اسلامی ریاست کے قیام کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس طرح جزیرہ نمائے عرب بالخصوص مدینہ منورہ کے تمدن کو اسلامی بنانے کو کوششیں کیں تھیں انھیں خطوط پر خلافت راشدہ کے اس مبارک دور میں بھی عظیم مساعی کی گئیں۔ اس میں تبلیغ و اشاعت دین، تعلیم، علوم، فنون کے فروغ زبان و لباس، غذا اور طرز رہائش اور فن تعمیر شامل ہیں۔
تبلیغ و اشاعت دین:
عہد نبوی کی مانند ریاست اسلامی کی تمام سیاسی افسروں اور کارکنوں، گورنروں، عاملوں، امیروں وغیرہ کا اولین فریضہ یہ تھا کہ وہ اسلام کی تبلیغ کریں۔ چنانچہ بلا استثناء یہ واقعہ ہے کہ عراق و شام اور ایران و مصر وغیرہ کی تمام فتوحات کے دوران جنگ شروع کرنے سے پہلے، اور فوجی کاروائیوں کے دوران حریف کو پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی، پھر صلح کر کے جزیہ ادا کر کے اسلام کا ذمی بننے کی شرط رکھی جاتی اور بالکل آخر میں تلوار اٹھائی جاتی تھی۔ حضرت خالد بن ولید، حضرت عياض بن غنم، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عمرو بن العاص، حضرت زید بن ابی سفیان اور ان کے بھائی حضرت معاویہ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح، حضرت شرجیل بن حسنہ اور حضرت عقبہ بن نافع وغیرہ تمام امرائے لشکر کی کارروائیوں کے سلسلے میں ہی حقیقت واضح طور سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ اشاعت اسلام کا دوسرا اصل طریقہ اور سبب فتح و قبضہ کے بعد مقبوضات میں مسلمان امیروں، کارکنوں، فوجیوں اور عام لوگوں کا حسن اخلاق، پاکیزہ کردار اور انسانی سلوک تھا۔ وہ خاموشی کے ساتھ مگر بہت گہرا اثر کرتا تھا۔ اس کی بنا پر بہت سے لوگوں نے ان مقبوضات میں اسلام قبول کر لیا۔ کیوںکہ اسلامی تعلیمات کی سچائی کا جیتا جاگتا ثبوت مفتوح لوگوں کو اس میں ملتا تھا۔
فتوحات کے بعد خلفاء کرام نے خاص کر اور ان کے مقرر کردہ امیروں، گورنروں اور کارکنوں کے علاوہ مبلغوں نے اسلام کو اسلامی مقبوضات میں پھیلانے کی باقاعدہ منصوبہ بند طریقہ سے شعوری کوششیں کیں۔ مآخذ میں واضح طور سے ذکر آتا ہے کہ تینوں اولین خلفاء نے غیرمسلموں میں اشاعت اسلام کے لیے باکردار، خوش گفتار اور عالم و عامل مبلغوں کا تقرر کیا تھا جو زیادہ تر صحابہ کرام پر مشتمل تھے۔ ردہ جنگوں کے دوران حضرت عدی بن حاتم طائی کی کوششوں سے بنو طے اور دوسرے مرتد قبائل نے اسلام قبول کیا۔ حضرت مثنی بن حارثہ شیبانی نے بنو وائل کے عیسائیوں اور بت پرستوں کو مسلمان بنایا۔ حضرت خالد کی مساعی سے عراق عرب اور حدود شام کے بیشتر قبائل نے اسلام قبول کیا۔ حضرت عمر نے متعدد صحابہ کرام کو جن میں حضرات ابوسفیان، عبادہ بن صامت، معاذ بن جبل، ابوالدرداء، عبدالله بن مسعود وغیرہ شامل تھے تبلیغ تعلیم کے لیے مامور کیا تھا۔ انھوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اسلام کی اشاعت بھی کی۔ اسی طرح حضرت عثمان نے اپنے زمانے میں مبلغین کومقرر کیا تھا۔ ان کے علاوہ تمام صحابہ کرام اور مسلم علماء اپنی جانب سے دوسرے طبقات کے ساتھ مل کر تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے تھے کہ وہ صرف حکومت کا کام نہ تھا۔
تعلیم:
خلفاء کرام کو شروع ہی سے یہ احساس تھا کہ نومسلموں کی تعلیم ان کے دینی رسوخ اور اسلامی پختگی کے لیے ضروری تھی۔ چنانچہ ان کے تمام امیروں، فوجی سالاروں، گورنروں اور ان کے ماتحت عاملوں اور کارکنوں کو عام ہدایت تھی کہ وہ نومسلموں میں بنیادی دینی تعلیم کا کام ضرور انجام دیں۔ حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں چونکہ فتوحات کی تکمیل نہیں ہوئی تھی اس لیے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں ان کی توجہ بدوی قبائل پر مرکوز رہی۔ انھوں نے جزیرہ نمائے عرب کے متعدد شہروں میں بھی معلمین کا بطور خاص تقرر کیا۔ خلافت فاروقی میں فتوحات کی مضبوطی کے بعد تعلیم کا کام زیادہ جوش و ولولہ اور منصوبہ بند طریقوں سے مقبوضات میں کیا گیا۔ عمال وامرائے فاروقی کے علاوہ بہت سے صحابہ کرام کو تعلیم وتربیت کے لیے متعدد صوبوں میں تعینات کیا گیا۔ ان میں سے کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کو، حضرت معاذ بن جبل، عبادہ بن صامت، ابی بن کعب، ابوایوب اور ابوالدردا کو شام کےمختلف امصار و مراکز میں تعلیم وتربیت کے لیے مقرر کیا۔ ان حضرات نے حمص، دمشق اور فلسطین وغیرہ میں تعلیم کا چرچا عام کیا۔ قرآن مجید کی سورتوں کا ناظرہ اور حفظ ،ان کا مفہوم و مطلب، احادیث نبوی کے اہم اجزاء، عام مسئلہ مسائل کے علاوہ سیرت و اخلاق اور لکھنے پڑھنے کے فن پر بنیادی طور سے زور دیا۔ بدوی قبائل کی تعلیم کے لیے حضرت ابوسفیان نامی ایک صحابی کومقررکیا تھا۔ عراقی امصار میں بصرہ کے لیے حضرت معقل بن یسار، عبدالله بن مغفل اور عمران بن حصین و مقررکیا۔ ان معلموں نے عربی زبان وادب کی بھی ضروری تعلیم دی۔ بصرہ میں کم از کم دس معلم مقرر کئے گئے تھے۔ فقہ کی تعلیم کے لیے حضرت عبدالرحمن بن غنم کو شام کے لیے اور حضرت عمران بن حصین کو بصرہ کے لیے مقر کیا تھا۔ دوسرے معلموں نے بھی فقہ کی تعلیم دی۔
تعلیم عام طور پر مساجد میں دی جاتی تھی اور بعد میں اس مقصد کے لیے مکاتب بھی قائم کئے گئے۔ ان معلمین کے گھر بھی مکاتب کا کام کرتے تھے اور ان کی ذات والاصفات چتا پھرتا مدرسہ تھی۔ مساجد کے ائمہ اور مؤذنیں بھی تعلیم وتربیت کا کام کرتے تھے۔ حضرات عمر وعثمان نے ان معلمین کی تنخواہیں مقررکی تھیں۔ مگرصحابہ کرام عام طور سے تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ اسلامی مراکز مدینہ، مکہ، یمن، کوفہ، بصرہ، دمشق، بیت المقدس، حمص، حلب، فسطاط اور برقہ وغیرہ میں اسلامی تعلیم کے دو درجات تھے:
ایک ابتدائی جس میں طلباء قرآن و حدیث اور فقہ کی بنیادی تعلیمات حاصل کرتے اور لکھنا پڑھنا سیکھتے تھے۔
دوسرے اعلی تعلیم کے حلقے تھے جن میں اسلامی علوم وفنون کی فنی اور اعلی تعلیم دی جاتی تھی۔ عام تعلیم میں تمام مسلمان شریک ہوتے تھے۔ ان میں مرد وعورت اور بچے بھی شامل تھے۔
جب کہ اعلی تعلیم کے مخصوص حلقے ہوتے تھے۔ ان ہی حلقوں سے تابعین کرام کے علماء و فضلاء نکلے۔ اعلی تعلیم کے حلقوں میں مکہ و طائف میں حضرت عبداللہ ابن عباس کا حلقہ، مدینہ منورہ میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابی بن کعب وغیرہ متعدد حضرات کے حلقے، کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرہ کے حلقے اور اسی طرح مذکورہ بالا تمام اکابر صحابہ کے تفسیر و حدیث اور فقہ وعربی ادب کے حلقے تھے۔ انھوں نے اعلی تعلیم حاصل کر کے اسلامی علوم و فنون کو ترقی دی۔
تعلیم و تجوید قرآن
سب سے اہم قرآن مجید کی تلافت و قراءت اور تفسیر و تشریح تھی۔ مصاحف قرآنی کو صوبوں مین اسی لیے بھیجا گیا تھا کہ قرآن کی صحیح قراءت ہو اور قراءت کے اختلاف ختم ہوں۔ ان مصاحف کی عام نقول نے ممالک اور صوبوں کے گوشہ گوشہ میں قرآن کی تعلیم عام کر دی۔ دوسرا طریقہ تجوید کے ساتھ قرآن کی زبانی قراءت تھی۔ ان دونوں کے ذریعہ قرآن کی قراءتوں اور کتابت کے فن کا ارتقاء ہوا۔
تفسیر:
تفسیر و تشریح قرآن میں مکہ و طائف میں عبداللہ بن عباس، مدینہ میں حضرت ابی بن کعب وغیرہ متعدد صابہ، کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود، بصرہ میں حضرت ابو موسی اشعری اور شام و مصر کے مختلف مراکز میں متعدد صحابہ کے حلقوں نے تفسیر کے فن کو ترقی دی۔ ان کی روایات زبانی طور سے ان کی دوسری نسل کو منتقل ہوئیں۔
حدیث:
قرآن مجید کے ساتھ ساتھ حدیث کے بھی اسی طرح تمام اسلامی مراکز میں حلقے قائم تھے۔ احادیث کے مجموعوں اور ابن سعد کے طبقات وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ متعدد صحابہ کرام نے اپنے حدیث کے مجموعے بھی تیار کر لیے تھے جن کوصحیفے کہا جاتا تھا۔ ان کی تعداد پچاس کے قریب تھی۔ اسی طرح تابعین کے طبقہ میں متعدد حضرات نے اس زمانہ میں اپنے صحیفے لکھ لیے تھے اگرچہ زیادہ تر بعد کے دور خلافت میں لکھے گئے۔ اس عہد میں حدیث کی ترسیل بھی زیادہ تر زبانی رہی۔ مذکورہ بالا تمام صحابہ کرام نے حدیث کی اشاعت میں بے شمار خدمات انجام دیں۔ صحابی کی کسی علاقہ میں موجودگی لوگوں کو اسلامی علوم و فنون خاص کر حدیث کے سماعت وحصول کے لیے کھینچ لاتی تھی۔
فقہ:
فقہ کی تعلیم اور اس کا فن دراصل قرآن وحدیث کی تعلیم و فنون پر ہی منحصر تھا۔ خلفاء باالعموم اپنے افسروں اور عاملوں کو فقہی احکام لکھ کر بھیجا کرتے تھے اور ان کے ذریعہ سے عوام میں ان کی اشاعت بھی کرواتے تھے۔ وہ اپنی تقریروں اور خطبات میں بھی فقہی احکام بیان کرتے تھے۔ ان کے سامعین اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق ان سے استفادہ بھی کرتے تھے۔ صوبوں اور مقبوضہ علاقوں کے دینی اورعلمی مراکز میں متعین صحابہ کرام نے بھی فقہ کے علم کو ترقی دی۔ ان کے اعلی اور مخصوص طلبہ نے اس فن میں مہارت بہم پہنچائی۔ ان میں حضرت عبد الله بن مسعود کی فقہ نے کوفہ اور عراق کے دوسرے امصار میں خاص مقام حاصل کیا۔ جب کہ حضرت عبدالرحمن بن غنم کی فقہ نے شامی مکتب فکر کی بنیاد ڈالی۔ اسی طرح دوسرے علوم وفنون نے بھی جن میں سیرت و تاریخ اور عربی زبان وادب وغیرہ شامل تھے ان مراکز میں فروغ پایا۔
فن تعمیر:
یہی اصول مکانات اور رہائش کے معاملہ میں بھی جاری ہوتا ہے۔ عام لوگوں کے مکانات کچے، چھوٹے اور چھپر کے جھونپڑے ہوتے تھے اور مالدار و متوسط طبقہ کے لوگوں کے مکانات، پختہ، وسیع، کئی کمروں، دالانوں، صحنوں اور منزلوں والے ہوتے تھے۔ اسلامی صوبوں میں فن تعمیر زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ لهذا ان کے مکانات، سڑکیں، حمام، تالاب وغیرہ زیادہ اچھے تھے۔
اسلامی فتوحات کے بعد فن تعمیر میں غیر معمولی ارتقاء ہوا۔ رومی اور ایرانی فن تعمیر کے بہت اثرات پڑے کیو کہ عراق، شام، مصر اور ایران وغیرہ میں ان کے فن تعمیر نے بہت ترقی کر لی تھی۔ حضرت عثمان نے اپنے عہد خلافت میں جب مسجد نبوی کی توسیع کرائی تو اسے چونہ اور گچ کے استعمال کے ساتھ پختہ تعمیر کرایا۔ اس میں رومی معماروں کے فن کو بھی استعمال کیا گیا تھا۔ مدینہ منورہ مین خآص کر اور دوسرے عربی مراکز مین عام طور سے بلند و بالا اور بڑی عمارات تعمیر کی گئیں۔
ان کے علاوہ سڑکوں، نہروں اور سرایوں وغیرہ کی تعمیر بھی کی گئی۔ خلافت فاروقی اور نہر معقل، نہر سعد اور نہر امیر المؤمنین وغیرہ اہم تھیں۔ یہ فن تعمیر کا اہم ارتقاء تھا۔
ان سے زیادہ اہم نئے شہروں کی تعمیر تھی ان کوفہ، بصرہ، فسطاط، موصل، حیرہ، برقہ وغیرہ نئے شہر شامل تھے، پرانے شہروں کو ترقی دی گئی۔ یہ دراصل شہر کاری کا ایک اہم دور تھا۔ مختصرا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس دور میں اسلامی تہذیب و تمدن میں وسعت بھی پیدا ہوئی۔
دینی حکومت:
خلافت راشدہ تو ایک دینی حکومت تھی جس کی بنیاد قرآن و سنت تھی۔ دنیاوی غرض اور لالچ سے پاک حکومت دین کو پھیلانے اور دینی علوم کو مسلمانوں تک پہنچانے کا کام کرتی رہی اس حکومت کے تمام فرائض دین کا جزو تھے۔ لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیم اور صحیح اسلامی تصور بہم پہنچانا اس حکومت کی ذمہ داری تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی اسلامی ریاست اور 23 سال کی جدوجہد سے قائم ہونے والا دین 'دینِ اسلام' ہی اس حکومت کی بنیاد تھی۔
خلافت راشدہ کا دور ایک اہم دور تھا جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بے لوث خدمت کا جذبہ تھا۔ اس دور کی تمام خصوصیات میں اس دور کو چلانے والی وہ مقدس ہستیاں تھیں جن کا نصب العین اسلامی ریاست کو سیاسی اور اجتماعی نظام دین کے اصولوں کے مطابق فراہم کرنا تھا۔
تبلیغ و اشاعت دین:
عہد نبوی کی مانند ریاست اسلامی کی تمام سیاسی افسروں اور کارکنوں، گورنروں، عاملوں، امیروں وغیرہ کا اولین فریضہ یہ تھا کہ وہ اسلام کی تبلیغ کریں۔ چنانچہ بلا استثناء یہ واقعہ ہے کہ عراق و شام اور ایران و مصر وغیرہ کی تمام فتوحات کے دوران جنگ شروع کرنے سے پہلے، اور فوجی کاروائیوں کے دوران حریف کو پہلے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی جاتی، پھر صلح کر کے جزیہ ادا کر کے اسلام کا ذمی بننے کی شرط رکھی جاتی اور بالکل آخر میں تلوار اٹھائی جاتی تھی۔ حضرت خالد بن ولید، حضرت عياض بن غنم، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عمرو بن العاص، حضرت زید بن ابی سفیان اور ان کے بھائی حضرت معاویہ، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح، حضرت شرجیل بن حسنہ اور حضرت عقبہ بن نافع وغیرہ تمام امرائے لشکر کی کارروائیوں کے سلسلے میں ہی حقیقت واضح طور سے ہمارے سامنے آتی ہے۔ اشاعت اسلام کا دوسرا اصل طریقہ اور سبب فتح و قبضہ کے بعد مقبوضات میں مسلمان امیروں، کارکنوں، فوجیوں اور عام لوگوں کا حسن اخلاق، پاکیزہ کردار اور انسانی سلوک تھا۔ وہ خاموشی کے ساتھ مگر بہت گہرا اثر کرتا تھا۔ اس کی بنا پر بہت سے لوگوں نے ان مقبوضات میں اسلام قبول کر لیا۔ کیوںکہ اسلامی تعلیمات کی سچائی کا جیتا جاگتا ثبوت مفتوح لوگوں کو اس میں ملتا تھا۔
فتوحات کے بعد خلفاء کرام نے خاص کر اور ان کے مقرر کردہ امیروں، گورنروں اور کارکنوں کے علاوہ مبلغوں نے اسلام کو اسلامی مقبوضات میں پھیلانے کی باقاعدہ منصوبہ بند طریقہ سے شعوری کوششیں کیں۔ مآخذ میں واضح طور سے ذکر آتا ہے کہ تینوں اولین خلفاء نے غیرمسلموں میں اشاعت اسلام کے لیے باکردار، خوش گفتار اور عالم و عامل مبلغوں کا تقرر کیا تھا جو زیادہ تر صحابہ کرام پر مشتمل تھے۔ ردہ جنگوں کے دوران حضرت عدی بن حاتم طائی کی کوششوں سے بنو طے اور دوسرے مرتد قبائل نے اسلام قبول کیا۔ حضرت مثنی بن حارثہ شیبانی نے بنو وائل کے عیسائیوں اور بت پرستوں کو مسلمان بنایا۔ حضرت خالد کی مساعی سے عراق عرب اور حدود شام کے بیشتر قبائل نے اسلام قبول کیا۔ حضرت عمر نے متعدد صحابہ کرام کو جن میں حضرات ابوسفیان، عبادہ بن صامت، معاذ بن جبل، ابوالدرداء، عبدالله بن مسعود وغیرہ شامل تھے تبلیغ تعلیم کے لیے مامور کیا تھا۔ انھوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اسلام کی اشاعت بھی کی۔ اسی طرح حضرت عثمان نے اپنے زمانے میں مبلغین کومقرر کیا تھا۔ ان کے علاوہ تمام صحابہ کرام اور مسلم علماء اپنی جانب سے دوسرے طبقات کے ساتھ مل کر تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے تھے کہ وہ صرف حکومت کا کام نہ تھا۔
تعلیم:
خلفاء کرام کو شروع ہی سے یہ احساس تھا کہ نومسلموں کی تعلیم ان کے دینی رسوخ اور اسلامی پختگی کے لیے ضروری تھی۔ چنانچہ ان کے تمام امیروں، فوجی سالاروں، گورنروں اور ان کے ماتحت عاملوں اور کارکنوں کو عام ہدایت تھی کہ وہ نومسلموں میں بنیادی دینی تعلیم کا کام ضرور انجام دیں۔ حضرت ابوبکر کے عہد خلافت میں چونکہ فتوحات کی تکمیل نہیں ہوئی تھی اس لیے مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلہ میں ان کی توجہ بدوی قبائل پر مرکوز رہی۔ انھوں نے جزیرہ نمائے عرب کے متعدد شہروں میں بھی معلمین کا بطور خاص تقرر کیا۔ خلافت فاروقی میں فتوحات کی مضبوطی کے بعد تعلیم کا کام زیادہ جوش و ولولہ اور منصوبہ بند طریقوں سے مقبوضات میں کیا گیا۔ عمال وامرائے فاروقی کے علاوہ بہت سے صحابہ کرام کو تعلیم وتربیت کے لیے متعدد صوبوں میں تعینات کیا گیا۔ ان میں سے کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود کو، حضرت معاذ بن جبل، عبادہ بن صامت، ابی بن کعب، ابوایوب اور ابوالدردا کو شام کےمختلف امصار و مراکز میں تعلیم وتربیت کے لیے مقرر کیا۔ ان حضرات نے حمص، دمشق اور فلسطین وغیرہ میں تعلیم کا چرچا عام کیا۔ قرآن مجید کی سورتوں کا ناظرہ اور حفظ ،ان کا مفہوم و مطلب، احادیث نبوی کے اہم اجزاء، عام مسئلہ مسائل کے علاوہ سیرت و اخلاق اور لکھنے پڑھنے کے فن پر بنیادی طور سے زور دیا۔ بدوی قبائل کی تعلیم کے لیے حضرت ابوسفیان نامی ایک صحابی کومقررکیا تھا۔ عراقی امصار میں بصرہ کے لیے حضرت معقل بن یسار، عبدالله بن مغفل اور عمران بن حصین و مقررکیا۔ ان معلموں نے عربی زبان وادب کی بھی ضروری تعلیم دی۔ بصرہ میں کم از کم دس معلم مقرر کئے گئے تھے۔ فقہ کی تعلیم کے لیے حضرت عبدالرحمن بن غنم کو شام کے لیے اور حضرت عمران بن حصین کو بصرہ کے لیے مقر کیا تھا۔ دوسرے معلموں نے بھی فقہ کی تعلیم دی۔
تعلیم عام طور پر مساجد میں دی جاتی تھی اور بعد میں اس مقصد کے لیے مکاتب بھی قائم کئے گئے۔ ان معلمین کے گھر بھی مکاتب کا کام کرتے تھے اور ان کی ذات والاصفات چتا پھرتا مدرسہ تھی۔ مساجد کے ائمہ اور مؤذنیں بھی تعلیم وتربیت کا کام کرتے تھے۔ حضرات عمر وعثمان نے ان معلمین کی تنخواہیں مقررکی تھیں۔ مگرصحابہ کرام عام طور سے تنخواہ نہیں لیتے تھے۔ اسلامی مراکز مدینہ، مکہ، یمن، کوفہ، بصرہ، دمشق، بیت المقدس، حمص، حلب، فسطاط اور برقہ وغیرہ میں اسلامی تعلیم کے دو درجات تھے:
ایک ابتدائی جس میں طلباء قرآن و حدیث اور فقہ کی بنیادی تعلیمات حاصل کرتے اور لکھنا پڑھنا سیکھتے تھے۔
دوسرے اعلی تعلیم کے حلقے تھے جن میں اسلامی علوم وفنون کی فنی اور اعلی تعلیم دی جاتی تھی۔ عام تعلیم میں تمام مسلمان شریک ہوتے تھے۔ ان میں مرد وعورت اور بچے بھی شامل تھے۔
جب کہ اعلی تعلیم کے مخصوص حلقے ہوتے تھے۔ ان ہی حلقوں سے تابعین کرام کے علماء و فضلاء نکلے۔ اعلی تعلیم کے حلقوں میں مکہ و طائف میں حضرت عبداللہ ابن عباس کا حلقہ، مدینہ منورہ میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابی بن کعب وغیرہ متعدد حضرات کے حلقے، کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود وغیرہ کے حلقے اور اسی طرح مذکورہ بالا تمام اکابر صحابہ کے تفسیر و حدیث اور فقہ وعربی ادب کے حلقے تھے۔ انھوں نے اعلی تعلیم حاصل کر کے اسلامی علوم و فنون کو ترقی دی۔
تعلیم و تجوید قرآن
سب سے اہم قرآن مجید کی تلافت و قراءت اور تفسیر و تشریح تھی۔ مصاحف قرآنی کو صوبوں مین اسی لیے بھیجا گیا تھا کہ قرآن کی صحیح قراءت ہو اور قراءت کے اختلاف ختم ہوں۔ ان مصاحف کی عام نقول نے ممالک اور صوبوں کے گوشہ گوشہ میں قرآن کی تعلیم عام کر دی۔ دوسرا طریقہ تجوید کے ساتھ قرآن کی زبانی قراءت تھی۔ ان دونوں کے ذریعہ قرآن کی قراءتوں اور کتابت کے فن کا ارتقاء ہوا۔
تفسیر:
تفسیر و تشریح قرآن میں مکہ و طائف میں عبداللہ بن عباس، مدینہ میں حضرت ابی بن کعب وغیرہ متعدد صابہ، کوفہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود، بصرہ میں حضرت ابو موسی اشعری اور شام و مصر کے مختلف مراکز میں متعدد صحابہ کے حلقوں نے تفسیر کے فن کو ترقی دی۔ ان کی روایات زبانی طور سے ان کی دوسری نسل کو منتقل ہوئیں۔
حدیث:
قرآن مجید کے ساتھ ساتھ حدیث کے بھی اسی طرح تمام اسلامی مراکز میں حلقے قائم تھے۔ احادیث کے مجموعوں اور ابن سعد کے طبقات وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ متعدد صحابہ کرام نے اپنے حدیث کے مجموعے بھی تیار کر لیے تھے جن کوصحیفے کہا جاتا تھا۔ ان کی تعداد پچاس کے قریب تھی۔ اسی طرح تابعین کے طبقہ میں متعدد حضرات نے اس زمانہ میں اپنے صحیفے لکھ لیے تھے اگرچہ زیادہ تر بعد کے دور خلافت میں لکھے گئے۔ اس عہد میں حدیث کی ترسیل بھی زیادہ تر زبانی رہی۔ مذکورہ بالا تمام صحابہ کرام نے حدیث کی اشاعت میں بے شمار خدمات انجام دیں۔ صحابی کی کسی علاقہ میں موجودگی لوگوں کو اسلامی علوم و فنون خاص کر حدیث کے سماعت وحصول کے لیے کھینچ لاتی تھی۔
فقہ:
فقہ کی تعلیم اور اس کا فن دراصل قرآن وحدیث کی تعلیم و فنون پر ہی منحصر تھا۔ خلفاء باالعموم اپنے افسروں اور عاملوں کو فقہی احکام لکھ کر بھیجا کرتے تھے اور ان کے ذریعہ سے عوام میں ان کی اشاعت بھی کرواتے تھے۔ وہ اپنی تقریروں اور خطبات میں بھی فقہی احکام بیان کرتے تھے۔ ان کے سامعین اپنی اپنی صلاحیت کے مطابق ان سے استفادہ بھی کرتے تھے۔ صوبوں اور مقبوضہ علاقوں کے دینی اورعلمی مراکز میں متعین صحابہ کرام نے بھی فقہ کے علم کو ترقی دی۔ ان کے اعلی اور مخصوص طلبہ نے اس فن میں مہارت بہم پہنچائی۔ ان میں حضرت عبد الله بن مسعود کی فقہ نے کوفہ اور عراق کے دوسرے امصار میں خاص مقام حاصل کیا۔ جب کہ حضرت عبدالرحمن بن غنم کی فقہ نے شامی مکتب فکر کی بنیاد ڈالی۔ اسی طرح دوسرے علوم وفنون نے بھی جن میں سیرت و تاریخ اور عربی زبان وادب وغیرہ شامل تھے ان مراکز میں فروغ پایا۔
فن تعمیر:
یہی اصول مکانات اور رہائش کے معاملہ میں بھی جاری ہوتا ہے۔ عام لوگوں کے مکانات کچے، چھوٹے اور چھپر کے جھونپڑے ہوتے تھے اور مالدار و متوسط طبقہ کے لوگوں کے مکانات، پختہ، وسیع، کئی کمروں، دالانوں، صحنوں اور منزلوں والے ہوتے تھے۔ اسلامی صوبوں میں فن تعمیر زیادہ ترقی یافتہ تھا۔ لهذا ان کے مکانات، سڑکیں، حمام، تالاب وغیرہ زیادہ اچھے تھے۔
اسلامی فتوحات کے بعد فن تعمیر میں غیر معمولی ارتقاء ہوا۔ رومی اور ایرانی فن تعمیر کے بہت اثرات پڑے کیو کہ عراق، شام، مصر اور ایران وغیرہ میں ان کے فن تعمیر نے بہت ترقی کر لی تھی۔ حضرت عثمان نے اپنے عہد خلافت میں جب مسجد نبوی کی توسیع کرائی تو اسے چونہ اور گچ کے استعمال کے ساتھ پختہ تعمیر کرایا۔ اس میں رومی معماروں کے فن کو بھی استعمال کیا گیا تھا۔ مدینہ منورہ مین خآص کر اور دوسرے عربی مراکز مین عام طور سے بلند و بالا اور بڑی عمارات تعمیر کی گئیں۔
ان کے علاوہ سڑکوں، نہروں اور سرایوں وغیرہ کی تعمیر بھی کی گئی۔ خلافت فاروقی اور نہر معقل، نہر سعد اور نہر امیر المؤمنین وغیرہ اہم تھیں۔ یہ فن تعمیر کا اہم ارتقاء تھا۔
ان سے زیادہ اہم نئے شہروں کی تعمیر تھی ان کوفہ، بصرہ، فسطاط، موصل، حیرہ، برقہ وغیرہ نئے شہر شامل تھے، پرانے شہروں کو ترقی دی گئی۔ یہ دراصل شہر کاری کا ایک اہم دور تھا۔ مختصرا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس دور میں اسلامی تہذیب و تمدن میں وسعت بھی پیدا ہوئی۔
دینی حکومت:
خلافت راشدہ تو ایک دینی حکومت تھی جس کی بنیاد قرآن و سنت تھی۔ دنیاوی غرض اور لالچ سے پاک حکومت دین کو پھیلانے اور دینی علوم کو مسلمانوں تک پہنچانے کا کام کرتی رہی اس حکومت کے تمام فرائض دین کا جزو تھے۔ لوگوں کو قرآن و سنت کی تعلیم اور صحیح اسلامی تصور بہم پہنچانا اس حکومت کی ذمہ داری تھی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی اسلامی ریاست اور 23 سال کی جدوجہد سے قائم ہونے والا دین 'دینِ اسلام' ہی اس حکومت کی بنیاد تھی۔
خلافت راشدہ کا دور ایک اہم دور تھا جس میں اسلام اور مسلمانوں کی بے لوث خدمت کا جذبہ تھا۔ اس دور کی تمام خصوصیات میں اس دور کو چلانے والی وہ مقدس ہستیاں تھیں جن کا نصب العین اسلامی ریاست کو سیاسی اور اجتماعی نظام دین کے اصولوں کے مطابق فراہم کرنا تھا۔