اکثر افراد اس خیال سے پریشان رہتے ہیں کہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اس مزیدار پھل کو کھانا محفوظ ہے یا نہیں۔
ذیابیطس کے مریضوں کو اپنی غذا کے حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بلڈ شوگر کی سطح مستحکم رہے اور پیچیدگیوں سے تحفظ مل سکے۔
پھلوں اور سبزیوں سے بھرپور غذا بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت وہسکتی ہے مگر پھلوں میں قدرتی مٹھاس اور کاربوہائیڈریٹس بھی ہوتے ہیں تو ان کی مقدار کا خیال رکھنا اہم ہوتا ہے۔
جی آئی ایک پیمانہ ہے کہ جو بتاتا ہے کہ کاربوہائیڈریٹ والی غذا کا کتنا حصہ کھانے کے بعد اس میں موجود مٹھاس (گلوکوز) مخصوص وقت میں خون میں جذب ہوسکتی ہے اور یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں کو اپنا بلڈ گلوکوز لیول کنٹرول میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی غذا ایسی ہونی چاہئے جو اس لیول کو کنٹرول میں رکھ سکے۔ تو ایسے مریضوں کے لیے 15 گرام کاربوہائیڈریٹ کسی پھل کے ذریعے جسم کا حصہ بننا نقصان دہ نہیں۔
جی آئی سسٹم میں ہر غذا کو 0 سے 100 کے درمیان اسکور دیا جاتا ہے، نمبر جتنا زیادہ ہوگا خون میں شکر کے اخراج کی رفتار بھی اتنی زیادہ ہوگی۔
تربوز کا جی آئی اسکور 72 ہے اور 70 اسکور سے اوپر کی ہر غذا کو ہائی جی آئی ڈائٹ خیال کیا جاتا ہے۔
مگر ماہرین کے مطابق تربوز میں پانی کی زیادہ مقدار کے باعث اس کی کچھ مقدار کا جی آئی اسکور گھٹ جاتا ہے اور چونکہ لوگ تازہ پھل ہی کھاتے ہیں تو بہتر ہے کہ اس کے جوس سے گریز کریں۔
ذیابیطس کے مریض تربوز کو صحت مند چکنائی، فائبر اور پروٹین سے بھرپور غذاؤں جیسے گریوں کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔
ان دونوں کا امتزاج لوگوں کا پیٹ زیادہ دیر تک بھرے رکھتا ہے اور خون میں شکر کے جذب ہونے کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔
وٹامن اے دل، گردوں اور پھیپھڑوں کے افعال کے لیے بہترین ہوتا ہے جبکہ بینائی کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔
وٹامن سی ایک اینٹی آکسائیڈنٹ ہے جو مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے جس سے بیماریوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
پوٹاشیم بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اہم غذائی جز ہے۔
اسی طرح تربوز میں امینو ایسڈ citrulline بھی موجود ہوتا ہے جو بلڈ پریشر اور مٹابولک صحت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
تربوز سے شکر کی کتنی مقدار جزوبدن بنتی ہے اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کی کتنی مقدار کو جزوبدن بنایا گیا ہے۔
چکنائی اور پروٹین خون میں شکر کے جذب ہونے کی رفتار سست کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، یہ ان افراد کے لیے بھی مددگار ثابت ہوتا ہے جو ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار ہوں۔
دیگر پھلوں کی طرح ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ پھل کے اوپر چینی چھڑکنے سے گریز کریں۔
مگر اسے پھلوں کی چاٹ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔
مگر تربوز کو کھاتے ہوئے ذیابیطس کے مریض اس کے ساتھ زیادہ چکنائی والی غذا کھانے سے گریز کریں اور اس کے جوس یا شربت کو پینے سے بھی کریں۔
اعتدال میں کھانے سے اس سے بلڈ شوگر کی سطح پر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔
ذیابیطس کے مریضوں کو اپنی غذا کے حوالے سے احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ بلڈ شوگر کی سطح مستحکم رہے اور پیچیدگیوں سے تحفظ مل سکے۔
پھلوں اور سبزیوں سے بھرپور غذا بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے میں معاون ثابت وہسکتی ہے مگر پھلوں میں قدرتی مٹھاس اور کاربوہائیڈریٹس بھی ہوتے ہیں تو ان کی مقدار کا خیال رکھنا اہم ہوتا ہے۔
تربوز اور ذیابیطس
اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ جان لیں کہ کسی پھل میں مٹھاس ذیابیطس کے لیے اتنی اہم نہیں ہوتی جتنا اس کا گلیسمیک انڈیکس (جی آئی) نمبر۔جی آئی ایک پیمانہ ہے کہ جو بتاتا ہے کہ کاربوہائیڈریٹ والی غذا کا کتنا حصہ کھانے کے بعد اس میں موجود مٹھاس (گلوکوز) مخصوص وقت میں خون میں جذب ہوسکتی ہے اور یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ذیابیطس کے مریضوں کو اپنا بلڈ گلوکوز لیول کنٹرول میں رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی غذا ایسی ہونی چاہئے جو اس لیول کو کنٹرول میں رکھ سکے۔ تو ایسے مریضوں کے لیے 15 گرام کاربوہائیڈریٹ کسی پھل کے ذریعے جسم کا حصہ بننا نقصان دہ نہیں۔
جی آئی سسٹم میں ہر غذا کو 0 سے 100 کے درمیان اسکور دیا جاتا ہے، نمبر جتنا زیادہ ہوگا خون میں شکر کے اخراج کی رفتار بھی اتنی زیادہ ہوگی۔
تربوز کا جی آئی اسکور 72 ہے اور 70 اسکور سے اوپر کی ہر غذا کو ہائی جی آئی ڈائٹ خیال کیا جاتا ہے۔
مگر ماہرین کے مطابق تربوز میں پانی کی زیادہ مقدار کے باعث اس کی کچھ مقدار کا جی آئی اسکور گھٹ جاتا ہے اور چونکہ لوگ تازہ پھل ہی کھاتے ہیں تو بہتر ہے کہ اس کے جوس سے گریز کریں۔
ذیابیطس کے مریض تربوز کو صحت مند چکنائی، فائبر اور پروٹین سے بھرپور غذاؤں جیسے گریوں کے ساتھ کھا سکتے ہیں۔
ان دونوں کا امتزاج لوگوں کا پیٹ زیادہ دیر تک بھرے رکھتا ہے اور خون میں شکر کے جذب ہونے کی رفتار سست ہوجاتی ہے۔
فوائد
تربوز میں متعدد وٹامنز اور منرلز جیسے وٹامن اے، وٹامن بی 1 اور بی 6، وٹامن سی، پوٹاشیم، میگنیشم، فائبر، آئرن، کیلشیئم اور لائیکو پین موجود ہوتے ہیں۔وٹامن اے دل، گردوں اور پھیپھڑوں کے افعال کے لیے بہترین ہوتا ہے جبکہ بینائی کو بھی فائدہ پہنچاتا ہے۔
وٹامن سی ایک اینٹی آکسائیڈنٹ ہے جو مدافعتی نظام کو مضبوط بناتا ہے جس سے بیماریوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
پوٹاشیم بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے اہم غذائی جز ہے۔
اسی طرح تربوز میں امینو ایسڈ citrulline بھی موجود ہوتا ہے جو بلڈ پریشر اور مٹابولک صحت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
تربوز میں کتنی قدرتی شکر ہوتی ہے؟
تربوز کے درمیانے سائز کے ٹکڑے (286 گرام) میں شکر کی مقدار 17.7 گرام ہوتی ہے۔تربوز سے شکر کی کتنی مقدار جزوبدن بنتی ہے اس کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کی کتنی مقدار کو جزوبدن بنایا گیا ہے۔
ذیابیطس کے مریض کس طرح تربوز کو غذا کا حصہ بنائیں؟
اگر ایک فرد تربوز یا دیگر پھلوں کو اپنی غذا کا حصہ بناتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ غذائی چکنائی اور پروٹین کے توازن کا بھی خیال رکھیں۔چکنائی اور پروٹین خون میں شکر کے جذب ہونے کی رفتار سست کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، یہ ان افراد کے لیے بھی مددگار ثابت ہوتا ہے جو ذیابیطس ٹائپ ٹو کے شکار ہوں۔
دیگر پھلوں کی طرح ذیابیطس کے مریضوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ پھل کے اوپر چینی چھڑکنے سے گریز کریں۔
مگر اسے پھلوں کی چاٹ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔
مگر تربوز کو کھاتے ہوئے ذیابیطس کے مریض اس کے ساتھ زیادہ چکنائی والی غذا کھانے سے گریز کریں اور اس کے جوس یا شربت کو پینے سے بھی کریں۔
نتیجہ
مجموعی طور پر ذیابیطس کے مریضوں کے لیے تربوز کا استعمال محفوظ ہے اگر وہ اعتدال میں رہ کر اسے کھائیں۔اعتدال میں کھانے سے اس سے بلڈ شوگر کی سطح پر معمولی اثرات مرتب ہوں گے۔