حضرت علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے ایک رکن تھے اور درس گاہ نبوت ہی مین ان کی تربیت ہوئی اس لیے کمالات علمی میں آپ کا پایہ بہت بلند ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا علی رضی اللہ عنہ سے کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور عمر رضی اللہ عنہ نے (علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک ان سے راضی تھے۔
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر بیان فرمایا کہ کل میں ایک ایسے شخص کو اسلامی عَلم دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا، راوی نے بیان کیا کہ رات کو لوگ یہ سوچتے رہے کہ دیکھئیے عَلم کسے ملتا ہے، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سب حضرات (جو سرکردہ تھے) حاضر ہوئے، سب کو امید تھی کہ عَلم انہیں ہی ملے گا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ان کی آنکھوں میں درد ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان کے یہاں کسی کو بھیج کر بلوا لو، جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ میں اپنا تھوک ڈالا اور ان کے لیے دعا فرمائی، اس سے انہیں ایسی شفاء حاصل ہوئی جیسے کوئی مرض پہلے تھا ہی نہیں، چنانچہ آپ نے عَلم انہیں کو عنایت فرمایا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ان سے اتنا لڑوں گا کہ وہ ہمارے جیسے ہو جائیں (یعنی مسلمان بن جائیں) آپ نے فرمایا: ابھی یوں ہی چلتے رہو، جب ان کے میدان میں اترو تو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ کے ان پر کیا حقوق واجب ہیں، اللہ کی قسم اگر تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بھی ہدایت دیدے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں (کی دولت) سے بہتر ہے۔
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ ایک شخص سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے یہاں آیا اور کہا کہ یہ فلاں شخص اس کا اشارہ امیر مدینہ (مروان بن حکم) کی طرف تھا، برسر منبر علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا ہے، ابوحازم نے بیان کیا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا کہتا ہے؟ اس نے بتایا کہ انہیں ”ابوتراب“ کہتا ہے، اس پر سہل ہنسنے لگے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! یہ نام تو ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا اور خود علی رضی اللہ عنہ کو اس نام سے زیادہ اپنے لیے اور کوئی نام پسند نہیں تھا۔ یہ سن کر میں نے اس حدیث کے جاننے کے لیے سہل رضی اللہ عنہ سے خواہش ظاہر کی اور عرض کیا: اے ابوعباس! یہ واقعہ کس طرح سے ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آئے اور پھر باہر آ کر مسجد میں لیٹ رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) دریافت فرمایا، تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، دیکھا تو ان کی چادر پیٹھ سے نیچے گر گئی ہے اور ان کی کمر پر اچھی طرح سے خاک لگ چکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی ان کی کمر سے صاف فرمانے لگے اور بولے، اٹھو اے ابوتراب اٹھو! (دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)۔
ہم سے محمد بن رافع نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین نے، ان سے زائدۃ نے، ان سے ابوحصین نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا کہ ایک شخص عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں آیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کے محاسن کا ذکر کیا، پھر کہا کہ شاید یہ باتیں تمہیں بری لگی ہوں گی، اس نے کہا جی ہاں، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے پھر اس نے علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا، انہوں نے ان کے بھی محاسن ذکر کئے اور کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کا گھرانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا نہایت عمدہ گھرانہ ہے، پھر کہا شاید یہ باتیں بھی تمہیں بری لگی ہوں گی، اس نے کہا کہ جی ہاں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے، جا، اور میرا جو بگاڑنا چاہے بگاڑ لینا، کچھ کمی نہ کرنا۔
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے، انہوں نے ابراہیم بن سعد سے سنا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے۔ (صحیح بخاری باب مناقب علی ابن ابی طالب)
ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي رضي الله عنه ، 5 / 642 الرقم: 3734)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ طائف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے نہیں کی بلکہ اﷲ نے خود ان سے سرگوشی کی ہے۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 639، الرقم: 3726)
حضرت امِ عطیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے تھے کہ یا اﷲ! مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں علی کو(واپس بخیرو عافیت) نہ دیکھ لوں۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي، 5 / 643، الرقم: 3737)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی اور مجھے دار الہجرہ لے کر آئے اور بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے یہ ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہو اسی لئے وہ اس حال میں ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے۔ اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 633، الرقم : 3713)
حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی رضی اللہ عنہ مجھ سے اور میں علی رضی اللہ عنہ سے ہوں اور میری طرف سے (عہد و پیمان میں) میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ داری) ادا نہیں کر سکتا۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636 الرقم: 3719)
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636، الرقم : 3720)
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا، جب وہ واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اللہ تعالیٰ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل تم سے راضی ہیں۔ (أخرجه الطبراني في المجعم الکبير، 1 / 319، الرقم : 946)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ناراضگی کے عالم میں ہوتے تو ہم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسی کو کلام کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ (الحاکم في المستدرک، 3 / 141، الرقم : 4647)
حضرت جمیع بن عمیر تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا پھر میں نے ان سے پوچھا : لوگوں میں کون حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھا؟ انہوں نے فرمایا : حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا پھر عرض کیا گیا اور مردوں میں سے کون سب سے زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا : اس کا خاوند اگرچہ مجھے ان کا زیادہ روزے رکھنا اور زیادہ قیام کرنا معلوم نہیں۔ (اخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الرقم : 3874)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی : یااﷲ! اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636، الرقم : 3721)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 633، الرقم : 3713)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا، وہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔ (أخرجه النسائي في السنن الکبري، 5 / 45، 130، الرقم : 8148، 8464)
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی اُسے میں ولایتِ علی کی وصیت کرتا ہوں، جس نے اُسے ولی جانا اُس نے مجھے ولی جانا اور جس نے مجھے ولی جانا اُس نے اللہ کو ولی جانا، اور جس نے علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ سے محبت کی، اور جس نے علی سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اُس نے اللہ سے بغض رکھا۔ (أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 429، الرقم : 1751)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد فرمایا : مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اورکوئی منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا۔ عدی بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے کے لوگوں میں سے ہوں جن کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب 5 / 643، الرقم : 3736)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس سردارِ عرب کو بلاؤ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک و سلم! کیا آپ عرب کے سردار نہیں؟ فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 134، الرقم : 4626)
حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : لوگ جدا جدا نسب سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ میں اور علی ایک ہی نسب سے ہیں۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 263، الرقم : 1651)
وقال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي:" انت مني وانا منك"، وقال عمر:" توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنه راض".
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا علی رضی اللہ عنہ سے کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں اور عمر رضی اللہ عنہ نے (علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک ان سے راضی تھے۔
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" لاعطين الراية غدا رجلا يفتح الله على يديه، قال: فبات الناس يدوكون ليلتهم ايهم يعطاها فلما اصبح الناس غدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم كلهم يرجو ان يعطاها، فقال: اين علي بن ابي طالب؟، فقالوا: يشتكي عينيه يا رسول الله، قال: فارسلوا إليه فاتوني به فلما جاء بصق في عينيه ودعا له , فبرا حتى كان لم يكن به وجع فاعطاه الراية، فقال علي: يا رسول الله اقاتلهم حتى يكونوا مثلنا، فقال:" انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم ثم ادعهم إلى الإسلام واخبرهم بما يجب عليهم من حق الله فيه , فوالله لان يهدي الله بك رجلا واحدا خير لك من ان يكون لك حمر النعم".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ خیبر کے موقع پر بیان فرمایا کہ کل میں ایک ایسے شخص کو اسلامی عَلم دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا، راوی نے بیان کیا کہ رات کو لوگ یہ سوچتے رہے کہ دیکھئیے عَلم کسے ملتا ہے، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سب حضرات (جو سرکردہ تھے) حاضر ہوئے، سب کو امید تھی کہ عَلم انہیں ہی ملے گا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ ان کی آنکھوں میں درد ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ان کے یہاں کسی کو بھیج کر بلوا لو، جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ میں اپنا تھوک ڈالا اور ان کے لیے دعا فرمائی، اس سے انہیں ایسی شفاء حاصل ہوئی جیسے کوئی مرض پہلے تھا ہی نہیں، چنانچہ آپ نے عَلم انہیں کو عنایت فرمایا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ان سے اتنا لڑوں گا کہ وہ ہمارے جیسے ہو جائیں (یعنی مسلمان بن جائیں) آپ نے فرمایا: ابھی یوں ہی چلتے رہو، جب ان کے میدان میں اترو تو پہلے انہیں اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اللہ کے ان پر کیا حقوق واجب ہیں، اللہ کی قسم اگر تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو بھی ہدایت دیدے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں (کی دولت) سے بہتر ہے۔
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم، عن ابيه ان رجلا جاء إلى سهل بن سعد، فقال: هذا فلان لامير المدينة يدعو عليا عند المنبر، قال: فيقول: ماذا؟ قال: يقول له ابو تراب فضحك، قال:" والله ما سماه إلا النبي صلى الله عليه وسلم وما كان له اسم احب إليه منه" , فاستطعمت الحديث سهلا، وقلت: يا ابا عباس كيف ذلك؟ قال: دخل علي على فاطمة ثم خرج فاضطجع في المسجد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اين ابن عمك؟، قالت: في المسجد فخرج إليه فوجد رداءه قد سقط عن ظهره وخلص التراب إلى ظهره فجعل يمسح التراب عن ظهره، فيقول:" اجلس يا ابا تراب مرتين".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ ایک شخص سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے یہاں آیا اور کہا کہ یہ فلاں شخص اس کا اشارہ امیر مدینہ (مروان بن حکم) کی طرف تھا، برسر منبر علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہتا ہے، ابوحازم نے بیان کیا کہ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا کہتا ہے؟ اس نے بتایا کہ انہیں ”ابوتراب“ کہتا ہے، اس پر سہل ہنسنے لگے اور فرمایا کہ اللہ کی قسم! یہ نام تو ان کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا اور خود علی رضی اللہ عنہ کو اس نام سے زیادہ اپنے لیے اور کوئی نام پسند نہیں تھا۔ یہ سن کر میں نے اس حدیث کے جاننے کے لیے سہل رضی اللہ عنہ سے خواہش ظاہر کی اور عرض کیا: اے ابوعباس! یہ واقعہ کس طرح سے ہے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے یہاں آئے اور پھر باہر آ کر مسجد میں لیٹ رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فاطمہ رضی اللہ عنہا سے) دریافت فرمایا، تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مسجد میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے، دیکھا تو ان کی چادر پیٹھ سے نیچے گر گئی ہے اور ان کی کمر پر اچھی طرح سے خاک لگ چکی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مٹی ان کی کمر سے صاف فرمانے لگے اور بولے، اٹھو اے ابوتراب اٹھو! (دو مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا)۔
حدثنا محمد بن رافع، حدثنا حسين، عن زائدة، عن ابي حصين، عن سعد بن عبيدة، قال: جاء رجل إلى ابن عمر فساله عن عثمان فذكر عن محاسن عمله، قال: لعل ذاك يسوءك، قال: نعم، قال: فارغم الله بانفك ثم ساله عن علي فذكر محاسن عمله، قال: هو ذاك بيته اوسط بيوت النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قال: لعل ذاك يسوءك، قال: اجل، قال: فارغم الله بانفك انطلق فاجهد علي جهدك".
ہم سے محمد بن رافع نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین نے، ان سے زائدۃ نے، ان سے ابوحصین نے، ان سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا کہ ایک شخص عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں آیا اور عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان کے محاسن کا ذکر کیا، پھر کہا کہ شاید یہ باتیں تمہیں بری لگی ہوں گی، اس نے کہا جی ہاں، ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے پھر اس نے علی رضی اللہ عنہ کے متعلق پوچھا، انہوں نے ان کے بھی محاسن ذکر کئے اور کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کا گھرانہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا نہایت عمدہ گھرانہ ہے، پھر کہا شاید یہ باتیں بھی تمہیں بری لگی ہوں گی، اس نے کہا کہ جی ہاں، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے اللہ تیری ناک خاک آلودہ کرے، جا، اور میرا جو بگاڑنا چاہے بگاڑ لینا، کچھ کمی نہ کرنا۔
حدثني محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن سعد، قال: سمعت إبراهيم بن سعد، عن ابيه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم لعلي:" اما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد نے، انہوں نے ابراہیم بن سعد سے سنا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لیے ہارون علیہ السلام تھے۔ (صحیح بخاری باب مناقب علی ابن ابی طالب)
عَنْ أَبِي حَمْزَة : رَجُلٍ مِنَ الْأنْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُوْلُ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ
ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ ایمان لائے۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي رضي الله عنه ، 5 / 642 الرقم: 3734)
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ فَانْتَجَاهُ، فَقَالَ النَّاسُ : لَقَدْ طَالَ نَجْوَاهُ مَعَ ابْنِ عَمِّهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَا انْتَجَيْتُهُ وَلَکِنَّ اﷲَ انْتَجَاهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ طائف کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے نہیں کی بلکہ اﷲ نے خود ان سے سرگوشی کی ہے۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 639، الرقم: 3726)
عَنْ أُمِّ عَطِيَة قَالَتْ : بَعَثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم جَيْشًا فِيْهِمْ عَلِيٌّ قَالَتْ : فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُوْلُ : اللَّهُمَّ، لَا تُمِتْنِي حَتَّي تُرِيَنِي عَلِيًّا
حضرت امِ عطیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تھے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے تھے کہ یا اﷲ! مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں علی کو(واپس بخیرو عافیت) نہ دیکھ لوں۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي، 5 / 643، الرقم: 3737)
عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلي الله عليه وآله وسلم : رَحِمَ اﷲُ أَبَا بَکْرٍ زَوَّجَنِي ابْنَتَهُ، وَ حَمَلَنِي إِلَي دَارِ الْهِجْرَة، وَ أَعْتَقَ بِلَالًا مِنْ مَالِهِ، رَحِمَ اﷲُ عُمَرَ، يَقُوْلُ الْحَقَّ وَ إِنْ کَانَ مُرًّا، تَرَکَهُ الْحَقُّ وَمَا لَهُ صَدِيْقٌ، رَحِمَ اﷲُ عُثْمَانَ، تَسْتَحِيْهِ الْمَلَائِکَة، رَحِمَ اﷲُ عَلِيًّا، اللَّهُمَّ، أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی اور مجھے دار الہجرہ لے کر آئے اور بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے یہ ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہو اسی لئے وہ اس حال میں ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے۔ اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 633، الرقم : 3713)
عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَة، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : عَلِيٌّ مِنِّي وَ أَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلا يُؤَدِّي عَنِّي إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ
حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی رضی اللہ عنہ مجھ سے اور میں علی رضی اللہ عنہ سے ہوں اور میری طرف سے (عہد و پیمان میں) میرے اور علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ داری) ادا نہیں کر سکتا۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636 الرقم: 3719)
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : آخَي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَجَاءَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاهُ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِکَ وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَ بَيْنَ أَحَدٍ. فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَنْتَ أَخِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَة
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ روتے ہوئے آئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636، الرقم : 3720)
عَنْ أبِي رَافِعٍ : أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ عَلِيًّا مَبْعَثًا فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ وَجِبْرِيْلُ عَنْکَ رَاضُوْنَ
حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک جگہ بھیجا، جب وہ واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اللہ تعالیٰ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل تم سے راضی ہیں۔ (أخرجه الطبراني في المجعم الکبير، 1 / 319، الرقم : 946)
عَنْ أُمِّ سَلَمَة قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ اِذَا غَضِبَ لَمْ يَجْتَرِئْ أحَدٌ مِنَّا أنْ يُکَلِّمَهُ إِلاَّ عَلِيٌّ
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ناراضگی کے عالم میں ہوتے تو ہم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسی کو کلام کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ (الحاکم في المستدرک، 3 / 141، الرقم : 4647)
عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرِ التَّمِيْمِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِي عَلَي عَائِشَة فَسَئَلْتُ : أَيُّ النَّاسِ کَانَ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَتْ : فَاطِمَة، فَقِيْلَ : مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ : زَوْجُهَا، إِنْ کَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّاماً قَوَّاما
حضرت جمیع بن عمیر تمیمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا پھر میں نے ان سے پوچھا : لوگوں میں کون حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھا؟ انہوں نے فرمایا : حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا پھر عرض کیا گیا اور مردوں میں سے کون سب سے زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا : اس کا خاوند اگرچہ مجھے ان کا زیادہ روزے رکھنا اور زیادہ قیام کرنا معلوم نہیں۔ (اخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الرقم : 3874)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ : کَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم طَيْرٌ فَقَالَ : اللَّهُمَّ، ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ هَذَا الطَّيْرَ، فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَکَلَ مَعَهُ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی : یااﷲ! اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636، الرقم : 3721)
عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 633، الرقم : 3713)
عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ رضي الله عنه قَالَ : لَمَّا رَجَعَ رَسُوْلُ اﷲِ. صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ حَجَّة الْوِدَاعِ وَ نَزَلَ غَدِيْرَ خُمٍّ، أمَرَ بِدَوْحَاتٍ، فَقُمْنَ، فَقَالَ : کَأنِّي قَدْ دُعِيْتُ فَأجَبْتُ. إِنِّي قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمُ الثَّقَلَيْنِ، أحَدُهُمَا أکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اﷲِ تَعَالَي، وَعِتْرَتِي، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخْلِفُوْنِي فِيْهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اﷲَ عزوجل مَوْلَايَ وَ أنَا مَوْلَي کَلِّ مُؤْمِنٍ. ثُمَّ أخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ : مَن کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا وَلِيُهُ، اللّهُمَّ، وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا، وہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔ (أخرجه النسائي في السنن الکبري، 5 / 45، 130، الرقم : 8148، 8464)
عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ رضي اﷲ عنه، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ. صلي الله عليه وآله وسلم : أُوْصِي مَنْ آمَنَ بِي وَ صَدَّقَنِي بِوِلَايَة عَلِيِّ بْنِ أبِي طَالِبٍ : مَنْ تَوَلَّاهُ فَقَدْ تَوَلَّانِي وَ مَنْ تَوَلَّانِي فَقَدْ تَوَلَّي اﷲَ عزوجل، وَ مَنْ أحَبَّهُ فَقَدْ أحَبَّنِي، وَ مَنْ أحَبَّنِي فَقَدْ أحَبَّ اﷲَ عزوجل، وَ مَنْ أبْغَضَهُ فَقَدْ أبْغَضَنِي، وَ مَنْ أبْغَضَنِي فَقَدْ أبْغَضَ ﷲَعزوجل
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی اُسے میں ولایتِ علی کی وصیت کرتا ہوں، جس نے اُسے ولی جانا اُس نے مجھے ولی جانا اور جس نے مجھے ولی جانا اُس نے اللہ کو ولی جانا، اور جس نے علی رضی اللہ عنہ سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ سے محبت کی، اور جس نے علی سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اُس نے اللہ سے بغض رکھا۔ (أخرجه الديلمي في مسند الفردوس، 1 / 429، الرقم : 1751)
عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : أنَّهُ لَا يُحِبُّکَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُکَ إِلاَّ مُنَافِقٌ. قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ : أنَا مِنَ الْقَرْنِ الَّذِيْنَ دَعَا لَهُمُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد فرمایا : مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اورکوئی منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا۔ عدی بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے کے لوگوں میں سے ہوں جن کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔ (أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب، باب : مناقب علي بن أبي طالب 5 / 643، الرقم : 3736)
عَنْ عَائِشَة رضي اﷲ عنها قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أُدْعُوْا لِي سَيِّدَ الْعَرَبِ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ألَسْتَ سَيِّدَ الْعَرَبِ؟ قَالَ : أنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس سردارِ عرب کو بلاؤ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک و سلم! کیا آپ عرب کے سردار نہیں؟ فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔ (أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 134، الرقم : 4626)
عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : النَّاسُ مِنْ شَجَرٍ شَتَّي، وَ أنَا وَ عَلِيٌّ مِنْ شَجَرَة وَاحِدَة
حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : لوگ جدا جدا نسب سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ میں اور علی ایک ہی نسب سے ہیں۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 263، الرقم : 1651)