مچھروں سے بچنے کا راز جان لیں

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
مچھروں سے بچنے کا راز آپ کے کپڑوں اور جلد میں چھپا ہوتا ہے۔ وہ کیسے آئيں دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
واشنگٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا کہ مچھروں کی عام اقسام مخصوص رنگوں بشمول سرخ، نارنجی، سیاہ اور نیلگوں سبز رنگ کی جانب زیادہ کشش محسوس کرتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں وہ دیگر رنگ جیسے سبز، جامنی، نیلے اور سفید کو نظرانداز کردیتی ہیں۔
محققین نے بتایا کہ مچھر بظاہر بو کو استعمال کرکے قریب موجود ہدف کا تعین کرتے ہیں، جب وہ مخصوص مرکبات جیسے ہماری سانس سے خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو سونگھتے ہیں، تو اس کے بعد مخصوص رنگوں کو اسکین کرتے ہیں اور پھر اس جانب بڑھتے ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ مچھر پہلے اپنے سونگھنے کی حس کو استعمال کرتے ہیں اور پھر مخصوص رنگوں کی جانب لپکتے ہیں اور ان کے بار میں جاننا مچھروں سے بچنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔
محققین کے مطابق ایک عام سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ ہم ایسا کیا کریں کہ مچھر ہم سے دور رہیں، تو ہمارا کہنا ہے کہ آپ کی سانس، پسینہ، جلد کا درجہ حرارت مچھروں کو توجہ حاصل کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق میں ہم نے چوتھا عنصر بھی دریافت کیا اور وہ یہ تھا کہ مخصوص رنگ جیسے سرخ مچھروں کو اپنی جانب کھینچتا ہے اور ان رنگوں کے لباس نہ پہن کر بھی مچھروں کو خود سے دور رکھا جاسکتا ہے۔
تحقیق کے دوران زرد بخار، ڈینگی، زیکا وغیرہ پھیلانے والے مچھروں پر تجربات کیے گئے جن کو مختلف بصری اور مہک کے اشا روں سے آزمایا گیا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مہک کے بغیر مچھر اکثر ہدف کو نظرانداز کردیتے ہیں جبکہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کا استعمال کرنے پر دریافت ہوا کہ مچھر سبز، بلیو یا جامنی رنگوں کو نظرانداز کردیتے ہیں مگر سرخ، نارنجی، سیاہ اور نیلگوں سبز رنگ کی جانب بڑھتے ہیں۔
محققین کے مطابق مچھروں کو کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بو پسند ہوتی ہے، جیسے آپ کسی جگہ گھوم رہے ہوں اور کسی کھانے کی اشتہا آئے تو آپ بھی اسے تلاش کرنا شروع کرسکتے ہیں، اس مرحلے میں مچھر بینائی کو استعمال کرکے مخصوص رنگوں کی جانب لپکتے ہیں۔
تحقیق میں جب لیبارٹری تجربات کو انسانی ہاتھوں پر آزمایا گیا تو مچھروں نے مخصوص رنگوں کی جانب کم رخ کیا۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ تجربات اس جانب پہلا قدم ہے کہ مچھر اپنا شکار کیسے ڈھونڈتے ہیں اور اب مزید تحقیق میں دیکھا اس حوالے سے زیادہ تجربات کیے جائیں گے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر کیمونیکشن میں شائع ہوئے۔
 
Top