عہد رسالت میں کتابت حدیث:
حدیث نبوی صلی ﷲ علیہ والہ وسلم قرآن مجید کے بعد احکام شریعت کا دوسرا بڑا ماخذ ہے۔ احادیث نبوی کی تدوین دورِ نبوی صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے ہی چلا آ رہی ہے۔ نبی پاک صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے ہر قول وفعل کی پیروی اور حفاظت صحابہ کرام نے بڑے احتیاط سے کی۔ ہر صحابی میں اس بات کا شوق اور لگن ہوتی کہ وہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے اور جو بات ان کو معلوم نہ ہوتی تھی وہ ایک دوسرے سے نبی پاک صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے فرمان دریافت کرتے۔ زندگی کی مصروفیات کو بلائے طاق رکھ کر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی صحبت سے استفادہ کرتے اور احادیث سے بہرہ ور ہونے کا اہتمام کرتے تھے۔حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کا ایک بیان ہے:
"کہ میں اور میرا ایک پڑوسی انصاری جو کہ بنوامیہ سے تعلق رکھتا تھا ، باری باری رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ایک دن میں آتا دوسرے دن وہ آتا جس دن میں آتا اس دن کی احادیث اسے پہنچاتا اور جس دن وہ آتا اس دن کی احادیث وہ مجھے پہنچاتا"۔ (کتاب العلم باب التناؤب حدیث نمبر:89)
حدیث کی تدوین وترتیب اور کتابت عہد رسالت صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے ہی شروع ہوچکی تھی۔ لیکن اب تدوین حدیث اور اسکی کتابت کے بارے میں جو سوال ذہن میں آتاہے وہ یہ کہ خود عہدِ نبوی صلی ﷲ علیہ والہ وسلم میں حفاظت وجمع احادیث کا اہتمام کس حد تک ہوسکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب قوم کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ اس دور کے لوگوں نے اتنی طویل نظمیں بھی حفظ کر رکھی تھیں کہ اگر انھیں لگا تار چالیس دن تک بھی پڑھا جائے تو ختم نہ ہوں۔ صحابہ کرام کے لیے آپ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی احدیث کو دل میں محفوظ رکھنا مشکل نہ تھا۔ صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم نے محض حافظے پر ہی اعتماد نہیں کیا بلکہ وہ احادیث کو ضبط تحریر میں لاتے تھے اور احادیث کا بہت بڑا سرمایہ آپ کے دور میں صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کے ہاتھوں سے مرتب ہوچکا تھا وہ احادیث جو آپ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں قلمبند ہوئیں ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔
احادیث کا ایک مجموعہ حضرت انس نے لکھا تھا۔ (بخاری, تدریب الراوی)
حضرت عبدﷲ بن مسعودرضی ﷲ عنہ نے بھی احادیث لکھوائی تھیں۔ یہ ذخیرہ ان کے صا حب زادے کے پاس تھا۔ (جامع بیان العلم)
حضرت سعد بن عبادہ رضی ﷲ عنہ نے ایک کتاب میں احادیث کو جمع فرمایا تھا جس کا نام ہی کتاب سعد بن عبادہ تھا۔ یہ کئی پشتوں تک ان کے خاندان میں رہا۔ (مسند امام احمد)
الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع صفحہ نمبر سو پر ہے:
ترجمہ: حضرت ابن عباس کے چند صحیفے تھے طائف کے کچھ لوگ حضرت ابن عباس کی خدمت میں ان کے چند صحیفے لیکر حاضر ہوئے تاکہ وہ ان لوگوں کو ان میں تحریر کردہ احادیث سنا دیں اس وقت حضرت ابن عباس کی بینائی کمزور ہو چکی تھی وہ پڑھ نہ سکے فرمایا تم لوگ مجھے پڑھ کر سناؤ تمھارا سنانا اور میرا پڑھنا برابر ہے۔ (سنن ترمذی جلد 2, صفحہ 238)
صحیفہ عمرو بن حزم : نبی کریم صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے زکوۃ،صدقات اور خون بہا کے احکام پوری تشریح کے ساتھ عمرو بن حزم کو یمن کیلئے لکھوا کر دیئے۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد نمبر:2, صفحہ 417)
صحیفہ عمرو بن حزم کی نقول سیدنا ابو بکر اور عمرو بن حزم کے خاندان اور متعدد اشخاص کے پاس موجود تھیں۔ (کتاب الزکاۃ , صفحہ 209)
عبد ﷲ بن الحکیم کی روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی ایک تحریر ہمارے قبیلے جہینہ کو پہنچی جس میں مختلف احادیث تھیں کہ مردار جانوروں کی کھال اور پٹھے وغیرہ بغیر دباغت کئے ہوئے استعمال میں نہ لاؤ۔ (سنن ترمذی جلد:1, صفحہ 206)
دارمی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یمن والوں کو بھی ایک صحیفہ لکھوا کر بھیجا تھا۔ الفاظ یوں ہیں :
احادیث کے ان کتابی ذخیروں کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں وہ خطوط اور وثوق بھی ہیں جو کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے مختلف اوقات میں بادشاہوں، قبیلوں،سرداروں اور دوسرے لوگوں کے نام لکھوائے اور خود ان پر مہر ثبت کی۔
رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں کتابت حدیث کا انداز یہ ہوتا تھا کہ آپ محفل کے درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور صحابہ کی جماعت آپ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے اردگرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتی اور جو کچھ آپ فرماتے صحابہ لکھتے جاتے۔ حضرت انس سے روایت ہے: '' کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کو بات کو دو دو ، تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ لوگوں کے سمجھنے میں سہولت ہو۔''
اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کو صحت وتعیین کے ساتھ احادیث قلمبند کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔
سیدنا عبد ﷲ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم آپ سے بہت سی احادیث سنتے ہیں جو ہمیں یاد نہیں رہتیں کیا ہم وہ لکھ نہ لیا کریں؟ تو آپ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
اسی طرح سیدنا عبد ﷲ بن عمرو رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے سنتا تھا اسے لکھ لیا کرتا تھا بعض حضرات مجھے اس کی کتابت سے منع کرتے۔ فرماتے ہیں کہ قریش کے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم بشر ہیں۔ بہت سی باتیں غصہ کی حالت میں بھی فرماتے ہیں اس لیے احادیث نہ لکھا کرو۔ میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا تو آپ نے اپنی مبارک انگلی سے اشارہ کرکے فرمایا:
اس کے بعد سیدنا عبد ﷲ بن عمرو رضی ﷲ عنہ نے کتابت حدیث کا سلسلہ برابر جاری رکھا اور لکھتے لکھتے ان کے پاس احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا، حدیث کی اس کتاب کے بار ےمیں فرمایا کرتے تھے ۔
مختلف صحوف احادیث:
کیا تمہارے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟
انہوں (رضی ﷲ عنہ) نے فرمایا کہ: نہیں ! مگر ﷲ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔
میں نے پوچھا: اس صحیفے میں کیا ہے؟
حضرت علی نے فرمایا : دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان ، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔ (بخاری, صحیح بخاری، كتاب العلم، باب : کتابۃ العلم، حدیث:111)
اس کے علاوہ نبی پاک صلی ﷲ علیہ وسلم نے بذات خود معاہدے، فرامین، خطوط اور ضروری احکامات لکھوائے۔ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کا مشہور دستور نامہ وہ ہے جو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد لکھوایا۔ اس میں مہاجر، انصار اور اہل یثرب کے حقوق کا ذکر ہے۔ اس دستور کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں:
حدیث نبوی صلی ﷲ علیہ والہ وسلم قرآن مجید کے بعد احکام شریعت کا دوسرا بڑا ماخذ ہے۔ احادیث نبوی کی تدوین دورِ نبوی صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے ہی چلا آ رہی ہے۔ نبی پاک صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے ہر قول وفعل کی پیروی اور حفاظت صحابہ کرام نے بڑے احتیاط سے کی۔ ہر صحابی میں اس بات کا شوق اور لگن ہوتی کہ وہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائے اور جو بات ان کو معلوم نہ ہوتی تھی وہ ایک دوسرے سے نبی پاک صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے فرمان دریافت کرتے۔ زندگی کی مصروفیات کو بلائے طاق رکھ کر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی صحبت سے استفادہ کرتے اور احادیث سے بہرہ ور ہونے کا اہتمام کرتے تھے۔حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کا ایک بیان ہے:
"کہ میں اور میرا ایک پڑوسی انصاری جو کہ بنوامیہ سے تعلق رکھتا تھا ، باری باری رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے ایک دن میں آتا دوسرے دن وہ آتا جس دن میں آتا اس دن کی احادیث اسے پہنچاتا اور جس دن وہ آتا اس دن کی احادیث وہ مجھے پہنچاتا"۔ (کتاب العلم باب التناؤب حدیث نمبر:89)
حدیث کی تدوین وترتیب اور کتابت عہد رسالت صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے ہی شروع ہوچکی تھی۔ لیکن اب تدوین حدیث اور اسکی کتابت کے بارے میں جو سوال ذہن میں آتاہے وہ یہ کہ خود عہدِ نبوی صلی ﷲ علیہ والہ وسلم میں حفاظت وجمع احادیث کا اہتمام کس حد تک ہوسکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب قوم کا حافظہ غیر معمولی تھا۔ اس دور کے لوگوں نے اتنی طویل نظمیں بھی حفظ کر رکھی تھیں کہ اگر انھیں لگا تار چالیس دن تک بھی پڑھا جائے تو ختم نہ ہوں۔ صحابہ کرام کے لیے آپ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی احدیث کو دل میں محفوظ رکھنا مشکل نہ تھا۔ صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم نے محض حافظے پر ہی اعتماد نہیں کیا بلکہ وہ احادیث کو ضبط تحریر میں لاتے تھے اور احادیث کا بہت بڑا سرمایہ آپ کے دور میں صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کے ہاتھوں سے مرتب ہوچکا تھا وہ احادیث جو آپ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں قلمبند ہوئیں ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔
- رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے حکم سے لکھی جانے والی احادیث
- آپ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی اجازت سے لکھی جانے والی احادیث
- رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے حکم سے لکھی جانے والی احادیث:
احادیث کا ایک مجموعہ حضرت انس نے لکھا تھا۔ (بخاری, تدریب الراوی)
حضرت عبدﷲ بن مسعودرضی ﷲ عنہ نے بھی احادیث لکھوائی تھیں۔ یہ ذخیرہ ان کے صا حب زادے کے پاس تھا۔ (جامع بیان العلم)
حضرت سعد بن عبادہ رضی ﷲ عنہ نے ایک کتاب میں احادیث کو جمع فرمایا تھا جس کا نام ہی کتاب سعد بن عبادہ تھا۔ یہ کئی پشتوں تک ان کے خاندان میں رہا۔ (مسند امام احمد)
الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع صفحہ نمبر سو پر ہے:
ترجمہ: حضرت ابن عباس کے چند صحیفے تھے طائف کے کچھ لوگ حضرت ابن عباس کی خدمت میں ان کے چند صحیفے لیکر حاضر ہوئے تاکہ وہ ان لوگوں کو ان میں تحریر کردہ احادیث سنا دیں اس وقت حضرت ابن عباس کی بینائی کمزور ہو چکی تھی وہ پڑھ نہ سکے فرمایا تم لوگ مجھے پڑھ کر سناؤ تمھارا سنانا اور میرا پڑھنا برابر ہے۔ (سنن ترمذی جلد 2, صفحہ 238)
صحیفہ عمرو بن حزم : نبی کریم صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے زکوۃ،صدقات اور خون بہا کے احکام پوری تشریح کے ساتھ عمرو بن حزم کو یمن کیلئے لکھوا کر دیئے۔ (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد نمبر:2, صفحہ 417)
صحیفہ عمرو بن حزم کی نقول سیدنا ابو بکر اور عمرو بن حزم کے خاندان اور متعدد اشخاص کے پاس موجود تھیں۔ (کتاب الزکاۃ , صفحہ 209)
عبد ﷲ بن الحکیم کی روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی ایک تحریر ہمارے قبیلے جہینہ کو پہنچی جس میں مختلف احادیث تھیں کہ مردار جانوروں کی کھال اور پٹھے وغیرہ بغیر دباغت کئے ہوئے استعمال میں نہ لاؤ۔ (سنن ترمذی جلد:1, صفحہ 206)
دارمی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یمن والوں کو بھی ایک صحیفہ لکھوا کر بھیجا تھا۔ الفاظ یوں ہیں :
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى أَهْلِ الْيَمَنِ أَنْ لَا يَمَسَّ الْقُرْآنَ إِلَّا طَاهِرٌ، وَلَا طَلَاقَ قَبْلَ إِمْلَاكٍ، وَلَا عَتَاقَ حَتَّى يَبْتَاعَ (سنن دارمی, صفحہ 393)
’’ بے شک رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے یمن والوں کی طرف لکھا کہ نہ قرآن کو چھوئے مگر پاک آدمی ہی اور ملکیت سے پہلے طلاق نہیں ہے اور نہیں ہے آزادی حتی کہ وہ خرید لے۔‘‘
’’ بے شک رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے یمن والوں کی طرف لکھا کہ نہ قرآن کو چھوئے مگر پاک آدمی ہی اور ملکیت سے پہلے طلاق نہیں ہے اور نہیں ہے آزادی حتی کہ وہ خرید لے۔‘‘
احادیث کے ان کتابی ذخیروں کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں وہ خطوط اور وثوق بھی ہیں جو کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے مختلف اوقات میں بادشاہوں، قبیلوں،سرداروں اور دوسرے لوگوں کے نام لکھوائے اور خود ان پر مہر ثبت کی۔
- آپ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی اجازت سے لکھی جانے والی احادیث
بینما نحن حول رسول ﷲ نکتب
''اسی دوران کہ ہم رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے اردگرد(بیٹھے) لکھ رہے تھے۔''(سنن دارمی, صفحہ 68)
''اسی دوران کہ ہم رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے اردگرد(بیٹھے) لکھ رہے تھے۔''(سنن دارمی, صفحہ 68)
رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں کتابت حدیث کا انداز یہ ہوتا تھا کہ آپ محفل کے درمیان میں تشریف فرما ہوتے اور صحابہ کی جماعت آپ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کے اردگرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتی اور جو کچھ آپ فرماتے صحابہ لکھتے جاتے۔ حضرت انس سے روایت ہے: '' کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کو بات کو دو دو ، تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ لوگوں کے سمجھنے میں سہولت ہو۔''
اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کو صحت وتعیین کے ساتھ احادیث قلمبند کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔
سیدنا عبد ﷲ بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ہم آپ سے بہت سی احادیث سنتے ہیں جو ہمیں یاد نہیں رہتیں کیا ہم وہ لکھ نہ لیا کریں؟ تو آپ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :
بلی فاکتبوھا
'' کیوں نہیں ! ان کو لکھ لیا کرو۔'' (سنن ابو داؤد:3646)
'' کیوں نہیں ! ان کو لکھ لیا کرو۔'' (سنن ابو داؤد:3646)
اسی طرح سیدنا عبد ﷲ بن عمرو رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے سنتا تھا اسے لکھ لیا کرتا تھا بعض حضرات مجھے اس کی کتابت سے منع کرتے۔ فرماتے ہیں کہ قریش کے لوگوں نے مجھ سے کہا کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم بشر ہیں۔ بہت سی باتیں غصہ کی حالت میں بھی فرماتے ہیں اس لیے احادیث نہ لکھا کرو۔ میں نے آپ کے سامنے ذکر کیا تو آپ نے اپنی مبارک انگلی سے اشارہ کرکے فرمایا:
فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا يَخْرُجُ مِنْهُ إِلَّا حَقٌّ
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے صرف حق ہی نکلتاہے۔‘‘ (سنن ابو داؤد:3646)
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے صرف حق ہی نکلتاہے۔‘‘ (سنن ابو داؤد:3646)
اس کے بعد سیدنا عبد ﷲ بن عمرو رضی ﷲ عنہ نے کتابت حدیث کا سلسلہ برابر جاری رکھا اور لکھتے لکھتے ان کے پاس احادیث کا ایک بڑا ذخیرہ جمع ہوگیا، حدیث کی اس کتاب کے بار ےمیں فرمایا کرتے تھے ۔
فَأَمَّا الصَّادِقَةُ، فَصَحِيفَةٌ كَتَبْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
''رہا صحیفہ صادقہ تو میں نے اسے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے لکھا ہے''۔ (سنن الدارمی:513)
''رہا صحیفہ صادقہ تو میں نے اسے رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ والہ وسلم سے لکھا ہے''۔ (سنن الدارمی:513)
مختلف صحوف احادیث:
- کتاب الصدقۃ:
- صحیفہ صادقہ:
- صحیفہ علی:
کیا تمہارے پاس کوئی (اور بھی) کتاب ہے؟
انہوں (رضی ﷲ عنہ) نے فرمایا کہ: نہیں ! مگر ﷲ کی کتاب قرآن ہے یا پھر فہم ہے جو وہ ایک مسلمان کو عطا کرتا ہے یا پھر جو کچھ اس صحیفے میں ہے۔
میں نے پوچھا: اس صحیفے میں کیا ہے؟
حضرت علی نے فرمایا : دیت اور قیدیوں کی رہائی کا بیان ہے اور یہ حکم کہ مسلمان ، کافر کے بدلے قتل نہ کیا جائے۔ (بخاری, صحیح بخاری، كتاب العلم، باب : کتابۃ العلم، حدیث:111)
- حضرت انس رضی ﷲ عنہ کی تالیفات:
- حضرت ابن عباس رضی ﷲ عنہ کی مرویات:
- صحیفہ حضرت جابر بن عبدﷲ رضی ﷲ عنہ
- صحیفہ عمرو بن حزم رضی ﷲ عنہ
اس کے علاوہ نبی پاک صلی ﷲ علیہ وسلم نے بذات خود معاہدے، فرامین، خطوط اور ضروری احکامات لکھوائے۔ حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کا مشہور دستور نامہ وہ ہے جو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد لکھوایا۔ اس میں مہاجر، انصار اور اہل یثرب کے حقوق کا ذکر ہے۔ اس دستور کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں:
''ھذا کتاب محمد النبی رسول ﷲ من المومنین والمسلمین من قریش و اھل یثرب ومن تبعھم فلحق بھم وجاھد معھم انھم امۃ واحدۃ من دون الناس''
''یہ محمد، ﷲ کے نبی اور رسول کا نامہ ہے تمام مومنین اور مسلمین کی طرف سے جن کا تعلق قریش اور اہل یثرب سے ہے اور ان کے ساتھ رہ کر جہاد میں شریک رہے اور سب امت واحد میں داخل ہیں۔ مخالفین کے مقابلہ میں یہ سب کے سب ایک ساتھ رہیں گے''۔
''یہ محمد، ﷲ کے نبی اور رسول کا نامہ ہے تمام مومنین اور مسلمین کی طرف سے جن کا تعلق قریش اور اہل یثرب سے ہے اور ان کے ساتھ رہ کر جہاد میں شریک رہے اور سب امت واحد میں داخل ہیں۔ مخالفین کے مقابلہ میں یہ سب کے سب ایک ساتھ رہیں گے''۔