یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

فاطمہ طاہرہ

وفقہ اللہ
رکن
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا

کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیر نیم کش کو

یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غم عشق گر نہ ہوتا غم روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے شب غم بری بلا ہے

مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا

نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ

تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
 

احمدقاسمی

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا
 

زنیرہ عقیل

منتظم اعلی۔ أیدہ اللہ
Staff member
منتظم اعلی
بہادر شاہ ظفر نے درج بالاغزل کے آخری شعر سننے کے بعد مرزا غالب سے کہا کہ بھئی ہم تو تب بھی ولی نہ سمجھتے۔
تو مرزا غالب نے جواب دیا ۔۔۔ پیر و مرشد تو اب بھی ایسا ہی سمجھتے ہیں مگر یہ اس لیے ارشاد ہوا کہ میں اپنی ولایت پر کہیں مغرور نہ ہو جاؤں۔
بہادر شا ہ ظفر (ہلکا قہقہہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرزا نوشہ خدا تمہیں زندہ رکھے۔ بڑے ہی دل چسپ آدمی ہو اور بھئی پڑھتے تو خوب ہو۔
 
Top