صحیح:
لغوی معنی:
لغوی مفہوم میں صحیح بیمار کے متضاد میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ جسم کی حالت کو بیان کرتا ہے اور اس کے یہی معنی حدیث کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔
اصطلاحی معنی:
اصطلاح میں صحیح اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں قابل اعتماد اور احادیث کو محفوظ رکھنے والا راوی اپنے جیسے قابل اعتماد اور احادیث کو محفوظ رکھنے والے راوی سے کسی حدیث کو ملی ہوئی سند میں روایت کرتا ہے۔
صحیح احادیث کی شرائط:
صحیح احادیث کی اقسام:
صحیح احادیث کی دو اقسام ہیں:
وہ صحیح احادیث جن میں مندرجہ بالا تمام شرائط پائی جائیں، صحیح لذاتہ کہلاتی ہیں۔
مثال:
یہ حدیث صحیح لذاتہ کی مثال ہے۔ اس میں صحیح کی تمام شرائط اور صفات پائی جاتی ہیں۔ اس کی سند اول تا آخر متصل ہے۔ اس کے راوی عدل اور ضبط معروف ہیں۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شذوذ یا علت نہیں۔ (مطالعہ حدیث کورس کوڈ 4621)
2) صحیح لغیرہ:
صحیح لغیرہ میں صحیح لذاتہ کی اعلی صفات نہیں پائی جاتی مگر ان کی کمی دیگر طرق سے آنے والی روایات سے پوری کی جاتی ہے۔ یہ بیرونی تقویت حاصل کرنے کی بنا پر صحیح لغیرہ کہلاتی ہیں۔
مثال:
مندرجہ بالا راویان میں محمد ابن عمرضبط کے اعلی وصف کے حامل نہیں۔ باقی تمام صحیح احادیث کی شرائط پوری ہیں۔
صحیح احادیث پر عمل کا حکم:
تمام محدیثین، فقہاء اور اصولیین کا اجتماع ہے کہ صحیح حدیث حجت ہے۔ اس پر عمل کرنا واجب ہے۔
حسن:
جس حدیث کے راوی حافظے کے اعتبار سے صحیح حدیث کے راویوں سے کم درجے کے ہوں، حسن احادیث کہلاتی ہیں۔
مختلف علماء نے اس کی بہت ساری تعریفیں کی ہیں:
حسن احادیث کی دو اقسام ہیں:
مثال:
حسن احادیث پر عمل کا حکم:
تمام محدیثین اور فقہاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ قابل حجت ہے اس لیے محدثین کرام نے صحاح کے ذیل میں حسن احادیث کو بھی ذکر کیا ہے۔
2)حسن لغیرہ:
وہ حدیث ہے جس کی سند میں کوئی راوی عدل یا ضبط کے اعتبار سے کمزور ہو ،لیکن کثرت طرق کی وجہ سے اس کی تلافی ہوجائے۔
مثال:
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن معاوية بن صالح، عن عبد الله بن ابي قيس، قال: سالت عائشة كيف كانت قراءة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل، اكان يسر بالقراءة ام يجهر؟ فقالت: " كل ذلك قد كان يفعل ربما اسر بالقراءة وربما جهر ؟ فقالت: " كل ذلك قد كان يفعل ربما اسر بالقراءة وربما جهر "فقلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة
عبدﷲ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رات میں نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کی قرأت کیسی ہوتی تھی کیا آپ قرآن دھیرے سے پڑھتے تھے یا زور سے؟ کہا: آپ ہر طرح سے پڑھتے تھے، کبھی سری پڑھتے تھے اور کبھی جہری، تو میں نے کہا: ﷲ کا شکر ہے جس نے دین کے معاملے میں کشادگی رکھی ہے۔ (جامع ترمذی: حدیث449)
حسن لغیرہ کا درجہ:
حسن لغیرہ کا درجہ حسن لذاتہ سے کم ہے۔
ضعیف:
وہ حدیث ہے جس کی سند میں اتصال نہ ہو یا راوی عادل نہ ہو یا راوی کا حافظہ بہتر اور قابل اعتماد نہ ہو حدیث ضعیف کہلاتی ہے۔
بنیادی طور پر دو اسباب کی وجہ سے حدیث ضعیف کہلاتی ہے:
مثال:
حدثنا زياد بن أيوب البغدادي حدثنا أبو عامر العقدي حدثنا كثير بن عبد الله ابن عمرو بن عوف المزني عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن في الجمعة ساعة لا يسأل الله العبد فيها شيئا إلا آتاه الله إياه قالوا يا رسول الله أية ساعة هي قال حين تقام الصلاة إلى الانصراف منها قال۔
زیاد ابن ایوب البغدادی نے ہم سے ابو عامر العقدی نے بیان کیا کہ ہمیں کتیر بن عبد ﷲ ابن عمرو بن عوف المزنی نے اپنے نانا کی طرف سے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے اختیار پر اپنے والد سے بیان کیا ، آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ، انہوں نے کہا کہ جمعہ کو ایک گھنٹہ جس میں خدا کسی بندے سے کچھ نہیں پوچھتا لیکن خدا نے اسے دیا ہے انہوں نے کہا: اے ﷲ کے رسول نے اس وقت کیا کہا: جب اسے نماز پڑھنے کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ (ابن ماجة: 1138، ضعيف سنن ابن ماجة: 235، ضعيف الجامع الصغير: 1890)
ضعیف حدیث کا حکم:
محدثین حضرات کے نزدیک یہ قابل قبول نہیں ہے۔ فقہاء کے نزدیک یہ اس وقت قابل قبول ہے جب کسی باب میں حسن اور صحیح کی روایات موجود نہ ہوں۔ ان حضرات کا خیال ہے حدیث اگرچہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو قیاس سے بہتر ہے۔
موضوع:
موضوع حدیث کی تعریف:
لغوی اعتبار سے '' موضوع '' وضع کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے گھڑی ہوئی چیز۔ اصطلاح میں موضوع حدیث اس جھوٹی حدیث کو کہتے ہیں جسے گھڑ کر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا جاۓ۔
موضوع حدیث کا درجہ:
موضوع حدیث ضعیف حدیث کے بد ترین درجے کی حامل ہے۔ بعض اہل علم تو اسے ضعیف حدیث میں بھی شمار نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی طرف سے گھڑ کر جھوٹی بات رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ ضعیف حدیث میں تو پھر بھی یہ شک ہوتا ہے کہ شاید یہ بات رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمائی ہو گی جبکہ موضوع حدیث تو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہے۔
مثال:
موضوع احادیث بیان کرنے کی وجوہات:
موضوع احادیث وضع کرنے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں:
لغوی معنی:
لغوی مفہوم میں صحیح بیمار کے متضاد میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ جسم کی حالت کو بیان کرتا ہے اور اس کے یہی معنی حدیث کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔
اصطلاحی معنی:
اصطلاح میں صحیح اس حدیث کو کہتے ہیں جس میں قابل اعتماد اور احادیث کو محفوظ رکھنے والا راوی اپنے جیسے قابل اعتماد اور احادیث کو محفوظ رکھنے والے راوی سے کسی حدیث کو ملی ہوئی سند میں روایت کرتا ہے۔
صحیح احادیث کی شرائط:
- اتصال سند:
- عدالۃ رواۃ:
- ضبط رواۃ:
- عدم شذوذ:
- عدم علت:
صحیح احادیث کی اقسام:
صحیح احادیث کی دو اقسام ہیں:
- صحیح لذاتہ
- صحیح لغیرہ
وہ صحیح احادیث جن میں مندرجہ بالا تمام شرائط پائی جائیں، صحیح لذاتہ کہلاتی ہیں۔
مثال:
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا جرير، عن عمارة بن القعقاع بن شبرمة، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، من احق الناس بحسن صحابتي؟ قال:" امك" قال: ثم من؟ قال:" ثم امك" قال: ثم من؟ قال:" ثم امك" قال: ثم من؟ قال:" ثم ابوك"
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع بن شبرمہ نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہارا باپ ہے۔ (صحیح بخاری: حدیث 5971)
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے عمارہ بن قعقاع بن شبرمہ نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صحابی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول ﷲ! میرے اچھے سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا اس کے بعد کون؟ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں ہے۔ انہوں نے پوچھا اس کے بعد کون ہے؟ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تمہارا باپ ہے۔ (صحیح بخاری: حدیث 5971)
یہ حدیث صحیح لذاتہ کی مثال ہے۔ اس میں صحیح کی تمام شرائط اور صفات پائی جاتی ہیں۔ اس کی سند اول تا آخر متصل ہے۔ اس کے راوی عدل اور ضبط معروف ہیں۔ اس میں کسی قسم کا کوئی شذوذ یا علت نہیں۔ (مطالعہ حدیث کورس کوڈ 4621)
2) صحیح لغیرہ:
صحیح لغیرہ میں صحیح لذاتہ کی اعلی صفات نہیں پائی جاتی مگر ان کی کمی دیگر طرق سے آنے والی روایات سے پوری کی جاتی ہے۔ یہ بیرونی تقویت حاصل کرنے کی بنا پر صحیح لغیرہ کہلاتی ہیں۔
مثال:
حدثنا ابو كريب، حدثنا عبدة بن سليمان، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لولا ان اشق على امتي لامرتهم بالسواك عند كل صلاة "
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت کو حرج اور مشقت میں مبتلا کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا“ (جامع الترمذی: حدیث22)
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت کو حرج اور مشقت میں مبتلا کرنے کا خطرہ نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا“ (جامع الترمذی: حدیث22)
مندرجہ بالا راویان میں محمد ابن عمرضبط کے اعلی وصف کے حامل نہیں۔ باقی تمام صحیح احادیث کی شرائط پوری ہیں۔
صحیح احادیث پر عمل کا حکم:
تمام محدیثین، فقہاء اور اصولیین کا اجتماع ہے کہ صحیح حدیث حجت ہے۔ اس پر عمل کرنا واجب ہے۔
حسن:
جس حدیث کے راوی حافظے کے اعتبار سے صحیح حدیث کے راویوں سے کم درجے کے ہوں، حسن احادیث کہلاتی ہیں۔
مختلف علماء نے اس کی بہت ساری تعریفیں کی ہیں:
- امام خطابی فرماتے ہیں: حسن وہ ہے جس کا مخرج معروف ہو اور اسکے راوی مشہور ہوں۔ اس تعریف کو علماء کی اکثریت قبول کرتی ہے اور عام فقہاء بھی اس تعریف کو استعمال کرتے ہیں۔
- امام ترمذی فرماتے ہیں: وہ حدیث جس کی سند میں کوئی ایسا راوی نہ ہو جو کاذب ہو اور نہ ہی وہ حدیث شاذ ہو اور متعدد سندوں سے مروی ہو۔
- ابن الجوزی فرماتے ہیں: وہ حدیث جس میں معمولی درجہ کا ضعف ہو اور صحت کا احتمال ہو وہ حسن ہے اور قابل عمل ہے۔
- حافظ بغوی کی اصطلاح میں فصل ثانی (امام ابو داؤد، امام ترمذی، امام دارمی، امام نسائی اور امام ابن ماجہ ) کی احادیث حسن ہیں۔
حسن احادیث کی دو اقسام ہیں:
- حسن لذاتہ
- حسن لغیرہ
- 1)حسن لذاتہ:
مثال:
حدثنا محمد بن بكار بن الريان، حدثنا عبد الله بن المبارك، عن عمران بن زائدة، عن ابيه، عن ابي خالد الوالبي، عن ابي هريرة، انه قال:" كانت قراءة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل يرفع طورا ويخفض طورا"
ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رات میں نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کی قرآت کبھی بلند آواز سے ہوتی تھی اور کبھی دھیمی آواز سے۔ (سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1328)
ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رات میں نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کی قرآت کبھی بلند آواز سے ہوتی تھی اور کبھی دھیمی آواز سے۔ (سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1328)
حسن احادیث پر عمل کا حکم:
تمام محدیثین اور فقہاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ یہ قابل حجت ہے اس لیے محدثین کرام نے صحاح کے ذیل میں حسن احادیث کو بھی ذکر کیا ہے۔
2)حسن لغیرہ:
وہ حدیث ہے جس کی سند میں کوئی راوی عدل یا ضبط کے اعتبار سے کمزور ہو ،لیکن کثرت طرق کی وجہ سے اس کی تلافی ہوجائے۔
مثال:
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن معاوية بن صالح، عن عبد الله بن ابي قيس، قال: سالت عائشة كيف كانت قراءة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل، اكان يسر بالقراءة ام يجهر؟ فقالت: " كل ذلك قد كان يفعل ربما اسر بالقراءة وربما جهر ؟ فقالت: " كل ذلك قد كان يفعل ربما اسر بالقراءة وربما جهر "فقلت: الحمد لله الذي جعل في الامر سعة
عبدﷲ بن ابی قیس کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: رات میں نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم کی قرأت کیسی ہوتی تھی کیا آپ قرآن دھیرے سے پڑھتے تھے یا زور سے؟ کہا: آپ ہر طرح سے پڑھتے تھے، کبھی سری پڑھتے تھے اور کبھی جہری، تو میں نے کہا: ﷲ کا شکر ہے جس نے دین کے معاملے میں کشادگی رکھی ہے۔ (جامع ترمذی: حدیث449)
حسن لغیرہ کا درجہ:
حسن لغیرہ کا درجہ حسن لذاتہ سے کم ہے۔
ضعیف:
وہ حدیث ہے جس کی سند میں اتصال نہ ہو یا راوی عادل نہ ہو یا راوی کا حافظہ بہتر اور قابل اعتماد نہ ہو حدیث ضعیف کہلاتی ہے۔
بنیادی طور پر دو اسباب کی وجہ سے حدیث ضعیف کہلاتی ہے:
- سند میں کسی مقام پر راوی کا چھوٹ جانا۔
- حدیث کے راویوں میں جن اوصاف کا پایا جانا ضروری ہے وہ نہ پائے جائیں۔
مثال:
حدثنا زياد بن أيوب البغدادي حدثنا أبو عامر العقدي حدثنا كثير بن عبد الله ابن عمرو بن عوف المزني عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه وسلم قال إن في الجمعة ساعة لا يسأل الله العبد فيها شيئا إلا آتاه الله إياه قالوا يا رسول الله أية ساعة هي قال حين تقام الصلاة إلى الانصراف منها قال۔
زیاد ابن ایوب البغدادی نے ہم سے ابو عامر العقدی نے بیان کیا کہ ہمیں کتیر بن عبد ﷲ ابن عمرو بن عوف المزنی نے اپنے نانا کی طرف سے نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کے اختیار پر اپنے والد سے بیان کیا ، آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ، انہوں نے کہا کہ جمعہ کو ایک گھنٹہ جس میں خدا کسی بندے سے کچھ نہیں پوچھتا لیکن خدا نے اسے دیا ہے انہوں نے کہا: اے ﷲ کے رسول نے اس وقت کیا کہا: جب اسے نماز پڑھنے کے لئے پڑھی جاتی ہے۔ (ابن ماجة: 1138، ضعيف سنن ابن ماجة: 235، ضعيف الجامع الصغير: 1890)
ضعیف حدیث کا حکم:
محدثین حضرات کے نزدیک یہ قابل قبول نہیں ہے۔ فقہاء کے نزدیک یہ اس وقت قابل قبول ہے جب کسی باب میں حسن اور صحیح کی روایات موجود نہ ہوں۔ ان حضرات کا خیال ہے حدیث اگرچہ ضعیف ہی کیوں نہ ہو قیاس سے بہتر ہے۔
موضوع:
موضوع حدیث کی تعریف:
لغوی اعتبار سے '' موضوع '' وضع کا اسم مفعول ہے اور اس کا معنی ہے گھڑی ہوئی چیز۔ اصطلاح میں موضوع حدیث اس جھوٹی حدیث کو کہتے ہیں جسے گھڑ کر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی طرف منسوب کر دیا جاۓ۔
موضوع حدیث کا درجہ:
موضوع حدیث ضعیف حدیث کے بد ترین درجے کی حامل ہے۔ بعض اہل علم تو اسے ضعیف حدیث میں بھی شمار نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنی طرف سے گھڑ کر جھوٹی بات رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بہت بڑا جرم ہے۔ ضعیف حدیث میں تو پھر بھی یہ شک ہوتا ہے کہ شاید یہ بات رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمائی ہو گی جبکہ موضوع حدیث تو سراسر جھوٹ کا پلندہ ہوتی ہے۔
مثال:
ان کی ایک مثال محمد بن سعید شامی تھا۔ اس نے حمید اور سیدنا انس رضی ﷲ عنہ سے یہ روایت منسوب کی، "میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس کے کہ جسے ﷲ چاہے۔" (تدريب الراوي جـلد1 ـ ص 284)
موضوع احادیث بیان کرنے کی وجوہات:
موضوع احادیث وضع کرنے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں:
- مسلک اور فرقے کی تائید: بعض لوگوں نے اپنے مذہب اور مسلک کو دوسرے مسالک سے اعلی اور برتر ثابت کرنے کے لیے احادیث ایجاد کیں۔ خلافت راشدہ کے دور میں جو سیاسی طرز و نوعیت کے فرقے پیدا ہوئے ان فرقوں نے اپنے فرقے کی تائید میں احادیث وضع کرنے کا کام شروع کیا۔
- اسلام پر اعتراضات: اسلام پر اعتراضات کرنے اور اس سے متعلق لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے کچھ نامراد لوگوں نے یہ کام شروع کیا۔ وہ کھلم کھلا تو اسلام پر اعتراضات کر نہیں سکتے تھے چنانچہ ان لوگوں نے من گھڑت احادیث گھڑ کر اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کی مذموم کوشش کی۔ انہوں نے اسلام کی تعلیمات کو خلط ملط کرنے اور اس پر اعتراضات کرنے کے لئے یہ جھوٹ کے پلندے وضع کرنے کا طریقہ اختیار کیا۔
- حکمرانوں کا قرب: بعض لوگوں نے محض حکمرانوں کی قربت حاصل کرنے کے لیے احادیث وضع کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ لوگ اس طریقے سے اپنی عاقبت کی فکر کیے بغیر حکمرانوں کے ناجائز کاموں کی ان احادیث کی روشنی میں پذیرائی کرتے تھے۔
- روزگار کا حصول: کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو لوگوں کو قصے کہانیاں سنا کر اپنے روزگار کا بندوبست کیا کرتے تھے۔ یہ لوگوں کو جھوٹی احادیث اور جادو و سحر کے بارے میں معلومات دیتے۔ ابو سعید المدائنی ایک ایسا ہی شخص تھا۔