شرعی عبادات میں بعض عبادات کا تعلق وقت کے ساتھ ہے جیسے صاحب استطاعت پر حج کے دنوں میں حج فرض ہے اسی طرح نماز کے اوقات میں نماز کی ادائیگی واجب ہے جب ظہر کی نماز کا وقت ہو تو ظہر کی نماز کی ادائیگی فرض ہو جاتی ہے وغیرہ۔
کیا زکوۃ کے وجوب کا بھی کوئی وقت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ زکوۃ کے وجوب کا بھی وقت مقرر ہے جمہور فقہاء احناف، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے ہاں جب کوئی شخص نصاب کا مالک ہو اور مال کا مالک بننے کے بعد اس کی ملکیت میں اس پر سال گزر جائے تو دیگر شرائط پائے جانے کی صورت میں زکوۃ کی ادائیگی فورا واجب ہے اور اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں۔
1) فوری ادائیگی کی شرائط:
زکوۃ کی فوری ادائیگی دو شرائط کے ساتھ واجب ہو گی:
1: مال اس کے پاس ہو۔
2: زکوۃ وصول کرنے والے لوگ موجود ہوں۔ یعنی فقراء اور مساکین موجود ہوں یا حکومت کی طرف سے مقرر نمائندگان زکوۃ کی وصولی کے لیے آجائیں۔
لہذا مندرجہ بالا دونوں صورتیں نہ ہوں تو پھر زکوۃ کی فوری ادائیگی میں تاخیر کا گناہ نہ ہو گا۔
2) زکوۃ کی ادائیگی کے لیے رمضان ضروری نہیں:
عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی رمضان میں ضروری ہے، جبکہ ایسی بات نہیں بلکہ زکوۃ کی ادائیگی کا وقت ہر آدمی کا مختلف ہے۔
زکوۃ اس وقت واجب ہوتی جب دیگر تمام شرائط پائی جائیں اور مال پر ایک سال گزر جائے اور صاحب نصاب بننے کے بعد جس وقت بھی سال مکمل ہو جائے اسی وقت زکوۃ واجب ہوگی رمضان کا انتظار ضروری نہیں۔
کسی شخص کو اگر یہ یاد نہ ہو کہ وہ کب اور کس تاریخ یا کس مہینے صاحب نصاب بنا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ سوچ بچار کے بعد غالب گمان سے ایک مہینہ اور تاریخ مقرر کر دے کہ جس پر اس کو غالب گمان ہو کہ اس دن وہ صاحب نصاب بنا اور اس تاریخ اور مہینے کو یاد رکھے۔ ہر سال اسی دن اپنے زکوۃ کا حساب کتاب کر لے اور بہتر یہ ہے کہ فورا ادا کر دے۔
3) مختلف اموال میں زکوۃ کی ادائیگی کا وقت:
اموال زکوۃ چونکہ مختلف اقسام کے ہیں تو مختلف قسم کے اموال کی ادائیگی کا وقت بھی مختلف ہے۔
1: سونا، چاندی، نقدی، اموال تجارت:
مال اگر سونا، چاندی، نقدی، اموال تجارت اور مویشی ہوں تو سال گزرنے کے بعد زکوۃ ادا کی جائے گی اور ان اموال میں سال میں ایک دفعہ زکوۃ ادا کرنا واجب ہے۔
2: زرعی پیداوار میں زکوۃ کے وجوب کا وقت:
زرعی پیداوار میں زکوۃ اس وقت واجب ہے جب یہ پیداوار سے حاصل ہو جائے جیسے اگر چاول کی فصل ہو تو جب چاول پک کر تیار ہو جائے اور اس کی کٹائی کر لی جائے تب زکوۃ واجب ہو گی۔
زرعی پیداوار میں زکوۃ کا تعلق پیداوار کے ساتھ ہے سال گزرنے کے ساتھ نہیں لہذا اگر سال میں دو یا تین فصلیں بھی حاصل ہو تو ان میں سے ہر حاصل ہونے والی فصل میں الگ الگ زکوۃ واجب ہو گی۔
زرعی پیداوار میں زکوۃ واجب ہو گی کہ جب فصل پک جائے یا کٹائی کر لی جائے یا یہ کہ اس سے دانا حاصل ہو جائے اس سلسلے میں فقہاء کی مختلف آراء ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
احناف کی رائے: امام ابو حنیفہ کے ہاں پھل جب اس حد تک پک جائے کہ وہ قابل اتفاع ہو اور اب عمومی حالات میں اس کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ رہے اگرچہ ابھی توڑنے کے قابل نہ ہوا ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہو گی۔
مالکیہ اور شوافع اور حنابلہ کی رائے: جب پھل پک کر سخت ہو جائے اور کھانے کے قابل ہو جائے اور اب اس فصل اور درختوں کو سیراب کرنے کی ضرورت نہ رہے تو اس میں زکوۃ واجب ہو گی۔
3: شہد کی زکوۃ کا وقت:
جس وقت شہد حاصل ہو اس وقت فورا اس کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔
4: معادن کی زکوۃ:
معادن سے مراد زمین سے حاصل ہونے والے ذخائر ہیں۔ اس میں سے بھی اس وقت زکوۃ ادا کی جائے گی جب وہ حاصل ہو جائے یہ احناف اور حنابلہ کا مسلک ہے۔
شوافع کے ہاں معادن میں زکوۃ تب واجب ہو گی جب وہ نصاب بقدر ہو اور اس پر سال بھی گزر جائے۔ گویا امام شافعی کے نزدیک معادن کی زکوۃ ایسے ہی دی جائے گی جیسے نقدی اور اموال تجارت کی دی جاتی ہے اس میں نصاب اور سال گزرنا دونوں شرط ہیں۔
امام مالک کے رائے یہ ہے کہ اس میں نصاب کا پورا ہونا ضروری جبکہ سال کا گزرنا شرط نہیں ہے۔
4) زکوۃ میں قمری سال کا اعتبار:
فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ زکوۃ میں قمری سال کا اعتبار ہو گا یعنی جب مال پر قمری سال پورا ہو جائے اور باقی شرائط پوری ہوں تو زکوۃ واجب ہو گی۔ شمسی سال کا اعتبار نہیں جس طرح اسلام کے باقی احکام روزہ، حج کا اعتبار قمری سال کا ہوتا ہے اسی طرح یہاں بھی قمری سال کا اعتبار ہو گا۔
5) کیا پورا سال مال کا نصاب برابر رہنا ضروری ہے یا نہیں:
اس سلسلے میں فقہاء کی درج ذیل آراء ہیں
فقہائے احناف کی رائے:
احناف کے ہاں سال کے دونوں اطراف میں نصاب کے کامل ہونے کی شرط لگائی گئی ہے، چاہے سال کے دوران نصاب کامل رہے یا ناقص۔ چنانچہ جب کوئی انسان سال کے شروع میں کامل نصاب کا مالک بنا مثلا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی قیمت کے برابر نقد رقم ہو تو سال کے دوران اس نصاب پر درج ذیل حالات آسکتے ہیں
مالکیہ کی رائے:
سونا، چاندی، نقدی، اموال تجارت اور جانوروں کی زکوۃ میں سال گزرنا شرط ہے جبکہ اس کے علاوہ دیگر اموال زکوۃ میں سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ اگر سال کے دوران سونا چاندی کے نصاب میں کمی واقع ہو جائے پھر مالک کو تجارت وغیرہ سے نفع حاصل ہو تو زکوۃ واجب ہو گی۔
فقہائے شوافع کی رائے:
ان کی رائے بھی مالکیہ کی طرح ہے۔ البتہ سال میں یہ شرط ہے کے لگاتار ایک سال گزرے لہذا سال کے دوران اگر نصاب میں کمی واقع ہوئی اگرچہ لمحہ کے لیے بھی نصاب میں کمی واقع ہو تو زکوۃ واجب نہیں ہو گی۔
فقہائے حنابلہ کی رائے:
فقہائے حنابلہ کے ہاں سونا، چاندی، نقدی، اموال تجارت اور جانوروں کی زکوۃ میں سال گزرنا شرط ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ دیگر اموال زکوۃ میں سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ اگر کچھ وقت کے لیے مال نصاب سے کم ہو گیا جیسے آدھے دن کے لیے یا چند گھڑیوں کے لیے نصاب کم ہو گیا اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
6) سال کے دوران حاصل شدہ مال:
سال کے دوران حاصل ہونے والے مال میں الگ سے سال گزرنا شرط ہے یا اس کو اصل مال کے ساتھ شامل کر کے زکوۃ ادا دی جائے گی؟
اس سلسلے میں درج ذیل نکات ہیں:
1: اصل مال کے علاوہ اضافی مال یا تو زکوۃ کے سال کے دوران حاصل ہوا ہو گا یا زکوۃ کا سال مکمل ہونے کے بعد حاصل ہو گا۔ اگر زکوۃ کا سال مکمل ہونے کے بعد حاصل ہو تو اس مال میں زکوۃ واجب نہیں ہو گی اور اس کو اموال زکوۃ میں شامل نہیں کیا جائے گا بلکہ اگلے سال اس کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔
2: اگر سال کے دوران حاصل ہوا ہے تو پھر یا تو وہ اصل مال کے جنس میں نہیں ہو گا بلکہ کسی اور جنس میں سے ہو گا جیسے کہ اصل میں اس کے پاس گائے تھیں اور اضافی مال اس کو اونٹ کی شکل میں ملا ایسی صورت میں ہر مال کا الگ حساب رکھا جائے گا اور دونوں اموال کو مال کر زکوۃ نہیں دی جائے گی۔
3: اگر اضافی مال اصل مال کی جنس سے ہو تو پھر دیکھا جائے گا کہ اضافی مال اصل مال ہی سے حاصل ہوا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے جیسے جانور کا بچہ اور مال تجارت کا نفع ہے تو اس صورت میں تمام فقہاء کے ہاں اضافی مال کو اصل مال کے ساتھ ملا کر زکوۃ دی جائے گی یعنی اس کو کل مال زکوۃ میں شامل کر لیا جائے گا۔
7) وجوب زکوۃ کے بعد مال کا ضائع ہو جانا:
اگر زکوۃ واجب ہونے کے بعد مال ضائع ہو گیا تو زکوۃ کی ادائیگی ساقط ہو گی یا نہیں اس کے بارے میں فقہاء کی آراء درج ذیل ہیں:
فقہائے احناف کی رائے:
اگر زکوۃ واجب ہونے کے بعد مال ضائع ہو گیا تو زکوۃ کی ادائیگی ساقط ہو گی اور اب اس پر زکوۃ واجب نہ رہے گی۔ کیونکہ زکوۃ مال میں مال کی وجہ سے واجب ہوئی ہے اور مال کا ہونا ہی زکوۃ کا سبب اور وجہ ہے لہذا مال نہیں رہا تو زکوۃ بھی واجب نہیں ہو گی۔
البتہ اگر کسی شخص نے جان بوجھ کر مال ضائع کر دیا تو پھر فقہائے احناف کے ہاں اس پر زکوۃ ساقط نہیں ہوگی بلکہ وہ بدستور واجب رہے گی۔ اس لیے کہ اب اس کی طرف ظلم اور حد سے تجاوز ہوا ہے۔
جمہور فقہاء کی رائے:
احناف کے علاوہ دیگر فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اگر زکوۃ واجب ہونے کے بعد مال ضائع ہو گیا تو اس پر زکوۃ بدستور واجب رہے گی اور ساقط نہیں ہو گی۔ ان حضرات کے نزدیک اس کی مثال صدقہ فطر اور حج کی طرح ہے کہ جیسے وہ واجب ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتے اسی طرح زکوۃ بھی ساقط نہیں ہو گی۔ (اسلام کا قانون زکوۃ و عشر)
کیا زکوۃ کے وجوب کا بھی کوئی وقت ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ زکوۃ کے وجوب کا بھی وقت مقرر ہے جمہور فقہاء احناف، مالکیہ، شوافع اور حنابلہ کے ہاں جب کوئی شخص نصاب کا مالک ہو اور مال کا مالک بننے کے بعد اس کی ملکیت میں اس پر سال گزر جائے تو دیگر شرائط پائے جانے کی صورت میں زکوۃ کی ادائیگی فورا واجب ہے اور اس میں تاخیر کرنا جائز نہیں۔
1) فوری ادائیگی کی شرائط:
زکوۃ کی فوری ادائیگی دو شرائط کے ساتھ واجب ہو گی:
1: مال اس کے پاس ہو۔
2: زکوۃ وصول کرنے والے لوگ موجود ہوں۔ یعنی فقراء اور مساکین موجود ہوں یا حکومت کی طرف سے مقرر نمائندگان زکوۃ کی وصولی کے لیے آجائیں۔
لہذا مندرجہ بالا دونوں صورتیں نہ ہوں تو پھر زکوۃ کی فوری ادائیگی میں تاخیر کا گناہ نہ ہو گا۔
2) زکوۃ کی ادائیگی کے لیے رمضان ضروری نہیں:
عموما یہ سمجھا جاتا ہے کہ زکوۃ کی ادائیگی رمضان میں ضروری ہے، جبکہ ایسی بات نہیں بلکہ زکوۃ کی ادائیگی کا وقت ہر آدمی کا مختلف ہے۔
زکوۃ اس وقت واجب ہوتی جب دیگر تمام شرائط پائی جائیں اور مال پر ایک سال گزر جائے اور صاحب نصاب بننے کے بعد جس وقت بھی سال مکمل ہو جائے اسی وقت زکوۃ واجب ہوگی رمضان کا انتظار ضروری نہیں۔
کسی شخص کو اگر یہ یاد نہ ہو کہ وہ کب اور کس تاریخ یا کس مہینے صاحب نصاب بنا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ سوچ بچار کے بعد غالب گمان سے ایک مہینہ اور تاریخ مقرر کر دے کہ جس پر اس کو غالب گمان ہو کہ اس دن وہ صاحب نصاب بنا اور اس تاریخ اور مہینے کو یاد رکھے۔ ہر سال اسی دن اپنے زکوۃ کا حساب کتاب کر لے اور بہتر یہ ہے کہ فورا ادا کر دے۔
3) مختلف اموال میں زکوۃ کی ادائیگی کا وقت:
اموال زکوۃ چونکہ مختلف اقسام کے ہیں تو مختلف قسم کے اموال کی ادائیگی کا وقت بھی مختلف ہے۔
1: سونا، چاندی، نقدی، اموال تجارت:
مال اگر سونا، چاندی، نقدی، اموال تجارت اور مویشی ہوں تو سال گزرنے کے بعد زکوۃ ادا کی جائے گی اور ان اموال میں سال میں ایک دفعہ زکوۃ ادا کرنا واجب ہے۔
2: زرعی پیداوار میں زکوۃ کے وجوب کا وقت:
زرعی پیداوار میں زکوۃ اس وقت واجب ہے جب یہ پیداوار سے حاصل ہو جائے جیسے اگر چاول کی فصل ہو تو جب چاول پک کر تیار ہو جائے اور اس کی کٹائی کر لی جائے تب زکوۃ واجب ہو گی۔
زرعی پیداوار میں زکوۃ کا تعلق پیداوار کے ساتھ ہے سال گزرنے کے ساتھ نہیں لہذا اگر سال میں دو یا تین فصلیں بھی حاصل ہو تو ان میں سے ہر حاصل ہونے والی فصل میں الگ الگ زکوۃ واجب ہو گی۔
زرعی پیداوار میں زکوۃ واجب ہو گی کہ جب فصل پک جائے یا کٹائی کر لی جائے یا یہ کہ اس سے دانا حاصل ہو جائے اس سلسلے میں فقہاء کی مختلف آراء ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
احناف کی رائے: امام ابو حنیفہ کے ہاں پھل جب اس حد تک پک جائے کہ وہ قابل اتفاع ہو اور اب عمومی حالات میں اس کے ضائع ہونے کا خطرہ نہ رہے اگرچہ ابھی توڑنے کے قابل نہ ہوا ہو تو اس پر زکوۃ واجب ہو گی۔
مالکیہ اور شوافع اور حنابلہ کی رائے: جب پھل پک کر سخت ہو جائے اور کھانے کے قابل ہو جائے اور اب اس فصل اور درختوں کو سیراب کرنے کی ضرورت نہ رہے تو اس میں زکوۃ واجب ہو گی۔
3: شہد کی زکوۃ کا وقت:
جس وقت شہد حاصل ہو اس وقت فورا اس کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔
4: معادن کی زکوۃ:
معادن سے مراد زمین سے حاصل ہونے والے ذخائر ہیں۔ اس میں سے بھی اس وقت زکوۃ ادا کی جائے گی جب وہ حاصل ہو جائے یہ احناف اور حنابلہ کا مسلک ہے۔
شوافع کے ہاں معادن میں زکوۃ تب واجب ہو گی جب وہ نصاب بقدر ہو اور اس پر سال بھی گزر جائے۔ گویا امام شافعی کے نزدیک معادن کی زکوۃ ایسے ہی دی جائے گی جیسے نقدی اور اموال تجارت کی دی جاتی ہے اس میں نصاب اور سال گزرنا دونوں شرط ہیں۔
امام مالک کے رائے یہ ہے کہ اس میں نصاب کا پورا ہونا ضروری جبکہ سال کا گزرنا شرط نہیں ہے۔
4) زکوۃ میں قمری سال کا اعتبار:
فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ زکوۃ میں قمری سال کا اعتبار ہو گا یعنی جب مال پر قمری سال پورا ہو جائے اور باقی شرائط پوری ہوں تو زکوۃ واجب ہو گی۔ شمسی سال کا اعتبار نہیں جس طرح اسلام کے باقی احکام روزہ، حج کا اعتبار قمری سال کا ہوتا ہے اسی طرح یہاں بھی قمری سال کا اعتبار ہو گا۔
5) کیا پورا سال مال کا نصاب برابر رہنا ضروری ہے یا نہیں:
اس سلسلے میں فقہاء کی درج ذیل آراء ہیں
فقہائے احناف کی رائے:
احناف کے ہاں سال کے دونوں اطراف میں نصاب کے کامل ہونے کی شرط لگائی گئی ہے، چاہے سال کے دوران نصاب کامل رہے یا ناقص۔ چنانچہ جب کوئی انسان سال کے شروع میں کامل نصاب کا مالک بنا مثلا ساڑھے باون تولہ چاندی یا ساڑھے سات تولہ سونا یا اس کی قیمت کے برابر نقد رقم ہو تو سال کے دوران اس نصاب پر درج ذیل حالات آسکتے ہیں
- پورا سال بدستور کامل رہے۔
- سال کے دوران نصاب میں کمی واقع ہوئی۔
- سارا مال ہی ختم ہو گیا۔
مالکیہ کی رائے:
سونا، چاندی، نقدی، اموال تجارت اور جانوروں کی زکوۃ میں سال گزرنا شرط ہے جبکہ اس کے علاوہ دیگر اموال زکوۃ میں سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ اگر سال کے دوران سونا چاندی کے نصاب میں کمی واقع ہو جائے پھر مالک کو تجارت وغیرہ سے نفع حاصل ہو تو زکوۃ واجب ہو گی۔
فقہائے شوافع کی رائے:
ان کی رائے بھی مالکیہ کی طرح ہے۔ البتہ سال میں یہ شرط ہے کے لگاتار ایک سال گزرے لہذا سال کے دوران اگر نصاب میں کمی واقع ہوئی اگرچہ لمحہ کے لیے بھی نصاب میں کمی واقع ہو تو زکوۃ واجب نہیں ہو گی۔
فقہائے حنابلہ کی رائے:
فقہائے حنابلہ کے ہاں سونا، چاندی، نقدی، اموال تجارت اور جانوروں کی زکوۃ میں سال گزرنا شرط ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ دیگر اموال زکوۃ میں سال گزرنا شرط نہیں ہے۔ اگر کچھ وقت کے لیے مال نصاب سے کم ہو گیا جیسے آدھے دن کے لیے یا چند گھڑیوں کے لیے نصاب کم ہو گیا اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا۔
6) سال کے دوران حاصل شدہ مال:
سال کے دوران حاصل ہونے والے مال میں الگ سے سال گزرنا شرط ہے یا اس کو اصل مال کے ساتھ شامل کر کے زکوۃ ادا دی جائے گی؟
اس سلسلے میں درج ذیل نکات ہیں:
1: اصل مال کے علاوہ اضافی مال یا تو زکوۃ کے سال کے دوران حاصل ہوا ہو گا یا زکوۃ کا سال مکمل ہونے کے بعد حاصل ہو گا۔ اگر زکوۃ کا سال مکمل ہونے کے بعد حاصل ہو تو اس مال میں زکوۃ واجب نہیں ہو گی اور اس کو اموال زکوۃ میں شامل نہیں کیا جائے گا بلکہ اگلے سال اس کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔
2: اگر سال کے دوران حاصل ہوا ہے تو پھر یا تو وہ اصل مال کے جنس میں نہیں ہو گا بلکہ کسی اور جنس میں سے ہو گا جیسے کہ اصل میں اس کے پاس گائے تھیں اور اضافی مال اس کو اونٹ کی شکل میں ملا ایسی صورت میں ہر مال کا الگ حساب رکھا جائے گا اور دونوں اموال کو مال کر زکوۃ نہیں دی جائے گی۔
3: اگر اضافی مال اصل مال کی جنس سے ہو تو پھر دیکھا جائے گا کہ اضافی مال اصل مال ہی سے حاصل ہوا ہے اور اسی کا نتیجہ ہے جیسے جانور کا بچہ اور مال تجارت کا نفع ہے تو اس صورت میں تمام فقہاء کے ہاں اضافی مال کو اصل مال کے ساتھ ملا کر زکوۃ دی جائے گی یعنی اس کو کل مال زکوۃ میں شامل کر لیا جائے گا۔
7) وجوب زکوۃ کے بعد مال کا ضائع ہو جانا:
اگر زکوۃ واجب ہونے کے بعد مال ضائع ہو گیا تو زکوۃ کی ادائیگی ساقط ہو گی یا نہیں اس کے بارے میں فقہاء کی آراء درج ذیل ہیں:
فقہائے احناف کی رائے:
اگر زکوۃ واجب ہونے کے بعد مال ضائع ہو گیا تو زکوۃ کی ادائیگی ساقط ہو گی اور اب اس پر زکوۃ واجب نہ رہے گی۔ کیونکہ زکوۃ مال میں مال کی وجہ سے واجب ہوئی ہے اور مال کا ہونا ہی زکوۃ کا سبب اور وجہ ہے لہذا مال نہیں رہا تو زکوۃ بھی واجب نہیں ہو گی۔
البتہ اگر کسی شخص نے جان بوجھ کر مال ضائع کر دیا تو پھر فقہائے احناف کے ہاں اس پر زکوۃ ساقط نہیں ہوگی بلکہ وہ بدستور واجب رہے گی۔ اس لیے کہ اب اس کی طرف ظلم اور حد سے تجاوز ہوا ہے۔
جمہور فقہاء کی رائے:
احناف کے علاوہ دیگر فقہاء کی رائے یہ ہے کہ اگر زکوۃ واجب ہونے کے بعد مال ضائع ہو گیا تو اس پر زکوۃ بدستور واجب رہے گی اور ساقط نہیں ہو گی۔ ان حضرات کے نزدیک اس کی مثال صدقہ فطر اور حج کی طرح ہے کہ جیسے وہ واجب ہونے کے بعد ساقط نہیں ہوتے اسی طرح زکوۃ بھی ساقط نہیں ہو گی۔ (اسلام کا قانون زکوۃ و عشر)