تاریخ

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
تاریخ:

علم تاریخ اصطلاحا اس علم کو کہتے ہیں جس کے ذریعہ سے بادشاہوں، نبیوں، فاتحوں اور مشہور شخصوں کے حالات اور گزرے ہوئے مختلف زمانوں کے عظیم الشان واقعات و مراسم وغیرہ معلوم ہو سکیں اور جو زمانہ گزشتہ کی معاشرت، اخلاق، تمدن وغیرہ سے واقف ہونے کا ذریعہ بن سکے۔ بعض اشخاص نے تاریخ کی تعریف ان الفاظ میں بیان کی ہے کہ انسانوں کے یکجا ہو کر رہنے کو تمدن اور اس انسانی مجمع کو مدینہ اور ان مختلف حالتوں کو جو طبعا اس کو عارض ہوں۔ واقعات تاریخ اور پچھلوں کو پہلوں سے سن کر ان واقعات کو اکٹھا کرنے اور اپنے سے پیچھے آنے والوں کی عبرت اور نصیحت کے لیے بطور نمونہ چھوڑ جانے کو تاریخ کہتے ہیں۔

بعض کہتے ہیں کہ تاخیر کے جزو آخر کو مقلوب کر کے لفظ تاریخ بنایا گیا ہے اور تاخیر کے معانی ہیں اولین وقت کو آخر میں وقت کے ساتھ نسبت دینا، مثلا یہ بتلانا کہ فلاں مذہب یا فلاں سلطنت یا فلاں معرکہ فلاں وقت میں ظاہر ہوا تھا۔ جو واقعات خاص اس وقت میں ظہور پذیر ہوئے، ان سب کو معلوم کرنے کا مبداء یہی وقت ہوتاہے۔ غرض اسی طرح تاریخ کی تعریف بیان کرنے میں بڑی بڑی موشگافیاں کی گئی ہیں۔

ماخذ تاریخ:

تاریخ کے عموما تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ جو درج ذیل ہیں:

آثار مضبوطہ: اس سے مراد تمام لکھی ہوئی چیزیں ہیں۔ مثلا کتابیں، یادداشتیں، دفتروں کے کاغذ، پروانے، فیصلے، دستاویز اور احکام وغیرہ۔

آثار منقولہ: اس سے مراد زبان زد باتیں ہیں۔ مثلا کہانیاں، نظمیں، ضرب الامثال وغیرہ۔

آثار قدیمہ: اس سے مراد پرانے زمانے کی نشانیاں ہیں۔ مثلا شہروں کے خرابے، قلعے، مکانات، عمارتوں کے کتبے، پتھروں کی تصویریں، پرانے زمانے کے ہتھیار، سکے اور برتن وغیرہ۔

اقسام تاریخ:

مختلف اعتبارات سے تاریخ کی بہت سی قسمیں ہو سکتی ہیں۔ مثلا باعتبار کمیت دو قسمیں عام اور خاص ہوسکتی ہیں۔ عام تاریخ وہ ہے جس میں ساری دنیا کے آدمیوں کا حال بیان کیا جائے۔ خاص وہ جس میں کسی ایک قوم یا ایک ملک یا ایک خاندان کی سلطنت کا حال بیان کیا جائے۔

باعتبار کیفیت تاریخ کی دو قسمیں، روایتی اور درایتی ہیں۔ روایتی تاریخ وہ ہوتی ہے جس میں راوی کا بیان اس کے مشاہدہ کی بنا پر درج کیا گیا ہو اور اس واقع کے وقوع پذیر ہونے کے متعلق قابل قبول اور تسکین بخش روایتیں مؤرخ کو حاصل ہوگئی ہوں یا مؤرخ نے براہ راست اس واقعہ کو خود مشاہدہ کیا ہو۔ ایسی تاریخیں سب سے زیادہ مفید اور قابل قدر سمجھی جاتی ہیں اور ان میں قیاس کے گھوڑے دوڑانے اور موہوم باتوں کو حقیقت کا جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کرنی پڑتی۔ بلکہ ان تاریخوں سے فہم و عقل اگر غلطی کرے تو اس کی اصلاح ہو جاتی ہے۔ درایتی تاریخ اس تاریخ کو کہتے ہیں محض آثار قدیمہ و آ ثار منقولہ اور عقلی ڈھکوسلوں کے ذریعہ سے ترتیب دی گئی ہو اور ہمیں عہد مؤرخ یا ہم عہد راوی کا بیان اس کے متعلق مطلق دستیاب نہ ہو سکتا ہو جیسے کہ قدیم مصر، قدیم عراق، قدیم ایران کی تاریخیں آج کل لکھی گئی ہیں۔ ان تاریخوں کے بھی بہت کچھ فائدے حاصل ہو سکتے ہیں، لیکن یقینی علم کسی طرح میسر نہیں ہوسکتا۔

تاریخی زمانے:

بعض مؤرخین نے تاریخ کو تین زمانون پر تقسیم کیا ہے۔

1) قرون اولی: اس میں ابتدائے عالم سے سلطنت روما کے آخر تک کا زمانہ شامل ہے۔

2) قرون وسطی: اس میں سلطنت روما کے آخر زمانہ سے قسطنطنیہ کی فتح کا زمانہ جب یہ شہر سلطان محمد ثانی عثمانی کے ہاتھ فتح ہوا شامل ہے۔

3) قرون متاخرہ: اس میں سب سے آخر میں پیش آنے والے حالات ہیں۔

اسلامی تاریخ:

دنیا کی تمام قوموں اور تمام مذہبوں میں صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے اور مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے جس کی تاریخ شروع سے لے کر اخیر تک بتمامہ مکمل حالت میں محفوظ و موجود ہے اور اس کے کسی حصے اور کسی زمانے کی نسبت شک و شبہ کو کوئی دخل نہیں مل سکتا۔ مسلمانوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک مسلمانوں پر گزرنے والے حالات و واقعات کے قلم بند کرنے اور بذریعہ تحریر محفوظ کرنے میں مطلق کوتاہی اور غفلت سے کام نہیں لیا۔ مسلمانوں کو درست طور پر فخر ہے کہ وہ اسلام کی مکمل تاریخ ہم عہد مؤرخین اور عینی مشاہدوں کے بیان سے مرتب کر سکتے ہیں اور پھر ہم عہد مؤرخین اور مستند ثقہ راویوں کے بیانات میں تواتر کا درجہ بھی دکھا سکتے ہیں۔

غرض کہ صرف مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے جو اپنی مستند اور مکمل تاریخ رکھتی ہے اور دنیا کی کوئی ایک قوم بھی ایسی نہیں جو اس خصوصیت میں مسلمانوں کی شریک بن سکے۔ مؤرخین اسلام نے یہاں تک احتیاط ملحوظ رکھی ہے کہ ہر ایک واقعہ اور ہر ایک کیفیت کو جوں کا توں بیان کر دیا اور اپنی رائے مطلق نہیں لکھی کیوں کہ اس طرح اندیشہ تھا کہ مؤرخ کا خیال یا مؤرخ کی خواہش تاریخ کا مطالعہ کرنے والے کو متاثر کرے اور واقعہ کا حقیقی اثر اپنی آزادی زائل کر دے اور مطالعہ کرنے والا مورخ کے مخصوص خیال کا مقلد ہو جائے۔ اسلامی تاریخ کی عظمت و ہیبت اس وقت اور بھی قلب پر طاری ہو جاتی ہے جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسلامی تاریخ کے جس حصہ کو چاہیں اصول درایت پر پرکھ لیں اور علوم عقلیہ کی کسوٹی پر کس لیں۔ کوئی کھوٹ، کوئی نقص، کوئی سقم کسی جگہ نظر نہیں آ سکتا۔ (تاریخ اسلام)
 
Top