’مجھے بچالو، مجھے بچالو، اس سے پہلے کہ میری سانسیں رُک جائیں اور میں مرجاؤں، مجھے ہسپتال لے جاو‘۔ آدھی رات کو اس کے سینے میں درد کی لہر اٹھی تو وہ چلّانے لگا۔ اس کے بچے اپنے اپنے کمروں سے دوڑتے ہوئے اس کے پاس آگئے۔
’کیا ہوا ابّا؟‘ اس کے بڑے بیٹے نے پوچھا۔
’ہسپتال لے چلو مجھے‘، اس نے مشکل سے جملہ مکمل کیا تھا۔
پھر اس کے بچے اسے سرکاری ہسپتال لے آئے جہاں ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹروں کی فوری طبی امداد کے بعد اس کا درد کچھ تھم سا گیا تھا۔ جیسے آگ پر پانی پھینک دینے سے ہلکا ہلکا دھواں دیرتک نکلتا رہتا ہے، اس کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ وہ اب آکسیجن ماسک لگائے، بیڈ پر سیدھا لیٹا، چھت کو گُھورے جارہا تھا۔
2 سال پہلے ڈاکٹروں نے اسے دل کا آپریشن کروانے کے لیے کہا تھا لیکن اسے آپریشن سے خوف آتا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ اگر سینہ چاک ہوگیا تو بند کیسے ہوگا؟ اور اگر ایسے میں وہ ہوش میں نہ آیا تو بے ہوشی کی حالت میں ہی مرجائے گا۔ لیکن اگر ہوش آگیا اور ڈاکٹروں نے اس کا سینہ ابھی نہ سیا ہو تو وہ چاک سینے کے ساتھ کیسا محسوس کرے گا؟
عجیب سے وہم تھے جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے، لہٰذا وہ آپریشن کے نام سے بھاگتا رہتا لیکن بیماریوں کو اس بات کی چنداں پروا نہیں ہوتی کہ آپ کس وقت کس طرح کے خوف اور وہم کا شکار ہیں۔ وہ آپ کا پیچھا کرتی رہتی ہیں تاکہ وہ اس جسم کے قلعے پر فتح کا جھنڈا نصب کرسکیں۔ آدمی، یہ مٹی کا بنا پتلا آخر کب تک بیماریوں کا مقابلہ کرسکتا ہے خاص کر تب جب آپ کے پاس بیماریوں کے خلاف لڑنے کے لیے رقم کم ہو۔ ایسے میں تو بیماری کی فتح یقینی ہوتی ہے۔
’ڈاکٹر صاحب مجھے بچا لیجیے، آپریشن کے بغیر ہی کچھ علاج کردیجیے ورنہ میں اس درد سے مرجاؤں گا‘، اس نے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے ہی وہاں موجود ڈاکٹر سے یہ کہا تھا۔ ڈاکٹر نے اس ہڈیوں کے ڈھانچے، شکل و صورت سے خستہ حال بوڑھے کی جانب یوں دیکھا تھا جیسے وہ پوچھنا چاہ رہے ہوں کہ ’اس خستہ حالی میں تم آخر جی کر کرنا کیا چاہتے ہو؟‘
اس نے ڈاکٹر کی نظروں میں موجود سوال کو پڑھ لیا تھا، ایسا ہی سوال بہت سال پہلے اس نے خود سے بھی کیا تھا جب اس کا سب سے چھوٹا بیٹا وسیم غائب ہوگیا تھا اور جس کی یادیں اب سالوں بعد اسے بے چین کیے رکھتی تھیں۔
وسیم جب اغوا ہوا تو اس کی عمر 10 سال تھی اور وہ پانچویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھا۔ ایک دن وہ اسکول گیا اور پھر اگلے 3 روز تک نہ ملا۔ مسجدوں میں اعلان ہوا، اخبار میں اشتہار دیا لیکن 3 روز تک اس کا کوئی سُراغ نہ ملا۔
ان 3 دنوں کے دوران اَن گنت افواہیں پھیل چکی تھیں۔ کچھ لوگ کہتے کہ انہوں نے وسیم کو ریلوے اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھا، کچھ نے اسے دوپہر کو نہر کنارے بیٹھے دیکھا تھا اور کچھ لوگوں نے اسے رشید کمہار کے گھر کے سامنے کھیلتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں اور ہر بات سُن کر سلیم الیکٹریشن مزید پریشان ہوجاتا اور اسے عجیب و غریب وہم گھیر لیتے۔ جیسے
’کہیں وسیم غلطی سے ٹرین میں تو نہیں بیٹھ گیا؟‘
’کہیں وہ نہر میں تو نہیں ڈوب گیا؟‘
یہ ساری باتیں اسے پریشان کیے رکھتیں اور وہ اب اس کے علاوہ کچھ اور سوچتا ہی نہیں۔ اگرچہ اسے اپنے تمام ہی بچوں سے محبت تھی، مگر چھوٹے وسیم سے تو کچھ خاص اُنسیت تھی۔ وسیم کو جنم دینے کے 2 سال بعد اس کی بیوی فوت ہوگئی تھی، لہٰذا سلیم نے اپنے اس بچے کو ماں بن کر بھی پالا تھا، اور یہ پیار یکطرفہ نہیں تھا بلکہ وسیم بھی اپنے باپ پر جان چھڑکتا تھا۔ سلیم الیکٹریشن کے پاس ایک سائیکل تھی جس پر وہ اپنے بیٹے وسیم کو بٹھا کر سارے گاؤں کی سیر کرواتا، جب کبھی دوسرے گاؤں میں میلہ لگتا تو وہ اسی سائیکل پر جاتے۔ سائیکل میلی ہوجاتی تو وسیم کہتا، ’ابّا دیکھیں ہماری سائیکل کس قدر میلی ہوگئی ہے، آج ہم اِس کی صفائی کریں گے۔‘
وہ پانی کی بوتل اور برش اٹھا کر لے آتا اور پھر باپ بیٹا مل کر سائیکل کو خوب رگڑ رگڑ کر صاف کرتے۔ جب صفائی ہوجاتی تو وہ ہمیشہ اپنے ابّا سے پوچھتا ’ابّا ایسی صاف سائیکل کیا گاؤں میں کسی اور کی ہوگی؟‘
اور سلیم جواب دیتا کہ ’نہیں نہیں ایسی چمکدار سائیکل بھلا کس کے پاس ہوسکتی ہے؟ اسے ہمارے شہزادے نے جو صاف کیا ہے۔‘
وسیم کو اپنے ابّا کی جرابیں، ٹوپی، رومال غرض ہر شے کا علم ہوتا کہ وہ کہاں رکھی ہیں۔ جب سلیم اپنی کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہوتا تو وسیم کہیں سے بھی وہ چیز ڈھونڈ لاتا۔
’ابّا آپ کی جرابیں یہ چارپائی کے نیچے پڑی تھیں‘
’ابّا آپ کا رومال باورچی خانے میں رہ گیا تھا‘
سلیم الیکٹریشن کو اپنے اس بیٹے سے بے پناہ محبت تھی لیکن اب وہ گُم ہوگیا تھا۔
اغوا ہونے کے 3 دن بعد وسیم ملا لیکن ایک لاش کی صورت جو کُوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پڑی تھی، جسے دیکھنے کے لیے اس کے دل اور آنکھوں میں تاب نہیں تھی لیکن زندگی کبھی کبھار انسان کو ایسے دوراہے پر بھی لاکھڑا کرتی ہے جہاں وہ منظر بھی دیکھنے پڑتے ہیں جن کے بارے سوچا بھی نہیں جاسکتا سو اسے دیکھنا پڑا۔ ہنستے مسکراتے معصوم وسیم کو زخموں سے چُور ایک جسم کی صورت میں۔ اس منظر کے بعد اس کا دل اور آنکھیں پہلی سی نہیں رہی تھیں۔
اس حادثے کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں تو صحافیوں اور میڈیا کے لوگوں نے اس کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ سلیم جو غم کے گہرے سمندر میں ڈوب گیا تھا، وہ چاہتا تھا کہ گریبان چاک کرے اور روتے روتے کسی ویرانے میں نکل جائے جہاں اس سے کوئی کسی قسم کی بات نہ کرے لیکن دنیا کے پاس ان گنت سوالات تھے۔
’تو سلیم صاحب اب جیسے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ قاتل آپ کا پڑوسی تاجی تھا، تو کیا آپ کو تاجی پر پہلے کبھی شک پڑا تھا؟‘
’کیا تاجی سے آپ کی کوئی خاص دشمنی تھی؟‘
’تاجی کو لاش پھینکتے ہوئے کیا آپ نے خود دیکھا تھا؟‘
’آپ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کیا اپیل کرنا چاہیں گے؟‘
وہ دکھ کی حالت میں کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیتا رہا اور انہی دنوں وہ خود سے یہ سوال پوچھتا تھا جو آج ایمرجنسی وارڈ کے ڈاکٹر کی آنکھوں میں تھا۔
’سلیم الیکٹریشن اب اور جی کر کیا کرنا ہے؟‘
لیکن وہ جیتا رہا، آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا، بات پرانی ہوتی گئی۔ تاجی کو پولیس پکڑ کر لے گئی تھی اور اس پر مقدمہ چل رہا تھا۔ سلیم ہر پیشی پر عدالت ضرور جاتا لیکن فیصلہ اگلی پیشی تک کے لیے مؤخر کردیا جاتا۔
فیصلہ نہیں آرہا تھا اور مقدمے کو چلتے ہوئے اب 7 سال گزر چکے تھے۔ اس کے دن تھے کہ مسلسل غربت میں کٹ رہے تھے، آمدن کم اور اخراجات زیادہ تھے۔ وکیل کی فیس اب اضافی بوجھ بنتی جارہی تھی لیکن وہ انصاف کے لیے قرضہ لے کر بھی فیس ضرور ادا کرتا۔ اس کا بڑا بیٹا جو 12 جماعتیں پاس کرکے بھی کئی سال سے بیروزگار پھر رہا تھا، وہ ہر روز کہتا ’ابّا مجھے ٹیکسی خرید دو، میں شہر میں چلاؤں گا۔‘
بیٹی کے رشتے کے لیے لوگ آئے تو انہوں نے جہیز میں موٹر سائیکل کا مطالبہ کردیا تھا۔
جن لوگوں سے قرض لے رکھا تھا وہ دن رات واپسی کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔
الیکٹریشن کا حوصلہ جواب دینے لگا۔ وہ 7 سال بعد پہلی بار عدالت میں پیش نہ ہوسکا۔ اخراجات کا ایک طوفان تھا جسے اس کی ہر ماہ کی تنخواہ پورا کرنے سے قاصر تھی۔ جن سے قرض لے رکھا تھا وہ اب اس کے خلاف مقدمہ کرنے لگے تھے کہ وہ جب بھی گھر پر آتے تو یہ بچوں سے کہتا ’کہہ دو کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔‘
نوکری پر جانا اس کے لیے تقریباً ناممکن ہوچکا تھا۔
پھر ایک رات اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔
اس نے سوچا اس وقت آدھی رات کو بھلا کون آسکتا ہے؟ یقیناً کوئی قرض واپس لینے ہی آیا ہوگا، سو دروازہ نہیں کھولتا۔ لیکن لگاتار دستک ہوتی رہی تو وہ اُٹھا اور آہستگی سے چلتے ہوئے دروازے تک آیا۔
’کو۔۔کو ۔۔۔۔۔کون ہے؟‘ اس کی آواز لرز گئی تھی۔
’میں ہوں سراج‘، دوسری طرف تاجی کا باپ تھا۔
’تم، تمہاری جرات کیسے ہوئی میرے دروازے پر دستک دینے کی؟‘ اس نے دروازہ کھولا اور زور سے چلایا۔
’دیکھو سلیم میری بات غور سے سنو۔ مجھے معلوم ہے تم آج کل بہت پریشان ہو۔ میرے پاس ان پریشانیوں کا حل ہے۔ باہر آؤ اور میری بات ٖغور سے سنو۔‘ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سراج کے ساتھ چل پڑا۔
اس بات کو 30 سال گزر چکے تھے اور اب وہ عمر کے اس حصے میں تھا جہاں راتوں کو نیند کم آتی ہے، وہ ساری رات چھت کو گُھورتا رہتا لیکن اسے نیند نہ آتی اور اگر نیند آتی بھی تو خوابوں میں اس کا بیٹا وسیم ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈیاں اُٹھائے ہوئے آجاتا اور اس سے کہتا
’ابّا تُو نے گھاٹے کا سودا کیا‘
وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھتا اور پھر ساری رات چھت گھورتے ہوئے گزر جاتی لیکن اب کئی روز سے اسے جاگتے ہوئے بھی وسیم دکھائی دینے لگا تھا۔ اسی خون آلود اسکول یونیفارم میں۔
’وسیم تم یہاں کیسے؟ تم تو فوت ہوگئے تھے۔‘ وہ جب اپنے کمرے کی کرسی پر وسیم کو بیٹھے دیکھتا تو اس سے پوچھتا۔
وسیم چلتا ہوا اس کے قریب آتا اور اس کے سامنے نوٹ لہرا کر کہتا۔
’ابّا ان نوٹوں کی خوشبو کیسی ہے؟‘
وہ گھبرا کر منہ دیوار کی جانب کر لیتا جہاں وسیم اپنی خون آلود شرٹ تھامے کھڑا ہوتا۔
’میرے بچے مجھے معاف کردو۔ یہ حالات کا فیصلہ تھا، اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔‘
کئی بار جب وہ وسیم سے باتیں کررہا ہوتا تو آواز بہت اونچی ہوجاتی اور اس کے بچے اس سے پوچھتے کہ وہ خالی کمرے میں کس سے باتیں کررہا ہے؟ ایک روز اس نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا کہ ’بیٹا تمہارا چھوٹا بھائی وسیم جو کئی سال پہلے فوت ہوگیا تھا، اب ہر روز اس کمرے میں آتا ہے اور وہ سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ میں منہ دوسری طرف پھیر لوں تو پلنگ پر چڑھ آتا ہے اور ہاتھ میں وہی خون آلود یونیفارم ہوتا ہے جو ڈھیر پر ملا تھا۔‘
’ابّا دوا وقت پر لیا کریں اور جلدی سوجایا کریں، یہ سب وہم ہے آپ کا۔‘ اس کے بیٹے نے کہا۔
اس کے دن رات اسی طرح روتے دھوتے گزر رہے تھے اور آج رات اس کے سینے میں درد کی ایک لہر اُٹھی تھی اور وہ چلّا اٹھا تھا۔
ایمرجنسی وارڈ کے ڈاکٹر کی آنکھوں میں وہی سوال تھا جو 30 برس پہلے وسیم کی گمشدگی کے 3 روز میں اس نے خود سے کئی بار پوچھا تھا لیکن وہ جیتا رہا تھا۔
’ڈاکٹر صاحب کیا فوت ہوئے لوگ بھی نظر آسکتے ہیں؟‘ اس نے آکسیجن ماسک ہٹا کر ڈاکٹر سے پوچھا۔
’چاچا جی خواب میں نظر آسکتے ہیں‘، ڈاکٹر نے کہا۔
’نہیں نہیں بالکل ایسے سامنے جیسے آپ کھڑے ہیں، جیسے یہ میرا بیٹا نسیم کھڑا ہے، بالکل ایسے ہی اور آپ ہی کی طرح باتیں بھی کرسکتے ہیں، یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیا میں نے گھاٹے کا سودا کیا تھا؟‘
’آپ نے کون سا فیصلہ گھاٹے کا کیا تھا؟‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔
’میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا، نہیں بالکل نہیں کیا تھا۔ میں حالات کے ہاتھوں مجبور ہوگیا تھا، یہ فیصلہ حالات نے کیا تھا، یہ فیصلہ اس بوسیدہ عدالتی نظام نے کیا تھا‘، وہ چیخنے چلانے لگا۔
سلیم الیکٹریشن کے سینے میں ایک بار پھر درد کی لہر اٹھی تو اس نے سینے پر ہاتھ رکھ لیا۔
ڈاکٹر نے فوری طور پر ماسک اس کی ناک پر چڑھایا۔
اس کی آنکھیں درد کی شدت سے بند ہونے لگی تھیں۔ اس کا بڑا بیٹا نسیم، ڈاکٹر اور وارڈ کے دوسرے مریض منظر سے غائب ہونے لگ گئے تھے۔
’رُکو مجھے اکیلا مت چھوڑ کر جاؤ۔‘ یہ بات وہ کہنا چاہ رہا تھا لیکن زبان لفظوں کی ادائیگی سے محروم تھی۔
مکمل اندھیرا ہونے سے پہلے اس نے جو آخری منظر دیکھا تھا اس میں ایک لڑکا خون آلود اسکول یونیفارم پہنے ہسپتال کے بیڈ کے کونے پر بیٹھا رو رہا تھا۔
’کیا ہوا ابّا؟‘ اس کے بڑے بیٹے نے پوچھا۔
’ہسپتال لے چلو مجھے‘، اس نے مشکل سے جملہ مکمل کیا تھا۔
پھر اس کے بچے اسے سرکاری ہسپتال لے آئے جہاں ایمرجنسی وارڈ میں ڈاکٹروں کی فوری طبی امداد کے بعد اس کا درد کچھ تھم سا گیا تھا۔ جیسے آگ پر پانی پھینک دینے سے ہلکا ہلکا دھواں دیرتک نکلتا رہتا ہے، اس کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ وہ اب آکسیجن ماسک لگائے، بیڈ پر سیدھا لیٹا، چھت کو گُھورے جارہا تھا۔
2 سال پہلے ڈاکٹروں نے اسے دل کا آپریشن کروانے کے لیے کہا تھا لیکن اسے آپریشن سے خوف آتا تھا۔ وہ سوچتا تھا کہ اگر سینہ چاک ہوگیا تو بند کیسے ہوگا؟ اور اگر ایسے میں وہ ہوش میں نہ آیا تو بے ہوشی کی حالت میں ہی مرجائے گا۔ لیکن اگر ہوش آگیا اور ڈاکٹروں نے اس کا سینہ ابھی نہ سیا ہو تو وہ چاک سینے کے ساتھ کیسا محسوس کرے گا؟
عجیب سے وہم تھے جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے، لہٰذا وہ آپریشن کے نام سے بھاگتا رہتا لیکن بیماریوں کو اس بات کی چنداں پروا نہیں ہوتی کہ آپ کس وقت کس طرح کے خوف اور وہم کا شکار ہیں۔ وہ آپ کا پیچھا کرتی رہتی ہیں تاکہ وہ اس جسم کے قلعے پر فتح کا جھنڈا نصب کرسکیں۔ آدمی، یہ مٹی کا بنا پتلا آخر کب تک بیماریوں کا مقابلہ کرسکتا ہے خاص کر تب جب آپ کے پاس بیماریوں کے خلاف لڑنے کے لیے رقم کم ہو۔ ایسے میں تو بیماری کی فتح یقینی ہوتی ہے۔
’ڈاکٹر صاحب مجھے بچا لیجیے، آپریشن کے بغیر ہی کچھ علاج کردیجیے ورنہ میں اس درد سے مرجاؤں گا‘، اس نے ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے ہی وہاں موجود ڈاکٹر سے یہ کہا تھا۔ ڈاکٹر نے اس ہڈیوں کے ڈھانچے، شکل و صورت سے خستہ حال بوڑھے کی جانب یوں دیکھا تھا جیسے وہ پوچھنا چاہ رہے ہوں کہ ’اس خستہ حالی میں تم آخر جی کر کرنا کیا چاہتے ہو؟‘
اس نے ڈاکٹر کی نظروں میں موجود سوال کو پڑھ لیا تھا، ایسا ہی سوال بہت سال پہلے اس نے خود سے بھی کیا تھا جب اس کا سب سے چھوٹا بیٹا وسیم غائب ہوگیا تھا اور جس کی یادیں اب سالوں بعد اسے بے چین کیے رکھتی تھیں۔
وسیم جب اغوا ہوا تو اس کی عمر 10 سال تھی اور وہ پانچویں جماعت میں زیرِ تعلیم تھا۔ ایک دن وہ اسکول گیا اور پھر اگلے 3 روز تک نہ ملا۔ مسجدوں میں اعلان ہوا، اخبار میں اشتہار دیا لیکن 3 روز تک اس کا کوئی سُراغ نہ ملا۔
ان 3 دنوں کے دوران اَن گنت افواہیں پھیل چکی تھیں۔ کچھ لوگ کہتے کہ انہوں نے وسیم کو ریلوے اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھا، کچھ نے اسے دوپہر کو نہر کنارے بیٹھے دیکھا تھا اور کچھ لوگوں نے اسے رشید کمہار کے گھر کے سامنے کھیلتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں تھیں اور ہر بات سُن کر سلیم الیکٹریشن مزید پریشان ہوجاتا اور اسے عجیب و غریب وہم گھیر لیتے۔ جیسے
’کہیں وسیم غلطی سے ٹرین میں تو نہیں بیٹھ گیا؟‘
’کہیں وہ نہر میں تو نہیں ڈوب گیا؟‘
یہ ساری باتیں اسے پریشان کیے رکھتیں اور وہ اب اس کے علاوہ کچھ اور سوچتا ہی نہیں۔ اگرچہ اسے اپنے تمام ہی بچوں سے محبت تھی، مگر چھوٹے وسیم سے تو کچھ خاص اُنسیت تھی۔ وسیم کو جنم دینے کے 2 سال بعد اس کی بیوی فوت ہوگئی تھی، لہٰذا سلیم نے اپنے اس بچے کو ماں بن کر بھی پالا تھا، اور یہ پیار یکطرفہ نہیں تھا بلکہ وسیم بھی اپنے باپ پر جان چھڑکتا تھا۔ سلیم الیکٹریشن کے پاس ایک سائیکل تھی جس پر وہ اپنے بیٹے وسیم کو بٹھا کر سارے گاؤں کی سیر کرواتا، جب کبھی دوسرے گاؤں میں میلہ لگتا تو وہ اسی سائیکل پر جاتے۔ سائیکل میلی ہوجاتی تو وسیم کہتا، ’ابّا دیکھیں ہماری سائیکل کس قدر میلی ہوگئی ہے، آج ہم اِس کی صفائی کریں گے۔‘
وہ پانی کی بوتل اور برش اٹھا کر لے آتا اور پھر باپ بیٹا مل کر سائیکل کو خوب رگڑ رگڑ کر صاف کرتے۔ جب صفائی ہوجاتی تو وہ ہمیشہ اپنے ابّا سے پوچھتا ’ابّا ایسی صاف سائیکل کیا گاؤں میں کسی اور کی ہوگی؟‘
اور سلیم جواب دیتا کہ ’نہیں نہیں ایسی چمکدار سائیکل بھلا کس کے پاس ہوسکتی ہے؟ اسے ہمارے شہزادے نے جو صاف کیا ہے۔‘
وسیم کو اپنے ابّا کی جرابیں، ٹوپی، رومال غرض ہر شے کا علم ہوتا کہ وہ کہاں رکھی ہیں۔ جب سلیم اپنی کوئی چیز ڈھونڈ رہا ہوتا تو وسیم کہیں سے بھی وہ چیز ڈھونڈ لاتا۔
’ابّا آپ کی جرابیں یہ چارپائی کے نیچے پڑی تھیں‘
’ابّا آپ کا رومال باورچی خانے میں رہ گیا تھا‘
سلیم الیکٹریشن کو اپنے اس بیٹے سے بے پناہ محبت تھی لیکن اب وہ گُم ہوگیا تھا۔
اغوا ہونے کے 3 دن بعد وسیم ملا لیکن ایک لاش کی صورت جو کُوڑا کرکٹ کے ڈھیر پر پڑی تھی، جسے دیکھنے کے لیے اس کے دل اور آنکھوں میں تاب نہیں تھی لیکن زندگی کبھی کبھار انسان کو ایسے دوراہے پر بھی لاکھڑا کرتی ہے جہاں وہ منظر بھی دیکھنے پڑتے ہیں جن کے بارے سوچا بھی نہیں جاسکتا سو اسے دیکھنا پڑا۔ ہنستے مسکراتے معصوم وسیم کو زخموں سے چُور ایک جسم کی صورت میں۔ اس منظر کے بعد اس کا دل اور آنکھیں پہلی سی نہیں رہی تھیں۔
اس حادثے کی خبریں اخبارات میں شائع ہوئیں تو صحافیوں اور میڈیا کے لوگوں نے اس کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ سلیم جو غم کے گہرے سمندر میں ڈوب گیا تھا، وہ چاہتا تھا کہ گریبان چاک کرے اور روتے روتے کسی ویرانے میں نکل جائے جہاں اس سے کوئی کسی قسم کی بات نہ کرے لیکن دنیا کے پاس ان گنت سوالات تھے۔
’تو سلیم صاحب اب جیسے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ قاتل آپ کا پڑوسی تاجی تھا، تو کیا آپ کو تاجی پر پہلے کبھی شک پڑا تھا؟‘
’کیا تاجی سے آپ کی کوئی خاص دشمنی تھی؟‘
’تاجی کو لاش پھینکتے ہوئے کیا آپ نے خود دیکھا تھا؟‘
’آپ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کیا اپیل کرنا چاہیں گے؟‘
وہ دکھ کی حالت میں کچھ سمجھتے ہوئے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیتا رہا اور انہی دنوں وہ خود سے یہ سوال پوچھتا تھا جو آج ایمرجنسی وارڈ کے ڈاکٹر کی آنکھوں میں تھا۔
’سلیم الیکٹریشن اب اور جی کر کیا کرنا ہے؟‘
لیکن وہ جیتا رہا، آہستہ آہستہ وقت گزرتا گیا، بات پرانی ہوتی گئی۔ تاجی کو پولیس پکڑ کر لے گئی تھی اور اس پر مقدمہ چل رہا تھا۔ سلیم ہر پیشی پر عدالت ضرور جاتا لیکن فیصلہ اگلی پیشی تک کے لیے مؤخر کردیا جاتا۔
فیصلہ نہیں آرہا تھا اور مقدمے کو چلتے ہوئے اب 7 سال گزر چکے تھے۔ اس کے دن تھے کہ مسلسل غربت میں کٹ رہے تھے، آمدن کم اور اخراجات زیادہ تھے۔ وکیل کی فیس اب اضافی بوجھ بنتی جارہی تھی لیکن وہ انصاف کے لیے قرضہ لے کر بھی فیس ضرور ادا کرتا۔ اس کا بڑا بیٹا جو 12 جماعتیں پاس کرکے بھی کئی سال سے بیروزگار پھر رہا تھا، وہ ہر روز کہتا ’ابّا مجھے ٹیکسی خرید دو، میں شہر میں چلاؤں گا۔‘
بیٹی کے رشتے کے لیے لوگ آئے تو انہوں نے جہیز میں موٹر سائیکل کا مطالبہ کردیا تھا۔
جن لوگوں سے قرض لے رکھا تھا وہ دن رات واپسی کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔
الیکٹریشن کا حوصلہ جواب دینے لگا۔ وہ 7 سال بعد پہلی بار عدالت میں پیش نہ ہوسکا۔ اخراجات کا ایک طوفان تھا جسے اس کی ہر ماہ کی تنخواہ پورا کرنے سے قاصر تھی۔ جن سے قرض لے رکھا تھا وہ اب اس کے خلاف مقدمہ کرنے لگے تھے کہ وہ جب بھی گھر پر آتے تو یہ بچوں سے کہتا ’کہہ دو کہ میں گھر پر نہیں ہوں۔‘
نوکری پر جانا اس کے لیے تقریباً ناممکن ہوچکا تھا۔
پھر ایک رات اس کے دروازے پر دستک ہوئی۔
اس نے سوچا اس وقت آدھی رات کو بھلا کون آسکتا ہے؟ یقیناً کوئی قرض واپس لینے ہی آیا ہوگا، سو دروازہ نہیں کھولتا۔ لیکن لگاتار دستک ہوتی رہی تو وہ اُٹھا اور آہستگی سے چلتے ہوئے دروازے تک آیا۔
’کو۔۔کو ۔۔۔۔۔کون ہے؟‘ اس کی آواز لرز گئی تھی۔
’میں ہوں سراج‘، دوسری طرف تاجی کا باپ تھا۔
’تم، تمہاری جرات کیسے ہوئی میرے دروازے پر دستک دینے کی؟‘ اس نے دروازہ کھولا اور زور سے چلایا۔
’دیکھو سلیم میری بات غور سے سنو۔ مجھے معلوم ہے تم آج کل بہت پریشان ہو۔ میرے پاس ان پریشانیوں کا حل ہے۔ باہر آؤ اور میری بات ٖغور سے سنو۔‘ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی سراج کے ساتھ چل پڑا۔
اس بات کو 30 سال گزر چکے تھے اور اب وہ عمر کے اس حصے میں تھا جہاں راتوں کو نیند کم آتی ہے، وہ ساری رات چھت کو گُھورتا رہتا لیکن اسے نیند نہ آتی اور اگر نیند آتی بھی تو خوابوں میں اس کا بیٹا وسیم ہاتھوں میں نوٹوں کی گڈیاں اُٹھائے ہوئے آجاتا اور اس سے کہتا
’ابّا تُو نے گھاٹے کا سودا کیا‘
وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھتا اور پھر ساری رات چھت گھورتے ہوئے گزر جاتی لیکن اب کئی روز سے اسے جاگتے ہوئے بھی وسیم دکھائی دینے لگا تھا۔ اسی خون آلود اسکول یونیفارم میں۔
’وسیم تم یہاں کیسے؟ تم تو فوت ہوگئے تھے۔‘ وہ جب اپنے کمرے کی کرسی پر وسیم کو بیٹھے دیکھتا تو اس سے پوچھتا۔
وسیم چلتا ہوا اس کے قریب آتا اور اس کے سامنے نوٹ لہرا کر کہتا۔
’ابّا ان نوٹوں کی خوشبو کیسی ہے؟‘
وہ گھبرا کر منہ دیوار کی جانب کر لیتا جہاں وسیم اپنی خون آلود شرٹ تھامے کھڑا ہوتا۔
’میرے بچے مجھے معاف کردو۔ یہ حالات کا فیصلہ تھا، اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔‘
کئی بار جب وہ وسیم سے باتیں کررہا ہوتا تو آواز بہت اونچی ہوجاتی اور اس کے بچے اس سے پوچھتے کہ وہ خالی کمرے میں کس سے باتیں کررہا ہے؟ ایک روز اس نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا کہ ’بیٹا تمہارا چھوٹا بھائی وسیم جو کئی سال پہلے فوت ہوگیا تھا، اب ہر روز اس کمرے میں آتا ہے اور وہ سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ میں منہ دوسری طرف پھیر لوں تو پلنگ پر چڑھ آتا ہے اور ہاتھ میں وہی خون آلود یونیفارم ہوتا ہے جو ڈھیر پر ملا تھا۔‘
’ابّا دوا وقت پر لیا کریں اور جلدی سوجایا کریں، یہ سب وہم ہے آپ کا۔‘ اس کے بیٹے نے کہا۔
اس کے دن رات اسی طرح روتے دھوتے گزر رہے تھے اور آج رات اس کے سینے میں درد کی ایک لہر اُٹھی تھی اور وہ چلّا اٹھا تھا۔
ایمرجنسی وارڈ کے ڈاکٹر کی آنکھوں میں وہی سوال تھا جو 30 برس پہلے وسیم کی گمشدگی کے 3 روز میں اس نے خود سے کئی بار پوچھا تھا لیکن وہ جیتا رہا تھا۔
’ڈاکٹر صاحب کیا فوت ہوئے لوگ بھی نظر آسکتے ہیں؟‘ اس نے آکسیجن ماسک ہٹا کر ڈاکٹر سے پوچھا۔
’چاچا جی خواب میں نظر آسکتے ہیں‘، ڈاکٹر نے کہا۔
’نہیں نہیں بالکل ایسے سامنے جیسے آپ کھڑے ہیں، جیسے یہ میرا بیٹا نسیم کھڑا ہے، بالکل ایسے ہی اور آپ ہی کی طرح باتیں بھی کرسکتے ہیں، یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کیا میں نے گھاٹے کا سودا کیا تھا؟‘
’آپ نے کون سا فیصلہ گھاٹے کا کیا تھا؟‘ ڈاکٹر نے پوچھا۔
’میں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا، نہیں بالکل نہیں کیا تھا۔ میں حالات کے ہاتھوں مجبور ہوگیا تھا، یہ فیصلہ حالات نے کیا تھا، یہ فیصلہ اس بوسیدہ عدالتی نظام نے کیا تھا‘، وہ چیخنے چلانے لگا۔
سلیم الیکٹریشن کے سینے میں ایک بار پھر درد کی لہر اٹھی تو اس نے سینے پر ہاتھ رکھ لیا۔
ڈاکٹر نے فوری طور پر ماسک اس کی ناک پر چڑھایا۔
اس کی آنکھیں درد کی شدت سے بند ہونے لگی تھیں۔ اس کا بڑا بیٹا نسیم، ڈاکٹر اور وارڈ کے دوسرے مریض منظر سے غائب ہونے لگ گئے تھے۔
’رُکو مجھے اکیلا مت چھوڑ کر جاؤ۔‘ یہ بات وہ کہنا چاہ رہا تھا لیکن زبان لفظوں کی ادائیگی سے محروم تھی۔
مکمل اندھیرا ہونے سے پہلے اس نے جو آخری منظر دیکھا تھا اس میں ایک لڑکا خون آلود اسکول یونیفارم پہنے ہسپتال کے بیڈ کے کونے پر بیٹھا رو رہا تھا۔