علم روایۃ الحدیث اوردرایۃالحدیث

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
حدیث کی تعریف:

حدیث کےمعنی بات اور گفتگو کے ہیں۔

علامہ جوہری صحاح میں لکھتے ہیں:

اَلْحَدِیْثُ الْکَلَامُ قَلِیْلُہُ وَکَثِیْرُہُ

حدیث بات کو کہتے ہیں خواہ وہ مختصر ہو یا مفصل

حافظ شمس الدین البخاری لکھتے ہیں:

والحدیث لغۃ ضد القدیم واصطلاحا ما اضیف الی النبی صلی ﷲ علیہ وسلم قولا لہ اوفعلا اوتقریرا اوصنعۃ حتی الحرکات والسکنات

اور حدیث لغت میں لفظ قدیم کی ضد ہے اور اصطلاحاً اس سے ہروہ بات مراد ہے جسے حضورﷺ کی طرف نسبت کیا گیا ہو، قول سے یا فعل سے یا اس کی توثیق سے یا صورت سے، یہاں تک کہ حرکات وسکنات سے۔ (فتح المغيث شرح ألفية الحديث:۱/۱۰،شاملہ،الناشر: دارالكتب العلمية،لبنان)

ہر وہ قول ،فعل ،تقریر یا صفت جس کی نسبت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہو حدیث کہلاتی ہے۔ یاد رہے کہ تقریر سے مراد وہ فعل ہے جو رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کے سامنے کیا گیا مگر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے نہ تو اِس کے کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی منع فرمایا۔

تعریف علوم حديث:

علم حدیث سے مراد وہ فن ہے جس کے ذریعے رسول ﷲ کی طرف منسوب اقوال، افعال اور احوال کی صحت اور سقم کی نشاندہی کی جاتی ہے۔

علم حدیث اس علم کو کہتے ہیں جس کے تحت پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے فرامین کو محفوظ کیا گیا اور ان فرامین کی صحت کے بارے فیصلہ کیا جاتا ہے۔

ابن اصلاحان کے مطابق علم حدیث کے مراد ''ایسے قاعدوں اور ضابطوں کا علم جن کے ذریعے سے کسی بھی حدیث کے راوی یا متن کے حالات کی اتنی معرفت حاصل ہوجائے آیا راوی یا اس کا بیان کردہ حدیث قبول کی جا سکتی ہے یا نہیں؟'' (النکت علی ابن الصلاح: ۱ ؍۲۲۵)

علوم حدیث شرعی علوم کی ایک شاخ ہے، اس کا تعلق نبیﷺ کے اقوال ، افکار اور اطلاعات سے ہے۔ اس میں سیرت نبوی کا مطالعہ ہوتا ہے۔ اور ان کی کوششیں دو چیزوں کے حصول کی طرف ہدایت کی گئیں۔

پہلی: کیا اس حدیث میں سے کچھ بھی ضائع نہیں ہوا ہے۔

دوسری: اس حدیث میں کسی ایسی چیز داخل ہونے سے بچانے کے لئے جو اس میں سے نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک وسیع علمی تحریک پیدا ہوگئی جو اب تک جاری ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنی شرائط اور ضوابط کے ساتھ سائنس بن گئی۔ (علوم الحديث - النشأة والأطوار, 2016)

علم حدیث کی اقسام:

علم حدیث کی دو اقسام ہیں:

  • علم روایۃالحدیث
  • علم درایۃالحدیث
علم روایۃالحدیث:

روایۃالحدیث کی تعریف علماء نے ان الفاظ میں کی ہے:

(ھو علم بنقل اقوال النبی و افعالہ و احوالہ باسماع المتصل، و ضبطھا و تحریرھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)

اس علم کا تعلق سماع متصل کے ساتھ اخذ حدیث، ضبط حدیث اور کتابت حدیث سے ہے۔

علم حدیث میں اس سے مراد حدیث کا وہ خاص شعبۂ علم ہے کہ جس میں سلسلہ روایت اور ضبط حدیث پر بحث کی جاتی ہے اور اس بات پر بھی بحث کی جاتی کہ راوی نےجو حدیث روایت کی ہے وہ اس نے اپنے استاذ سے کس طرح اور کن الفاظ سے تحمل کی ہے۔

علامہ سیوطی رحمۃ ﷲ کے مطابق :''روایۃالحدیث وہ علم ہے جس کے ذریعے حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، احوال اور ان کی روایت کو، ان کے الفاظ کے لکھنے کے طریقے اور ان کو ضبط کیسے کیا گیا ہے یہ جانا جاتا ہے''۔

جن علماء کا تعلق علم حدیث کی اس شاخ سے ہوتا ہے وہ بنیادی طور پر اس تین چیزوں پر بحث کرتے ہیں۔

محدثین کرام نے اس علم کے جو اصول، قواعد اور ضوابط بیان کیے ہیں، ان اصولوں پر کسی بھی روایت کو پرکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بیان کردہ حدیث کس معیار صحت کی حامل ہے۔ (مطالعہ حدیث کورس کوڈ 4621)

اس علم کے اصول، قواعد اور ضوابط درج ذیل ہیں:

(1راوی معروف الحال ہو۔

(2راوی صادق القول اور دیانت دار ہو۔

(3راوی بات کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہو۔

(4راوی کا حافظہ اچھا ہو۔

(5راوی کو مبالغہ کرنے، خلاصہ نکال کر بیان کرنے یا روایت میں کسی اور طرح کا تصرف کرنے کی عادت نہ ہو۔

(6راوی کا بیان کردہ روایت سے اپنا کوئی خاص ذاتی تعلق نہ ہو کہ جس سے گمان ہو کہ اس سے اس کی روایت متاثر ہو سکتی ہے۔

(7دو اوپر نیچے کے راویوں کا آپس میں ملنا، زمانہ یا حالات کے لحاظ سے قابل تقسیم ہو۔

(8روایت کی تمام کڑیاں محفوظ ہوں اور کوئی راوی اوپر سے، درمیان سے یا نیچے سے چُھٹا ہوا نہ ہو۔ (ویکیپیڈیا, علم الروایۃ, 2018) (مطالعہ حدیث کورس کوڈ 4621)

علم درایۃالحدیث:

علم درایۃالحدیث کی تعریف علماء نے ان الفاظ میں کی ہے:

ھو علم یتعرف بہ انواع الرویۃ، واحکامھا، وشروط الرویۃ، و اصناف المرویات واستخراج معانیھا

اس علم کا تعلق روایۃ کے اقسام و احکام، روایۃ حدیث کی شرا‎‏ئط، متون کے اصناف اور استنباط مطالب سے ہے۔

لہذا کسی حدیث کے بارے میں یہ معلوم ہونا کہ وہ فلاں کتاب میں، فلاں سند سے اور فلاں الفاظ کے ساتھ منقول ہے علم درایۃالحدیث ہے۔

اس حدیث کے بارے میں یہ معلوم ہونا کے وہ خبر متواتر ہے یا خبر واحد ہے۔ صحیح ہے یا ضعیف ہے۔ معضل ہے یا منقطع، اس کے رواۃ ثقہ ہیں یا غیر ثقہ۔ نیز اس حدیث سے کیا کیا احکام مستنبط ہوتے ہیں اور کوئی تعرض تو نہیں اور اگر ہے تو کیونکر رفع کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب باتیں علم درایۃالحدیث سے متعلق ہیں۔

آیۃ ﷲ سید مظہر علی شیرازی کے مطابق: " درایت کا معنی علم اور اطلاع ہے، یہ مطلق علم سے اخذ ہو گہرائی اور دقت سے علم کا نام ہو"۔ (علم درایت, 2013)

درایت کے لغوی معنی ہیں حیلہ سے جاننا اور اصطلاح میں مطلق دلیل کو اور دلیلِ عقلی کو درایت کہتے ہیں۔ (ماہنام فکر و نظر -ستمبر 2011ء) (ویکیپیڈیا, درایت, 2019)

امام راغب اصفہانی اپنی کتاب المفردات ،میں لکھا ہے ترجمہ۔ ''خوب کوشش کے بعد کسی چیز کو معلوم کرنا،درایت،کہلاتا ہے''۔

علم درایۃالحدیث اور علم اصول الحدیث میں فرق:

متقدمین حضرات نے درایۃالحدیث اور علم اصول الحدیث کو مترادف قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں علوم کا دائرہ کار ایک ہے۔ مگر ان میں بنیادی فرق پایا ہے۔ علم اصول الحدیث میں متن حدیث کا لغوی، اصطلاحی اور استنباط کے پہلو سے تحلیل اور تجزیہ نہیں کیا جاتا جبکہ علم درایۃالحدیث میں ہر پہلو کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔ حدیث نبوی کے متن اور عبارت کا درس و مطالعہ اور کتب روایت کا حفظ و اہتمام اس وقت تک مفید نہیں ہو سکتا جب تک اس کے پہلو بہ پہلو درایت حدیث پر غور و فکر نہ کیا جاۓ۔ درایۃالحدیث سے متعلق علوم کئی قسموں میں بٹ گئے ہیں مگر علوم الحدیث کا نام ان سب اقسام پر حاوی ہے۔
 
Top