نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوگی یا نہیں

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
نشہ کی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوگی یا نہیں:

وطلاق السكران واقع و اختيار الكرخي و الطحاوى انه لايقع وهو احد قولي الشافعى لأن صحة القصد بالعقل وهوزائل العقل فصار کزواله بالبنج والدواء ولنا انه زال بسبب هو معصية فجعل باقيا حكما زجراله حتى لو شرب فصدع وزال عقله بالصداع نقول انه لايقع طلاقه

ترجمہ:

اور نشے میں مست آدمی کی طلاق واقع ہے۔ اور امام کرخی اور امام طحاوی کا پسندیده (مذہب ) یہ ہے کہ واقع نہیں ہوگی ۔ اور یہ امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک ہے۔ اس لیے کہ ارادہ کا صحیح ہونا عقل کے ساتھ ہے اور وہ زائل العقل ہے۔ پس ایسا ہو گیا جیسا کہ اس کا زائل ہونا (بھنگ) یا دوا سے۔ اور ہماری دلیل یہ ہے کہ اس کی عقل ایسے سبب سے زائل ہوئی جو معصیت ہے۔ پس اس کو زجر کر نے کیلئے حکما باقی قراردیا گیا حتی کہ اگر اسے (شراب) پی لی۔ پھر دردسر ہوگیا اور درد سر کی وجہ سے اس کی عقل زائل ہوگئی تو ہم کہتے ہیں کہ اس کی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

دلیل:

انتہائی نشے کی حالت میں اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دیدے تو طلاق واقع ہو گی۔ امام کرخی، امام طحاوی کے نزدیک یہ صحیح ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ شخص زائل العقل ہے اس لیے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ صاحب ہدایہ کی دلیل یہ ہے کہ اس شخص کی عقل ایسے سبب سے زائل ہوئی جو معصیت اور گناہ ہے مثلا شراب سے اس لیے اس شخص کو زجر و توبیخ کرنے کے لیے اس کی عقل کو حکما باقی قرار دیا گیا ہے۔ پس جب حکما اس کی عقل باقی ہے تو اس کا طلاق کا ارادہ کرنا بھی صحیح ہو گا۔
 
Top