نکاح فضولی:
عقد فضولی سے مراد ایسا عقد ہے جس کو ایک شخص دوسرے کی طرف سے بغیر اس کے علم میں لائے منعقد کیا جائے۔ مثال کے طور پرکوئی شخص ایک چیز کے مالک کی اجازت کے بغیر اس کی چیز کو فروخت کر دے۔
کسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے پر کسی کو گواہ بنایا، اس عورت نے اجازت دیدی تو نکاح باطل ہے اسی طرح کسی کو تم گواہ رہو میں نے فلاں عورت کو فلاں مرد سے بیاہ دیا کا حکم:
ومن قال اشھدوا انی قد تزوجت فلانۃ فبلغھا الخبر فاجازت فھو باطل و ان قال آخر اشھدوا انی زوجتھا منہ فبلغھا الخبر فاجازت جازو کذلک ان کانت المراۃ ھی التی قالت جمیع ذلک و ھذا عند ابی حنیفۃ و محمد و قال ابو یوسف اذا زوجت نفسھا غائبا فبلغہ فاجاز جازو حاصل ھذا ان الواحد لا یصلح فضولیا من الجانبینن او فضولیا من جانب و اصیلا من جانب عندھما خلافالہ
ترجمہ:
اور جس نے کہا کہ گواہ رہو تم میں نے فلاں عورت سے نکاح کرلیا پھر اس عورت کو خبر پہنچی۔ پس اگر جائز قراردیدیا تو باطل ہے اور اگر اس مجلس میں دوسرے نے کہا کہ تم گواہ رہو کہ میں نے اس عورت کو اس فلاں مرد سے بیاہ دیا۔ پھر اس عورت کوخبر پہنچی اور اجازت دیدی تو نکاح جائز ہوگا اور ویسے ہی اگر یہ سب عورت نے کہا اور یہ سب امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک ہے اور ابو یوسف نے کہا کہ جب عورت نے اپنا نکاح مردغائب سے کیا پھر اس مرد کوخبر پہنچی۔ اور نکاح جائز کر دیا تو جائز ہے۔ اور حاصل اس کا یہ ہے کہ ایک آدمی جانبین سے فضولی بننے کی یا ایک جانب سے فضولی اور ایک جانب سے اصیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے طرفین کے نزدیک ابو یوسف کا اس میں اختلاف ہے۔
تشریح:
صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص نے دو آدمیوں کو گواہ بنا کر کہا کہ میں نے فلاں عورت سے نکاح کر دیا لیکن اس جنس میں عورت کی جانب سے کسی نے قبول نہیں کیا اس کے بعد عورت کو اس نکاح کی خبر ملی عورت نے اجازت دیدی تو طرفین کے نزدیک یہ نکاح باطل ہے۔ اور ابو یوسف کے نزدیک جائز ہے اور اگر اسی مجلس میں دوسرے نے کہہ دیا کہ تم گواہ رہو میں نے اس عورت کو اس مرد کے نکاح میں دید یا یوں کہا کہ میں نے اس عورت کی طرف سے قبول کیا پھر اس عورت کو نکاح کی اطلاع ملی اور اس نے نکاح کو جائز قرار دیدیا تو یہ نکاح جائز ہوگا۔ ان دونوں مسئلوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے مسئلہ میں مجیز نہیں لہذا نکاح باطل ہو گا اور موقوف نہیں ہوگا۔ اور دوسرے مسئلہ میں مجیز موجود ہے لہذا موقوف رہے گا۔ کیونکہ نکاح فضولی کے موقوفا منعقد ہونے کی شرط یہ ہے کہ مجلس عقد میں مجیز موجود ہو اور یہی حکم اس وقت ہے جبکہ یہ سارا کلام عورت نے کیا لیکن عورت نے کہا کہ تم گواہ رہو کہ میں نے اپنے آپ کو فلاں ابن فلاں کے نکاح میں دیدیا۔ پس اگر مجلس میں مرد کی جانب سے کسی نے قبول نہ کیا اور مرد کو خبر پہنچی اس نے اجازت دیدی تو طرفین کے نزدیک باطل اور ابو یوسف کے نزدیک جائز ہے۔ اور اگرکسی نے مجلس ایجاب میں مردغائب کی جانب سے قبول کر لیا پھرخبر ملنے پرمرد نے اجازت دیدی تو نکاح جائز ہوگا۔
حاصل کلام:
حاصل کلام یہ ہے کہ ایک آدمی ایک جانب سے اصیل اور دوسری جانب سے فضولی یا دونوں جانب سے فضولی یا ایک جانب سے فضولی اور دوسری جانب سے ولی یا ایک جانب سے فضولی اور دوسری جانب سے وکیل بننے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں ۔ ابو یوسف کے نزدیک صلاحیت رکھتا ہے چنانچہ ان کے نزدیک نکاح منعقد ہو جائے گا البتہ اجازت پر موقوف رہے گا اور طرفین کے نزدیک صلاحیت نہیں رکھتا لہذا نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ ہمارے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک آدمی ایک جانب سے وکیل اور دوسری جانب سے اصیل یا ایک جانب سے ولی اور دوسری جانب سے اصیل یا ایک جانب سے ولی اور دوسری جانب سے وکیل یا دونوں جانب سے وکیل بن سکتا ہے اور رہا یہ کہ ایک آدمی کا دونوں جانب سے اصیل بننا سو یہ امر محال ہے۔
عقد نکاح دو فضولیوں یا ایک فضولی اور ایک اصیل کے درمیان بالاجماع جائز ہے:
ولوجرى العقد بين الفضولين او بين الفضولی والاصيل جاز بالاجماع هويقول لو كان مامور امن الجانبين ینفذ فاذا كان فضوليا يتوقف وصار كالخلع والطلاق والاعتاق علی مال ولهما ان الموجود شطر العقدلانه شطرحالة الحضرة فكذا عند الغيبة و شطر العقد لايتوقف على ما وراء المجلس كما في البيع بخلاف المامور من الجانبين لانه ينتقل كلامه الى العاقدين وماجرى بين الفضوليين عقد تام و كذا الخلع اختاه لانه تصرف يمين من جانبه حتى يلزم فيتم به
ترجمہ:
اور اگر عقد جاری ہوا دو فضولیوں کے درمیان یا ایک فضولی اور ایک اصیل کے درمیان بالاتفاق جائز ہے۔ ابو یوسف فرماتے ہیں کہ اگر یہ شخص مامورمن الجانبین ( وکیل ) ہوتا تو نافذ کیا جاتا۔ پس فضولی ہے تو موقوف رہے گا اور ایسا ہو گیا جیسا کہ خلع، طلاق اوراعتاق علی المال اور طرفین کی دلیل یہ ہے کہ موجود جزو عقد ہے اس لئے کہ وہ جز ہے موجودگی کی حالت میں۔ پس ایسا ہی عدم موجودگی میں اور جز عقد ماورا مجلس پر موقوف نہیں رہتا جیسا کہ بیع میں۔ بخلاف مامور من الجانبین کے۔ اس لئے کہ اس کا کلام منتقل ہوگا عاقدین کی طرف اور جو دو فضولیوں کے درمیان جاری ہوا وہ عقد تام ہے اور ایسے ہی خلع اور اس کی دونوں نظیریں۔ اس لئے کہ یہ تصرف یمین ہے مرد کی جانب سے یہاں تک کہ لازم ہوگا اور حالف کے ساتھ پورا ہو جائے گا۔
تشریح:
پہلے بیان کیا گیا تھا کہ طرفین کے نزدیک آ دمی جانیبن سے فضولی نہیں بن سکتا ہے۔ البتہ ابو یوسف کے نزدیک ایک آدمی جانبین سے فضولی بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس جگہ بیان کیا کہ اگر عقد نکاح دوفضولیوں یا ایک فضولی اور ایک اصیل کے درمیان جاری ہوا بالاتفاق جائز ہے۔ مسئلہ سابق میں ابو یوسف کی دلیل یہ ہے کہ اگر یہ شخص دونوں جانب سے وکیل ہوتا تو نکاح نافذ ہو جاتا۔ پس اگر فضولی ہے تو نکاح موقوف رہے گا۔ لہذا ایک ہی شخص دونوں جانب سے فضولی ہوسکتا ہے اور یہ خلع طلاق کے مانند ہو گیا ۔ مثلا شوہر نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی سے ہزار روپیہ پر خلع کیا۔ اور بیوی موجود نہیں پھر اسکو خبر ملی بیوی نے قبول کرلیا تو یہ بالاتفاق جائز ہے۔ جس طرح یہاں صیغہ واحدہ سے عقد خلع درست ہو گیا اسی طرح فضولی واحد کے کلام سے بھی عقد نکاح درست ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر شوہر نے کہا کہ میں نے اتنی مقدار پر طلاق دی یا مولی نے کہا کہ میں نے اتنی مقدار پر آزاد کیا۔ پھر بیوی اور غلام کوخبر پہنچی اور جس مجلس میں خبر ملی اسی میں قبول کرلیا تو بالا تفاق جائز ہے۔ پس اسی طرح عقد نکاح میں ہونا چاہئے کہ اجازت پر موقوف رہے۔ حاصل یہ کہ فضولی من الجانبين کوخلع طلاق اور اعتاق پر قیاس کیا ہے اور جامع ان میں سے ہر ایک کا ایجاب وقبول کا محتاج ہونا ہے۔
ایک آدمی نے دوسرے کو ایک عورت سے نکاح کرانے کا حکم دیا اس نے ایک عقد میں دو عورتوں سے نکاح کرا دیا، کوئی نکاح بھی لازم نہیں ہو گا:
ومن امر رجلا ان یزوجہ امراۃ فزوجہ انثتین فی عقدۃ ہم تلزمہ واحدۃ منھما لانہ لا وجہ الی تنفیذ ھما للمخالفۃ ولا الی التنفیذ فی احدھما غیر عین للجھالۃ ولا الی التعیین لعدم الاولویۃ فتعین التفریق
ترجمہ:
اور جس شخص نے کسی مرد کو حکم دیا کہ نکاح کردے اس کا کسی عورت سے۔ پس نکاح کیا اس کا دو عورتوں سے ایک عقد میں تو نہیں لازم ہو گا اس کو ان دونوں میں سے کسی کا نکاح۔ اس لیے کہ کوئی وجہ نہیں ان دونوں کے نکاح کو نافذ کرنے کی مخالفت کی وجہ سے اور نہ کوئی وجہ ہے ان دونوں میں سے ایک غیر معین میں نافذ کرنے کی جہالت کی وجہ سے اور نہ کوئی وجہ ہے متعین کرنے کی عدم ادلویت کی وجہ سے پس تفریق متعین ہو گی۔
تشریح:
صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک آدمی نے کسی کو وکیل بنایا کہ میرا ایک عورت سے نکاح کر دے وکیل نے عقد واحد میں دو عورتوں سے نکاح کر دیا ان دونوں میں سے کسی کا نکاح لازم نہیں ہو گا۔ کیونکہ تین صورتیں ہیں ایک یہ کہ دونوں میں عقد کو نافذ کر دیا جائے۔ دوم یہ کہ ایک غیر معین میں نافذ کر دیا جائے۔ سوم یہ کہ ایک کو متعین کر کے نافذ کر دیا جائے۔ لیکن یہ تینوں صورتیں ممکن نہیں۔ اول تو اس لیے کہ دونوں کے نکاح کو نافذ کرنے میں مؤکل کی مخالفت ہے۔ دوم اس لیے ممکن نہیں کہ غیر معین میں نافذ کرنے کی صورت میں جہالت ہے اور مجہولہ میں نکاح معلق ہو گا شرط بیان پر اور ملک نکاح کو معلق کرنا جائز ہی نہیں۔ سوم اس لیے ممکن نہیں کہ ایک کو متعین کرنے میں ترجیح بلامر جح لازم آئے گی۔ جب تینوں صورتیں ممکن نہیں تو تفریق متعین ہے۔
عقد فضولی سے مراد ایسا عقد ہے جس کو ایک شخص دوسرے کی طرف سے بغیر اس کے علم میں لائے منعقد کیا جائے۔ مثال کے طور پرکوئی شخص ایک چیز کے مالک کی اجازت کے بغیر اس کی چیز کو فروخت کر دے۔
کسی عورت کے ساتھ نکاح کرنے پر کسی کو گواہ بنایا، اس عورت نے اجازت دیدی تو نکاح باطل ہے اسی طرح کسی کو تم گواہ رہو میں نے فلاں عورت کو فلاں مرد سے بیاہ دیا کا حکم:
ومن قال اشھدوا انی قد تزوجت فلانۃ فبلغھا الخبر فاجازت فھو باطل و ان قال آخر اشھدوا انی زوجتھا منہ فبلغھا الخبر فاجازت جازو کذلک ان کانت المراۃ ھی التی قالت جمیع ذلک و ھذا عند ابی حنیفۃ و محمد و قال ابو یوسف اذا زوجت نفسھا غائبا فبلغہ فاجاز جازو حاصل ھذا ان الواحد لا یصلح فضولیا من الجانبینن او فضولیا من جانب و اصیلا من جانب عندھما خلافالہ
ترجمہ:
اور جس نے کہا کہ گواہ رہو تم میں نے فلاں عورت سے نکاح کرلیا پھر اس عورت کو خبر پہنچی۔ پس اگر جائز قراردیدیا تو باطل ہے اور اگر اس مجلس میں دوسرے نے کہا کہ تم گواہ رہو کہ میں نے اس عورت کو اس فلاں مرد سے بیاہ دیا۔ پھر اس عورت کوخبر پہنچی اور اجازت دیدی تو نکاح جائز ہوگا اور ویسے ہی اگر یہ سب عورت نے کہا اور یہ سب امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک ہے اور ابو یوسف نے کہا کہ جب عورت نے اپنا نکاح مردغائب سے کیا پھر اس مرد کوخبر پہنچی۔ اور نکاح جائز کر دیا تو جائز ہے۔ اور حاصل اس کا یہ ہے کہ ایک آدمی جانبین سے فضولی بننے کی یا ایک جانب سے فضولی اور ایک جانب سے اصیل بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا ہے طرفین کے نزدیک ابو یوسف کا اس میں اختلاف ہے۔
تشریح:
صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک شخص نے دو آدمیوں کو گواہ بنا کر کہا کہ میں نے فلاں عورت سے نکاح کر دیا لیکن اس جنس میں عورت کی جانب سے کسی نے قبول نہیں کیا اس کے بعد عورت کو اس نکاح کی خبر ملی عورت نے اجازت دیدی تو طرفین کے نزدیک یہ نکاح باطل ہے۔ اور ابو یوسف کے نزدیک جائز ہے اور اگر اسی مجلس میں دوسرے نے کہہ دیا کہ تم گواہ رہو میں نے اس عورت کو اس مرد کے نکاح میں دید یا یوں کہا کہ میں نے اس عورت کی طرف سے قبول کیا پھر اس عورت کو نکاح کی اطلاع ملی اور اس نے نکاح کو جائز قرار دیدیا تو یہ نکاح جائز ہوگا۔ ان دونوں مسئلوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے مسئلہ میں مجیز نہیں لہذا نکاح باطل ہو گا اور موقوف نہیں ہوگا۔ اور دوسرے مسئلہ میں مجیز موجود ہے لہذا موقوف رہے گا۔ کیونکہ نکاح فضولی کے موقوفا منعقد ہونے کی شرط یہ ہے کہ مجلس عقد میں مجیز موجود ہو اور یہی حکم اس وقت ہے جبکہ یہ سارا کلام عورت نے کیا لیکن عورت نے کہا کہ تم گواہ رہو کہ میں نے اپنے آپ کو فلاں ابن فلاں کے نکاح میں دیدیا۔ پس اگر مجلس میں مرد کی جانب سے کسی نے قبول نہ کیا اور مرد کو خبر پہنچی اس نے اجازت دیدی تو طرفین کے نزدیک باطل اور ابو یوسف کے نزدیک جائز ہے۔ اور اگرکسی نے مجلس ایجاب میں مردغائب کی جانب سے قبول کر لیا پھرخبر ملنے پرمرد نے اجازت دیدی تو نکاح جائز ہوگا۔
حاصل کلام:
حاصل کلام یہ ہے کہ ایک آدمی ایک جانب سے اصیل اور دوسری جانب سے فضولی یا دونوں جانب سے فضولی یا ایک جانب سے فضولی اور دوسری جانب سے ولی یا ایک جانب سے فضولی اور دوسری جانب سے وکیل بننے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں ۔ ابو یوسف کے نزدیک صلاحیت رکھتا ہے چنانچہ ان کے نزدیک نکاح منعقد ہو جائے گا البتہ اجازت پر موقوف رہے گا اور طرفین کے نزدیک صلاحیت نہیں رکھتا لہذا نکاح منعقد نہیں ہوگا۔ ہمارے علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ ایک آدمی ایک جانب سے وکیل اور دوسری جانب سے اصیل یا ایک جانب سے ولی اور دوسری جانب سے اصیل یا ایک جانب سے ولی اور دوسری جانب سے وکیل یا دونوں جانب سے وکیل بن سکتا ہے اور رہا یہ کہ ایک آدمی کا دونوں جانب سے اصیل بننا سو یہ امر محال ہے۔
عقد نکاح دو فضولیوں یا ایک فضولی اور ایک اصیل کے درمیان بالاجماع جائز ہے:
ولوجرى العقد بين الفضولين او بين الفضولی والاصيل جاز بالاجماع هويقول لو كان مامور امن الجانبين ینفذ فاذا كان فضوليا يتوقف وصار كالخلع والطلاق والاعتاق علی مال ولهما ان الموجود شطر العقدلانه شطرحالة الحضرة فكذا عند الغيبة و شطر العقد لايتوقف على ما وراء المجلس كما في البيع بخلاف المامور من الجانبين لانه ينتقل كلامه الى العاقدين وماجرى بين الفضوليين عقد تام و كذا الخلع اختاه لانه تصرف يمين من جانبه حتى يلزم فيتم به
ترجمہ:
اور اگر عقد جاری ہوا دو فضولیوں کے درمیان یا ایک فضولی اور ایک اصیل کے درمیان بالاتفاق جائز ہے۔ ابو یوسف فرماتے ہیں کہ اگر یہ شخص مامورمن الجانبین ( وکیل ) ہوتا تو نافذ کیا جاتا۔ پس فضولی ہے تو موقوف رہے گا اور ایسا ہو گیا جیسا کہ خلع، طلاق اوراعتاق علی المال اور طرفین کی دلیل یہ ہے کہ موجود جزو عقد ہے اس لئے کہ وہ جز ہے موجودگی کی حالت میں۔ پس ایسا ہی عدم موجودگی میں اور جز عقد ماورا مجلس پر موقوف نہیں رہتا جیسا کہ بیع میں۔ بخلاف مامور من الجانبین کے۔ اس لئے کہ اس کا کلام منتقل ہوگا عاقدین کی طرف اور جو دو فضولیوں کے درمیان جاری ہوا وہ عقد تام ہے اور ایسے ہی خلع اور اس کی دونوں نظیریں۔ اس لئے کہ یہ تصرف یمین ہے مرد کی جانب سے یہاں تک کہ لازم ہوگا اور حالف کے ساتھ پورا ہو جائے گا۔
تشریح:
پہلے بیان کیا گیا تھا کہ طرفین کے نزدیک آ دمی جانیبن سے فضولی نہیں بن سکتا ہے۔ البتہ ابو یوسف کے نزدیک ایک آدمی جانبین سے فضولی بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس جگہ بیان کیا کہ اگر عقد نکاح دوفضولیوں یا ایک فضولی اور ایک اصیل کے درمیان جاری ہوا بالاتفاق جائز ہے۔ مسئلہ سابق میں ابو یوسف کی دلیل یہ ہے کہ اگر یہ شخص دونوں جانب سے وکیل ہوتا تو نکاح نافذ ہو جاتا۔ پس اگر فضولی ہے تو نکاح موقوف رہے گا۔ لہذا ایک ہی شخص دونوں جانب سے فضولی ہوسکتا ہے اور یہ خلع طلاق کے مانند ہو گیا ۔ مثلا شوہر نے کہا کہ میں نے اپنی بیوی سے ہزار روپیہ پر خلع کیا۔ اور بیوی موجود نہیں پھر اسکو خبر ملی بیوی نے قبول کرلیا تو یہ بالاتفاق جائز ہے۔ جس طرح یہاں صیغہ واحدہ سے عقد خلع درست ہو گیا اسی طرح فضولی واحد کے کلام سے بھی عقد نکاح درست ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر شوہر نے کہا کہ میں نے اتنی مقدار پر طلاق دی یا مولی نے کہا کہ میں نے اتنی مقدار پر آزاد کیا۔ پھر بیوی اور غلام کوخبر پہنچی اور جس مجلس میں خبر ملی اسی میں قبول کرلیا تو بالا تفاق جائز ہے۔ پس اسی طرح عقد نکاح میں ہونا چاہئے کہ اجازت پر موقوف رہے۔ حاصل یہ کہ فضولی من الجانبين کوخلع طلاق اور اعتاق پر قیاس کیا ہے اور جامع ان میں سے ہر ایک کا ایجاب وقبول کا محتاج ہونا ہے۔
ایک آدمی نے دوسرے کو ایک عورت سے نکاح کرانے کا حکم دیا اس نے ایک عقد میں دو عورتوں سے نکاح کرا دیا، کوئی نکاح بھی لازم نہیں ہو گا:
ومن امر رجلا ان یزوجہ امراۃ فزوجہ انثتین فی عقدۃ ہم تلزمہ واحدۃ منھما لانہ لا وجہ الی تنفیذ ھما للمخالفۃ ولا الی التنفیذ فی احدھما غیر عین للجھالۃ ولا الی التعیین لعدم الاولویۃ فتعین التفریق
ترجمہ:
اور جس شخص نے کسی مرد کو حکم دیا کہ نکاح کردے اس کا کسی عورت سے۔ پس نکاح کیا اس کا دو عورتوں سے ایک عقد میں تو نہیں لازم ہو گا اس کو ان دونوں میں سے کسی کا نکاح۔ اس لیے کہ کوئی وجہ نہیں ان دونوں کے نکاح کو نافذ کرنے کی مخالفت کی وجہ سے اور نہ کوئی وجہ ہے ان دونوں میں سے ایک غیر معین میں نافذ کرنے کی جہالت کی وجہ سے اور نہ کوئی وجہ ہے متعین کرنے کی عدم ادلویت کی وجہ سے پس تفریق متعین ہو گی۔
تشریح:
صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک آدمی نے کسی کو وکیل بنایا کہ میرا ایک عورت سے نکاح کر دے وکیل نے عقد واحد میں دو عورتوں سے نکاح کر دیا ان دونوں میں سے کسی کا نکاح لازم نہیں ہو گا۔ کیونکہ تین صورتیں ہیں ایک یہ کہ دونوں میں عقد کو نافذ کر دیا جائے۔ دوم یہ کہ ایک غیر معین میں نافذ کر دیا جائے۔ سوم یہ کہ ایک کو متعین کر کے نافذ کر دیا جائے۔ لیکن یہ تینوں صورتیں ممکن نہیں۔ اول تو اس لیے کہ دونوں کے نکاح کو نافذ کرنے میں مؤکل کی مخالفت ہے۔ دوم اس لیے ممکن نہیں کہ غیر معین میں نافذ کرنے کی صورت میں جہالت ہے اور مجہولہ میں نکاح معلق ہو گا شرط بیان پر اور ملک نکاح کو معلق کرنا جائز ہی نہیں۔ سوم اس لیے ممکن نہیں کہ ایک کو متعین کرنے میں ترجیح بلامر جح لازم آئے گی۔ جب تینوں صورتیں ممکن نہیں تو تفریق متعین ہے۔