عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم (کنیت: ابو حفص) خلافت بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے اور سلیمان بن عبدالملک کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے۔ انہیں ان کی نیک سیرتی کے باعث پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے جبکہ آپ "خلیفہ صالح" کے نام سے بھی مشہور ہیں۔
تدوین حدیث کی ضرورت:
پہلی صدی ہجری کے آخر تک صحابہ کرام اور تابعین کی کوششوں سے حدیث کی مکتوبہ ذخائر میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا تھا۔ مگر یہ ذخیرہ منتشر اور مختلف اہل علم کے حلقوں تک محدود تھا۔ ان سب منتشر مکتوبات کو اکٹھا کرنے اور ان کو باقاعدہ طور پر سرکاری اخراجات سے شائع کرنے کا خیال سب سے پہلے حضرت عمر بن عبد العزیز کو ہوا۔ ننانوے ہجری میں آپ کو خلافت کی ذمہ داری دے دی گئی۔ آپ خود حدیث و فقہ کے ماہر تھے۔ علمی فضا میں تعلیم و تربیت پائی تھی۔ علمائے حدیث کے حلقوں میں شریک ہوتے تھے اور نہایت معتدل مزاج تھے۔ آپ نے حدیث نبوی کی صورت حال کا جائزہ لیا تو دیکھا تقریبا تمام صحابہ اور کبار تابعین وفات پا چکے ہیں اور اہل ہوا و بدعت نیز سیاسی جماعت اور فرقوں نے اپنے منشاء اور مقصد کو پورا کرنے کے لیے احادیث کثرت سے وضع کر لی ہیں اور کر رہے ہیں اور عرب و عجم کے اختلاط اور باہمی ازدواج سے جو نئی نسل نمودار ہوئی ہے وہ حفظ و ضبط حدیث میں خالص عربوں کے حفظ و ضبط کے مقابلہ میں کمزور واقع ہوئی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر آپ نے حدیث نبوی کی تدوین کا مصمم ارادہ کیا۔ آپ کے دور میں جو اکابر تابعین تھے وہ حدیث کی کتابت کو جائز سمجھتے تھے۔ جب عمر بن عبد العزیز نے تدوین حدیث کے سلسلے میں اپنے ارادے کا اظہار کیا تو علماء نے آپ کی تائید کی اور آپ کو ہر ممکن مدد کا یقین دلایا۔ اس دور میں وضع حدیث کے فتنے کا تدارک کرنے کے لیے علماء انفرادی طور پر مساعی میں مصروف تھے۔ جب حکومت کی طرف سے اس ضمن میں آواز بلند ہوئی تو علماء کے حوصلے بڑھ گئے۔
ابن شہاب زہری کے بھائی کا بیان ہے کہ میں نے ابن شہاب زہری کو یوں کہتے ہوئے سنا اگر مشرق (عراق) کی طرف سے ایسی حدیثیں نہ آتی جن کے ہم سب منکر ہیں تو میں حدیث نہ لکھتا اور نہ اس کی کتابت کی اجازت دیتا۔ (تقیید العلم, صفحہ 108) (تاریخ حدیث)
عمر بن عبد العزیز اور تدوین حدیث:
امام زہری کی یہ رائے اس دور کے بیشتر علماء کی رائے کے موافق تھی کیونکہ ان علماء کو جس قدر حدیث کے ضائع ہونے کا خیال تھا اسی قدر حدیث کو ''کذب'' اور "وضع" سے بچانے کا بھی خیال تھا۔ ان دو بڑے عوامل نے علماء امت کو خدمت حدیث اور کتابت حدیث پر امادہ کر دیا۔ اور ان ہی عوامل نے عمر بن عبد العزیز کو سرکاری طور پر حدیث جمع کرنے، لکھوانے اور اس کی اشاعت پر مستعمد کر دیا۔ آپ نے اپنی مملکت کے تمام علاقوں کے عاملوں کے نام حکم نامہ بھیجا۔
ابو نعیم تاریخ اصفہان میں لکھتے ہیں:
آپ نے اہل مدینہ کے نام خط لکھا:
عمر بن عبدالعزیز نے حَمص کے گورنر کو خط لکھا کہ
"آپ عوام میں ان لوگوں کو تلاش کیجئے جنہوں نے خود کوفقہ کی تعلیم حاصِل کرنے کے لئے وَقف کر رکھا ہے اور طَلَبِ دنیا سے منہ موڑ کر مسجدوں کی زینت بنے ہوئے ہیں ، جیسے ہی میرا یہ خط ملے توان میں سے ہر ایک کو بیت المال سے سو سو دینار دے دیجئے تاکہ فقہ کی تعلیم حاصِل کرنے میں انہیں کوئی مشکل نہ ہو۔" (تاریخ دمشق ج۴۶ ص ۳۲۰)
آپ رحمۃ ﷲ تعالی علیہ نے ایک پیغام میں قاضی ابوبکر بن حزم کو اس طرف بھی توجہ دلائی اور لکھا:
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جعفر بن بُرقان کو خط کے ذریعے حکم فرمایا:
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تدوین حدیث کے سلسلہ میں تمام اکابر تابعین، علماء اور فقہاء سے تعاون حاصل کیا۔ ذیل میں چند شخصیات کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔
مالک بن انس نے اس کے بارے میں کہا: " میں نے ابن حزم کی مثال کبھی نہیں دیکھی ، جو اس وقت کی عظمت اور تکمیل کی سب سے بڑی ہے، اور نہ ہی میں نے ان جیسے لوگوں کو دیکھا ہے جن کو شہر ، عدلیہ اور اس کا اختیار دیا گیا تھا''۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ابو بکر بن حزم کو حدیث جمع کرنے کے لیے خط لکھا:
یحییٰ بن سعید نے فرمایا:
تدوین حدیث کی ضرورت:
پہلی صدی ہجری کے آخر تک صحابہ کرام اور تابعین کی کوششوں سے حدیث کی مکتوبہ ذخائر میں بہت زیادہ اضافہ ہو چکا تھا۔ مگر یہ ذخیرہ منتشر اور مختلف اہل علم کے حلقوں تک محدود تھا۔ ان سب منتشر مکتوبات کو اکٹھا کرنے اور ان کو باقاعدہ طور پر سرکاری اخراجات سے شائع کرنے کا خیال سب سے پہلے حضرت عمر بن عبد العزیز کو ہوا۔ ننانوے ہجری میں آپ کو خلافت کی ذمہ داری دے دی گئی۔ آپ خود حدیث و فقہ کے ماہر تھے۔ علمی فضا میں تعلیم و تربیت پائی تھی۔ علمائے حدیث کے حلقوں میں شریک ہوتے تھے اور نہایت معتدل مزاج تھے۔ آپ نے حدیث نبوی کی صورت حال کا جائزہ لیا تو دیکھا تقریبا تمام صحابہ اور کبار تابعین وفات پا چکے ہیں اور اہل ہوا و بدعت نیز سیاسی جماعت اور فرقوں نے اپنے منشاء اور مقصد کو پورا کرنے کے لیے احادیث کثرت سے وضع کر لی ہیں اور کر رہے ہیں اور عرب و عجم کے اختلاط اور باہمی ازدواج سے جو نئی نسل نمودار ہوئی ہے وہ حفظ و ضبط حدیث میں خالص عربوں کے حفظ و ضبط کے مقابلہ میں کمزور واقع ہوئی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر آپ نے حدیث نبوی کی تدوین کا مصمم ارادہ کیا۔ آپ کے دور میں جو اکابر تابعین تھے وہ حدیث کی کتابت کو جائز سمجھتے تھے۔ جب عمر بن عبد العزیز نے تدوین حدیث کے سلسلے میں اپنے ارادے کا اظہار کیا تو علماء نے آپ کی تائید کی اور آپ کو ہر ممکن مدد کا یقین دلایا۔ اس دور میں وضع حدیث کے فتنے کا تدارک کرنے کے لیے علماء انفرادی طور پر مساعی میں مصروف تھے۔ جب حکومت کی طرف سے اس ضمن میں آواز بلند ہوئی تو علماء کے حوصلے بڑھ گئے۔
ابن شہاب زہری کے بھائی کا بیان ہے کہ میں نے ابن شہاب زہری کو یوں کہتے ہوئے سنا اگر مشرق (عراق) کی طرف سے ایسی حدیثیں نہ آتی جن کے ہم سب منکر ہیں تو میں حدیث نہ لکھتا اور نہ اس کی کتابت کی اجازت دیتا۔ (تقیید العلم, صفحہ 108) (تاریخ حدیث)
عمر بن عبد العزیز اور تدوین حدیث:
امام زہری کی یہ رائے اس دور کے بیشتر علماء کی رائے کے موافق تھی کیونکہ ان علماء کو جس قدر حدیث کے ضائع ہونے کا خیال تھا اسی قدر حدیث کو ''کذب'' اور "وضع" سے بچانے کا بھی خیال تھا۔ ان دو بڑے عوامل نے علماء امت کو خدمت حدیث اور کتابت حدیث پر امادہ کر دیا۔ اور ان ہی عوامل نے عمر بن عبد العزیز کو سرکاری طور پر حدیث جمع کرنے، لکھوانے اور اس کی اشاعت پر مستعمد کر دیا۔ آپ نے اپنی مملکت کے تمام علاقوں کے عاملوں کے نام حکم نامہ بھیجا۔
ابو نعیم تاریخ اصفہان میں لکھتے ہیں:
''ان عمر بن عبد العزیز کتب الی اھل الآفاق: انظروا الی حدیث رسول ﷲ فاجموہ
عمر بن عبد العزیز نے تمام ولاۃ کے نام خط لکھا کہ رسول ﷲ کی طرف سے منسوب روایات کو تلاش کرو اور انہیں جمع کرو''
عمر بن عبد العزیز نے تمام ولاۃ کے نام خط لکھا کہ رسول ﷲ کی طرف سے منسوب روایات کو تلاش کرو اور انہیں جمع کرو''
آپ نے اہل مدینہ کے نام خط لکھا:
''انظروا الی حدیث رسول ﷲ فاکتبوہ، فانی خفت دروس العلم و ذھاب اھلہ
رسول ﷲ کی احادیث کی طرف دیکھو اور اس کو لکھو۔ مجھے علم کے جاننے والوں کے چلے جانے اور اس علم کے مٹ جانے کا خدشہ ہے۔'' (فتح الباری, صفحہ 204)
رسول ﷲ کی احادیث کی طرف دیکھو اور اس کو لکھو۔ مجھے علم کے جاننے والوں کے چلے جانے اور اس علم کے مٹ جانے کا خدشہ ہے۔'' (فتح الباری, صفحہ 204)
عمر بن عبدالعزیز نے حَمص کے گورنر کو خط لکھا کہ
"آپ عوام میں ان لوگوں کو تلاش کیجئے جنہوں نے خود کوفقہ کی تعلیم حاصِل کرنے کے لئے وَقف کر رکھا ہے اور طَلَبِ دنیا سے منہ موڑ کر مسجدوں کی زینت بنے ہوئے ہیں ، جیسے ہی میرا یہ خط ملے توان میں سے ہر ایک کو بیت المال سے سو سو دینار دے دیجئے تاکہ فقہ کی تعلیم حاصِل کرنے میں انہیں کوئی مشکل نہ ہو۔" (تاریخ دمشق ج۴۶ ص ۳۲۰)
آپ رحمۃ ﷲ تعالی علیہ نے ایک پیغام میں قاضی ابوبکر بن حزم کو اس طرف بھی توجہ دلائی اور لکھا:
وَلْتُفْشُوا الْعِلْمَ وَلْتَجْلِسُوا حَتَّی یُعَلَّمَ مَنْ لَا یَعْلَمُ فَإِنَّ الْعِلْمَ لَا یَہْلِکُ حَتَّی یَکُونَ سِرًّا
لوگوں کو چاہیے کہ عِلم کی اِشاعت کریں اور تعلیم کے لیے حلقۂ دَرس میں بیٹھیں تاکہ جو لوگ نہیں جانتے وہ جان لیں کیونکہ عِلماس وَقت تک نہیں برباد ہوتا جب تک کہ وہ مَخفِی نہ رکھا جائے۔ (فتح الباری، باب کیف یقبض العلم )
لوگوں کو چاہیے کہ عِلم کی اِشاعت کریں اور تعلیم کے لیے حلقۂ دَرس میں بیٹھیں تاکہ جو لوگ نہیں جانتے وہ جان لیں کیونکہ عِلماس وَقت تک نہیں برباد ہوتا جب تک کہ وہ مَخفِی نہ رکھا جائے۔ (فتح الباری، باب کیف یقبض العلم )
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے جعفر بن بُرقان کو خط کے ذریعے حکم فرمایا:
اپنے علاقے کے فقہاء و علماء کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کرو کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو جو علم عطا کیا اسے اپنے اجتماعات اور مساجد میں پھیلائیں۔ (جامع بیان العلم وفضلہ لابن عبد البر)
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے تدوین حدیث کے سلسلہ میں تمام اکابر تابعین، علماء اور فقہاء سے تعاون حاصل کیا۔ ذیل میں چند شخصیات کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔
- ابو بکر بن حزم:
مالک بن انس نے اس کے بارے میں کہا: " میں نے ابن حزم کی مثال کبھی نہیں دیکھی ، جو اس وقت کی عظمت اور تکمیل کی سب سے بڑی ہے، اور نہ ہی میں نے ان جیسے لوگوں کو دیکھا ہے جن کو شہر ، عدلیہ اور اس کا اختیار دیا گیا تھا''۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے ابو بکر بن حزم کو حدیث جمع کرنے کے لیے خط لکھا:
انظر ماکان من حدیث رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فاکتبہ فانی خفت دروس العلم وذہاب العلماء ولاتقبل الاحدیث رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ولیفشوا العلم ولیجلسوا حتی یعلم من لایعلم فان العلم لایہلک حتی یکون سراً وکذلک کتب الی عمالہ فی امہات المدن الاسلامیۃ بجمع الحدیثْ
حضور کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی احادیث کو نہایت احتیاط سے لکھ دو کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں علم آثار مٹ نہ جائیں اور علماء اس دارفانی سے رخصت نہ ہوجائیں ۔اور رسول کریم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قول کے بغیر کسی کا قول قبول نہ کرنا چاہیئے ۔ علماء علم کو پھیلا یئں اور جو ناواقف ہیں ، ان کو سکھانے کیلئے بیٹھ جائیں کیوں کہ علم اگر راز ہوجائے تو اسکی فنا یقینی ہے''
حضور کریم علیہ الصلوۃ والسلام کی احادیث کو نہایت احتیاط سے لکھ دو کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں علم آثار مٹ نہ جائیں اور علماء اس دارفانی سے رخصت نہ ہوجائیں ۔اور رسول کریم صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قول کے بغیر کسی کا قول قبول نہ کرنا چاہیئے ۔ علماء علم کو پھیلا یئں اور جو ناواقف ہیں ، ان کو سکھانے کیلئے بیٹھ جائیں کیوں کہ علم اگر راز ہوجائے تو اسکی فنا یقینی ہے''
- عمرۃ بن عبدالرحمن:
- قاسم بن محمد بن ابو بکر صدیق:
یحییٰ بن سعید نے فرمایا:
ما ادرکنا فی المدینۃ احدانفضلہ علیٰ القاسم بن محمد
مدینہ طیبہ میں قاسم بن محمد سے بڑھ کر فضیلت والا ہمیں کوئی نظر نہ آیا
مدینہ طیبہ میں قاسم بن محمد سے بڑھ کر فضیلت والا ہمیں کوئی نظر نہ آیا
- ابن شہاب زہری: