علوم الاحادیث

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
1)علم مختلف الحدیث:

اس علم میں ان روایات سے بحث کی جاتی ہے جن میں بظاہر تناقض نظر آتا ہے۔ اس فن کے ذریعے اس قسم کی روایات کے مابین جمع و تطبیق دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جمع و تطبیق کا طریقہ یہ ہے کہ مطلق احادیث کو مقیّد اور عام کی تخصیص کر دی جا‎ۓ یا ان کو تعدّد واقعہ پر محمول کیا جا‎ۓ۔ اس کو تطبیق حدیث کا علم بھی کہا جاتا ہے۔

امام نووی اپنی کتاب '' التقریب '' میں لکھتے ہیں: '' یہ حدیث کا ایک نہایت اہم فن ہے۔ سب علماء کو اس کے جاننے کی ضرورت ہے۔ اس فن کا مقصد یہ ہے کہ دو بظاہر متضاد المعنی روایات میں جمع و تطبیق اور توفیق کی کوشش کی جا‌ۓ یا ایک کو راحج اور دوسری کو مرجوح قرار دیا جاۓ۔ اس فن میں وہ علماء دسترس اور مہارت رکھتے ہیں جو حدیث و فقہ کے جامع ہوں یا ماہر اصول ہونے کے ساتھ ساتھ حدیث کے معنی و مطالب میں مہارت رکھتے ہوں''۔

مثلا ایک حدیث میں رسول ﷲ نے فرمایا:

’’لاَ عَدْوٰی وَلاَ طِیَرَۃَ‘‘

بیماری متعدی نہیں ہوتی اور کوئی مرض بھی اڑ کرنہیں لگتا

دوسری حدیث میں فرمایا:

’’فِرَّمِنَ الْمَجْذُوْمِ فِرَارَکَ مِنَ الْاَسَدِ‘‘

''کوڑھی سے یوں بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو''

ان دونوں روایات کے درمیان جمع و تطبیق کا طریقہ یہ ہے کہ بیماریاں بذات خود متعدی نہیں ہوتیں البتہ مریض کے تندرست کے ساتھ ملنے کو ﷲ تعالیٰ نے اس کی بیماری کے متعدی ہونے کا سبب اور ذریعہ بنایا ہے۔ (مطالعہ حدیث کورس کوڈ 4621)

علم مختلف الحدیث کی کتب:

  • امام شافعی نے اس فن پر ابتدائی کام کیا۔ آپ اس پہلو سے جو کام کرنا چاہتے تھے اسے مکمل نہ کر سکے۔
  • امام ابو جعفر طحاوی نے اپنی کتب میں روایات پر جمع و تطبیق کے حوالے سے بحث کی ''معانی الاثار'' اس سلسلہ کی بہت عمدہ اور خوبصورت کتاب ہے۔ اس کتاب میں امام طحاوی نے ایک ہی موضوع پر دستیاب روایات کو ترتیب کے ساتھ جمع کیا ہے پھر روایات کو گروپ میں تقسیم کر کے ان پر بحث کی ہے۔
  • امام ابن قتیبہ دینوری کی کتاب '' تاویل مختلف الحدیث'' اس فن میں بنیادی اور اساسی حیثیت کی حامل ہے۔ اپنی اس تالیف میں امام ابن قتیبہ نے روایات پر بالکل اچھوتے انداز میں بحث کی ہے۔ آپ کا تعلق جس دور سے ہے اس دور میں روایات حدیث پر کلام کا سلسلہ زور و شور سے جاری تھا۔ امام ابن قتیبہ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں ان احوال و اوضاع کا تذکرہ کیا ہے اور علماء حدیث کی خدمات، کدو کاوش اور پر خلوص مساعی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
  • بعد میں امام ابو یحي زکریا بن یحي ساجی اور حافظ ابن الجوزی نے بھی مختلف الحدیث کے موضوع پر کتابیں مرتب کیں۔ (مطالعہ حدیث کورس کوڈ 4621)
2)علل الحدیث:

"علّت" کی تعریف:

علت اس پوشیدہ خامی کو کہتے ہیں جس کے نتیجے میں حدیث کے صحیح ہونے پر اعتراض کیا جا سکے۔ محدثین کے نزدیک "علت" کی دو خصوصیات لازمی ہیں:

1) ایک تو علت کا پوشیدہ ہونا۔

2) اس کے نتیجے میں حدیث کی صحت کا مشکوک ہو جانا۔

اس علم میں ان پوشیدہ، مخفی اور دقیق علل و اسباب سے بحث کی جاتی ہے جن کی بنا پر روایات کی صحت میں نقص اور عیب وارد ہوتا ہے۔ وہ مخفی عیب جو حدیث کی حیثیت کو متاثر کرتا ہے اصطلاح میں '' علت قادحۃ'' کہلاتا ہے۔ مثلا حدیث منقطع کا موصول ہونا، موقوف کا مرفوع ہونا اور ایک حدیث کا دوسری حدیث میں اندراج کرنا وغیرہ وغیرہ۔

حدیث کی علت معلوم کرنے کے لیے وسعت علم، قوت حافظہ اور فہم دقیق کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ علت ایک مخفی چیز ہے جس کا پتہ بسا اوقات علوم حدیث میں مہارت رکھنے والوں کو بھی نہیں چلتا۔

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں '' یہ حدیث کے نہایت ‎ دقیق اور مشکل علوم میں سے ہے۔ علت کی پہچان میں صرف وہی شخص مہارت حاصل کر سکتا ہے جس کو ﷲ تعالی نے روشن دماغ، قوت حافظہ اور مراتب رواۃ کی پہچان اور اسانید و متون میں مہارت تامہ سے نوازا ہو''۔

امام عبدالرحمن بن مہدی سے کہا گیا '' آپ کسی حدیث کو صحیح قرار دیتے ہیں اور کسی کو ضعیف ٹھہراتے ہیں، اس کی کیا دلیل ہے؟ فرمایا: اگر تم کسی صراف کو اپنے درہم دکھا‎‌‏ؤ اور وہ کہے کہ یہ کھرے ہیں اور وہ کھوٹے ہیں تو آیا تم اس کی بات کو تسلیم کرو گے یا اس کی دلیل طلب کرو گے؟ سا‏ئل نے کہا: میں اس کی بات مان لوں گا۔ امام عبدالرحمن بن مہدی نے کہا حدیث کا معاملہ بھی اسی طرز کا ہے کیونکہ اس میں طویل صحبت، مناظرہ اور مہارت کی ضرورت ہے۔''

خطیب بغدادی لکھتے ہیں '' علم حدیث کے طالب کو صراف کی طرح کھوٹے اور کھرے میں تمیز کرنے والا ہونا چاہیے جس طرح درہم کھوٹے بھی ہوتے ہیں اور کھرے بھی۔ حدیث کی بھی یہی حالت ہے''۔

علت انہی اسناد میں تلاش کی جاتی ہیں جن میں بظاہر صحیح ہونے کی تمام شرائط پائی جاتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ضعیف حدیث میں تو علتیں تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی کیونکہ ان میں ضعف ہوتا ہے اور ایسی احادیث پر عمل کرنا ضروری نہیں ہوتا۔

علل الحدیث کی کتب:

چونکہ علل حدیث کا فن نہایت دقیق اور لطیف ہے اور اس میں بڑی طویل مہارت اور مشق کی ضرورت ہے اس لیے اس پر بہت کم کتابیں لکھی گیئں۔

  • اس ضمن میں سب سے زیادہ قابل قدر کتاب امام بخاری کے شیخ اور معروف و مشہور امام علی بن المدینی نے ''کتاب العلل'' کے نام سے تحریر کی۔
  • اس فن پر ایک کتاب امام احمد بن محمد بن ہارون بغدادی نےتحریر کی۔
  • دوسری کتاب امام ابن ابی حاتم البستی نے تحریر کی۔ امام ابن ابی حاتم البستی کی کتاب مصر میں دو جلدوں میں چھپ چکی ہے۔
  • اس سلسلہ کی ایک اہم اور بنیادی کاوش امام ترمذی کی کتاب '' العلل'' ہے۔
  • حافظ ابن رجب حنبلی نے اس کی بہت مفید اور جامع شرح لکھی ہے۔ امام احمد بن حنبل نے بھی ایک کتاب '' العلل'' کے موضوع پر لکھی تھی۔
  • امام ابو الحسن دارقطنی نے اس موضوع پر اس قدر جامع کتاب تحریر کی ہے کہ اس سے بہتر کتاب لکھنا اگر ممکن نہیں تو دشوار ضرور ہے۔ البتہ اس کو تدوین کا فریضہ ان کے شاگرد حافظ ابو بکر البرقانی نے ادا کیا۔
  • حافظ ابن الجوزی کی کتاب '' العلل المتناھیۃ فی الاحادیث الواھیۃ '' بہت مقبول ہے۔
  • حافظ ابن حجر کی کتاب کا نام '' الزھر المطلول فی الخبر المعلوم'' ہے۔
اسی طرح امام بخاری، امام یعقوب بن ابی شیبہ، امام ابو یحیی زکریا بن یحیی، حافظ ابن الجوزی اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس موضوع پر کتابیں مرتب کی ہیں۔ (مطالعہ حدیث کورس کوڈ 4621)

3)غریب الحدیث:

غریب الفاظ کی تعریف:

''اس سے مراد حدیث کے غیر مانوس اور قلیل الاستعمال الفاظ ہیں''۔

ایسے الفاظ کےمعنی ومفہوم سے عام لوگ واقف نہیں ہوتے اس لئے یہ الفاظ شرح و تفسیر کے محتاج ہوتے ہیں۔ علم غریب الحدیث کا یہی خاصہ ہے تاکہ تفہیم حدیث کے ساتھ استنباط مسائل بھی صحیح ہوسکیں۔ اس لئے جو حدیث با معنی بیان ہوتی ہے محدثین اس کے الفاظ پر خاص توجہ دیتے ہیں۔

اس علم ان روایات سے بحث کی جاتی ہے جن میں لغت کے لحاظ سے مشکل، دقیق اور الفاظ و کلمات وارد ہوں۔ غریب الحدیث کے مصادر ایک ڈکشنری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ فن اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس میں مہارت کے بغیر متون حدیث کے معانی اور مطالب تک رسائی ممکن نہیں۔

غریب الحدیث کی کتب:

  • اس علم میں سب سے پہلے ابو عبیدہ معمربن المثنی بصری نے ایک رسالہ تحریر کیا۔
  • ابو الحسن نضربن شمیل مازنی نے ایک معقول کتاب مرتب کی۔
  • اس کے بعد امام ابو عبید بن قاسم بن سلام نے ایک بہت مشہور کتاب لکھی۔
  • امام زمخشری کی کتاب " الفائق فی غریب الحدیث'' بہت مشہور ہے۔ اس کتاب کو اسناد اور اعتبار کا درجہ حاصل ہے۔
  • مجدالدین ابن الاثیر الجزری نے '' النھایہ فی غریب الحدیث والاثر'' کے نام سے ایک ضخیم کتاب مرتب کی۔
  • علامہ محمد طاہر پٹنی نے کتاب '' مجمع بحار الانوار'' تحریر کی۔ اس کتاب کو النھایہ کی حیثیت حاصل ہے۔ (مطالعہ حدیث کورس کوڈ 4621)
4)ناسخ و منسوخ فی الحدیث:

ناسخ:

ناسخ سے مراد ایسی دلیل ہے جس سے پہلا حکم شرعی ختم ہو جائے یا واضح ہو جائے۔

منسوخ:

یہ سابق حکم ہوتا ہے جو متأخر دلیل سے ختم ہو جاتا ہے۔جیسے: بيوه کا دوباره نكاح کے لئے ایک سال انتظار کرنے کا حکم جو منسوخ ہوگیا۔

یہ علم ان احادیث متعارضہ سے بحث کرتا ہے جن میں جمع و تطبیق کا امکان نہ ہو اور بعض احادیث کو ناسخ اور بعض کو منسوخ قرار دیا جاۓ۔ حدیث ناسخ کے بارے میں حضرت محمد نے بعض مقامات پر خود صراحت فرمائی ہے۔ مثلا حضرت محمد نے فرمایا:

'' میں تمھیں قبروں کو زیارت سے منع کیا کرتا تھا اب ان کی زیارت کیجیے''

اور فرمایا:

'' میں تمھیں قربانی کے گوشت کا تین دن سے زیادہ ذخیرہ کرنے سے منع کیا کرتا تھا۔ اب تمھیں اجازت ہے کہ جب تک چاہو کھاؤ''

یہ حدیث امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت بریدہ کی سند سے نقل ہے۔

ناسخ و منسوخ فی الحدیث کی کتب:

ناسخ و منسوخ پر کئی علماء نے تالیفی کام کیا۔

امام محمد بن موسی الحازمی کی کتاب '' الاعتبار فی بیان الناسخ و المنسوخ من الاثار'' مرتب کی جو بہت مشہور ہے۔

امام حازمی کے علاوہ امام احمد بن اسحاق دیناری، امام محمد بن بحراصبہانی، امام ہبۃﷲ بن سلامہ اور حافظ ابن الجوزی نے بھی رسائل اور کتابیں مرتب کیں۔
 
Top