔۔ جن کو اپنے شوہر سے ہاتھ دھونا پڑا۔۔۔۔ اپنے وطن کو خیر باد کہنا پڑا۔۔۔۔ اور دین کی وجہ سے اپنے والد سے بھی دوری اختیار کرلی۔۔۔۔ چنانچہ ایک روز ان کو احساس ہوتا ہے کہ دروازے پر کوئی دستک دے رہا ہے، دروازہ کھولتی ہیں تو اپنے آپ کو نجاشی کی جانب سے دی ہوئی بشارت کے سامنے پاتی ہیں کہ محمد ا اپنے بارے میں ان کو پیغام نکاح دے رہے ہیں۔
اس طرح ام حبیبہ اپنے آپ کو ام المؤمنین کے منصب ومقام سے سرفراز پاتی ہیں، مسلمان بھی ان کے ساتھ شفقت ورحمت کا معاملہ کرتے تھے، جو حبشہ میں اپنی زندگی کے ایام گذار رہے تھے اور اس ملک کے فرمانروا نجاشی کی جانب سے بھی اکرام ونوازشات اور حفاظت کے انتظامات کئے جاتے ہیں۔
میں نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ کونسی چیز میرے لئے زیادہ باعث فرحت وانبساط ہے:
مدینہ منورہ میں حکومت اسلامیہ کے قیام کے لئے تمام حالات سازگار ہوئے، قریش کی شان وشوکت بھی زمین بوس ہوگئی اور انھوں نے دین اسلام کی حقانیت کا اعتراف کرلیا، یہود نے بھی بہت سے فیصلہ کن معرکوں کے بعد جزیرۃ العرب میں اسلامی طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کرلیا، ان معرکوں میں سب سے آخری معرکہ خیبر کا معرکہ تھا۔۔۔۔ کمزور وبے بس مہاجرین کے لئے اب وہ وقت آگیا کہ اب اپنے وطن واپس آجائیں جنہوں نے ملک حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی۔۔۔۔ اس لئے کہ اب دارالاسلام امن وامان اور طاقت وقوت کا مرکز بن چکا تھا۔۔۔۔ رسول اکرم ا نے بھی عمرو بن امیہ ضمری کو نجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ مسلمان مہاجرین کے ساتھ اس کے حسن سلوک کا شکریہ بھی ادا کریں اور ان کی وطن کی جانب واپسی کے بارے میں اجازت بھی طلب کریں، اہل مدینہ کے لئے یہ موقع دو قسم کی خوشیوں کا تھا، جن کو آنحضور ا نے اپنے اس قول میں بیان فرمایا ہے: میں نہیں سمجھ پا رہا ہوں کہ کونسی چیز میرے لئے زیادہ باعث فرحت وانبساط ہے: فتح خیبر یا آمد جعفر۔۔۔۔ انہی مہاجرین کے ساتھ حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان بن حرب بھی تھیں، جو نبی کریم ا کے بارے میں انتظار کی گھڑیاں گزار رہی تھیں تاکہ آپ ا ان کو گھرانہ نبوت میں لے جائیں، کیونکہ ان کے نکاح کو کئی سال گزر چکے تھے۔
تمام اہل مدینہ اس نکاح کی وجہ سے جمع ہوئے۔۔۔۔ اور دلہن کے ماموں عثمان بن عفان نے مسلمانوں کے لئے ایک پروقار اور عظیم الشان ولیمہ کا اہتمام کیا، ابوسفیان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے: ’’ھو الفحل لا یجدع أنفہ‘‘ یعنی: وہ ایسا مرد ہے جس کے وقار پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ہے۔
شرک کی چھاونی کا آخر ی کیمپ مکہ مکرمہ بھی اب حلقہ بگوش اسلام ہونے کے لئے تیار تھا۔۔۔۔ قریش حدیبیہ میں کئے ہوئے عہد کو توڑ چکے تھے اور اب حالات کی نزاکت اور خطرہ کا بھی ان کو احساس ہو چلا تھا، محمد ا اور آپ ؐکے لشکر جرار کا مقابلہ کرنے کی اب وہ اپنے اندر قوت نہیں پا رہے تھے، اس لئے انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے لیڈر ابوسفیان کو اس متوقع خطرے کے بارے میں مذاکرات کے لئے بھیجیں، تاکہ وہ عہد شکنی کے بارے میں معذرت بھی کریں اور یہ درخواست کریں کہ محمد ا اس صلح کی تجدید فرمائیں۔۔۔۔ ابوسفیان پر آنحضور ا سے ملاقات کرنے سے لرزہ طاری ہوتا ہے۔۔۔۔ وہ تجربہ کار اور منجھا ہوا سیاستداں تھا، اس لئے اس نے مناسب سمجھا کہ اپنی بیٹی ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ ؓکو کامیاب قائد محمد ا سے ملاقات کے لئے واسطہ بنائے۔
’’ام المؤمنین کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب کہ وہ اچانک ان کے گھر میں داخل ہوتا ہے، انھوں نے اس کو اس وقت سے نہیں دیکھا تھا جب سے وہ ہجرت کرکے حبشہ چلی گئیں تھی، اس لئے وہ اس کے سامنے سراپا حیرت واستعجاب بن کر کھڑی رہیں، وہ نہیں سمجھ پا رہی تھیں کہ وہ کیا کریں یا کیا کہیں۔۔۔۔ جب ابوسفیان بیٹھنا چاہتا ہے تو وہ فرش کو لپیٹ لیتی ہیں۔۔۔۔ ان کا والد ان سے پوچھتا ہے: بیٹی! کیا تم نے بستر اس لئے لپیٹ لیا کہ بستر کو میرے لائق نہیں سمجھا،یا میں اس بستر کے لائق نہیں تھا؟ جواب یہ ملتا ہے: یہ رسول اللہ ﷺ کا بستر ہے، آپ مشرک انسان ہیں، مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ آپ اس پر بیٹھیں!‘‘۔
ابوسفیان اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ پاتا ہے: بیٹی! مجھ سے جدائی کے بعد تم کو شر لاحق ہوگیا ہے۔
مسلمانوں نے فتح مکہ کی پر مسرت بہار بھی دیکھ لی، ام القریٰ مکہ مکرمہ میں اسلام کی فتح ونصرت اور غلبہ مسلمانوں کے لئے نہایت فرحت بخش اور باعث شادمانی تھا، البتہ ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ کی مسرت دو چند تھی، ان کے لئے دوچیزیں باعث فرحت تھیں: ایک فتح مکہ کی فرحت ،اور دوسری اپنے والد کے حلقۂ بگوش اسلام ہونے اور رسول اللہ ﷺکے اس اعلان عام کی فرحت وخوشی کہ: جو ابوسفیانؓ کے گھر میں داخل ہوگا وہ بھی مامون ہے۔
تم نے مجھے خوش کیا اللہ تمہیں خوش رکھے:
حضرت ام حبیبہؓ کو جب یہ اندازہ ہو چلا کہ اب اس دارِفانی سے کوچ کا وقت قریب ہے تو انھوں نے حضرت عائشہؓ کو اپنے پاس بلایا اور ان سے کہا: ہمارے درمیان بعض وہ باتیں ہوتی رہیں جو سوکنوں کے مابین ہوتی رہتی ہیں، تو کیا تم مجھے سب معاف کروگی۔۔۔۔؟ حضرت عائشہؓ نے ان کو معاف کردیا اور ان کے لئے استغفار کیا، خوشی کے مارے ان کا چہرہ منور ہوگیا اور آہستہ سے کہا: تم نے مجھے خوش کیا اللہ تمہیں خوشی کی بہاریں دکھائے۔
طویل اور پر مشقت زندگی گزار نے کے بعد ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ بھی اس دار فانی کو خیرباد کہہ کر جنت البقیع میں اپنی آخری آرام گاہ میں دیگر امہات المؤمنین کے ساتھ سکون واطمینان کی نیند سو گئیں۔