یسر کا مفہوم:
یسر کے لغوی معنی آسانی، آسان ہونا، ممکن ہونا، نرم ہونا، قابو میں ہونا، کسی کام میں کسی کے لئے آسانی پیدا کرنا وغیرہ کے آتے ہیں۔ تخفیف اور تیسیر اس کے مترادف الفاظ ہیں۔
اسلام سلامتی اور خیر خواہی کا دین ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ﷲ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو جس طبیعت پر پیدا کیا ہے اس کا اصل تقاضا دین اسلام ہی ہے۔ اسلام ہی انسان کی جسمانی اور روحانی ضرورتوں کا کفیل ہے۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کے مبلغین اور معلمین کو ہمیشہ یہ تاکید فرمائی کہ وہ دین کو پیچیدہ اور دشوار بنا کر پیش نہ کریں۔
یسر کا فائدہ:
حدیث مبارک میں آسانی پیدا کرنے اور تنگی سے بچانے کی مراد یہ ہے کہ اگر دین اسلام کسی معاملے میں رخصت اور سہولت مہیا کرتا ہے، یا کرنے اور نہ کرنے، ہر دو طرح کا اختیار دیتا ہے، تو ایسے معاملات میں سختی نہ کی جائے، بلکہ موقع محل دیکھ کر مناسب انداز میں حکم شرع بیان کر دیا جائے، مثلا اشراق وچاشت اور دیگر نوافل، فرض و لازم نہیں ہیں، لہذا لوگوں کو اس نوعیت کے احکام کا سختی سے پابند بنانے کی کوشش نہ کی جائے، ورنہ وہ دین سے دور ہو جائیں گے۔ ہاں نوافل کی محبت پیدا کرنے کے لیے فضائل بیان کرتے رہا جائے، تا کہ آہستہ آہستہ وہ نوافل بھی پڑھنے لگیں کہ بلاشبہ نوافل ﷲ کے قرب کا بہترین ذریعہ ہیں۔
اسلام میں تخفیف اور تیسیر کی دلیل:
تیسیر اور تخفیف (نرمی اور آسانی) ﷲ تعالی اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہے۔
ﷲ تعالی فرماتا ہے:
رسول کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
ﷲ کے ہاں بہترین دین وہ ہے جس میں حنیفیت ہو اور آسانی ہو۔
حضرت عائشہ رضی ﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جب بھی دو امور کے بارے میں اختیار دیا جاتا تھا تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے آسان پہلو کو چن لیتے تھے، سوائے اس کے کہ وہ کوئی گناہ کا معاملہ ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ اس سے دور رہتے تھے۔ (متفق علیہ)
آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
پھر رخصت اور تیسیر (سہولت) کو اختیار کرنا اس وقت زیادہ ضروری ہو جاتا ہے جب بیماری یا بڑھاپے یا زیادہ مشقت یا اس طرح کی کسی اور وجہ سے اس کی حاجت محسوس کی جائے۔
حضرت جابر بن عبدﷲ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ایک سفر میں تھے، آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کسی جگہ ہجوم دیکھا۔ لوگ ایک آدمی پر جھکے ہوئے تھے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اسے کیا ہوا ہے؟
لوگوں نے کہا: اس نے روزہ رکھا ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
قرآن اور دائرہ تیسیر:
مذکورہ بالا آیات کے علاوہ دیگر بہت سی آیتیں ہیں جن میں سہولت اور نرمی پر مبنی احکامات کو ذکر کیا گیا ہے۔ اشارۃ چند احکامات درج ذیل ہیں۔
1: حج کی فرضیت کو استطاعت کی سہولت کے ساتھ مشروط کیا گیا۔
2: خطاءً قتل ہونے کی صورت میں حکم قصاص نہیں رکھا گیا، بلکہ دیت مقرر کی گئی، کیونکہ قاتل نے عمدا قتل نہیں کیا تھا، لہذا اس کی جان بچائی گئی اور دیت مقرر کی گئی۔
3: کفارہ ظہار میں تیسیرا تین اختیارات دیے گئے۔ اولا غلام کو ازآد کرنا، ورنہ مسلسل ساٹھ روزے، ورنہ ساٹھ مساکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا۔
4: کفارہ یمین میں بھی تیسیر یعنی نرمی کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
5: مقروض کی تنگدستی اور مجبوری کی بناء پر قرض دینے والے کو حکم تیسیر و رفق(نرمی) دیا گیا۔
6: اضطراری حالات میں ہمارا دین فطرت وسعت کا وسیع باب کھولتا ہے، جس کے احکامات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ بہت سی ممنوعہ اشیاء کے بقدر ضرورت استعمال کو جائز قرار دے دیتا ہے۔
7: جس تدریجی انداز میں شراب کو ممنوع کیا گیا، وہ اسلام کے اصولِ تیسیر کی بڑی واضح دلیل ہے۔
احادیث اور دائرہ تیسیر:
بخاری شریف میں ہے:
نبی پاک صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے، آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور میری خواہش ہوتی ہے کہ نماز کو لمبا کروں، مگر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں، کیونکہ اس بات کو برا سمجھتا ہوں کہ اس کی ماں کے لیے آزمائش پیدا کروں۔
حضرت ابو مسعود انصاری رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی پاک صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ یارسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم! ہو سکتا ہے کہ میں جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کر سکوں، کیونکہ فلاں شخص ہمیں بہت طویل قراءت کے ساتھ نماز پڑھاتا ہے، حضرت ابو مسعود رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے کے لحاظ سے اس دن سے زیادہ کبھی نبی پاک صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جلال میں نہیں دیکھا، آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! تم ﷲ کے بندوں کو دین سے دور کرتے ہو، اب جو شخص بھی لوگوں کو نماز پڑھائے اسے چاہیے کہ قراءت میں تخفیف کرے، کیونکہ نمازیوں میں بیمار، کمزور جان اور ضرورت مند لوگ بھی ہوتے ہیں۔ (دین آسان ہے, 2015)
یسر کی ایک مثال:
یسر کی مندرجہ بالا بحث کرنے کے بعد ایک اور مثال سے مزید وضاحت کی جاتی ہے۔ یہ ایک بنیادی حکم ہے کہ مسلمان رمضان میں روزے رکھیں گے۔ اب حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جس علاقہ میں روزوں کا حکم دیا تھا، اس کا شمار دنیا کے گرم ترین مقامات میں ہوتا ہے۔ وہاں اس زمانے سے لے صحابہ، تابعین اور اب تک لوگ روزہ رکھتے چلے آرہے ہیں۔ گویا گرم سے گرم علاقے میں جہاں رات دن معتدل ہوں انسان روزہ رکھ سکتا ہے اور شریعت کے اس حکم پر عمل ہو سکتا ہے۔ لیکن بعض ایسے علاقے بھی ہیں جہاں دن رات کی یہ مدت حد اعتدال سے بڑھ جائے تو وہاں شریعت نے یسر کے حکم پر عمل کرنے کی تلقین کی ہے۔
آج سکینڈے نیویا اور ناروے کے ممالک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چھ مہینے کا دن ہوتا ہے اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے۔ لیکن مسلمان اس میں چھ مہینے کا روزہ نہیں رکھتے۔ مسلمان اپنے نارمل دن رات کے حساب سے اوقات کی تقسیم کرتے ہیں۔ اسی کے حساب سے نماز پڑھتے ہیں اور اسی کے حساب سے روزے رکھتے ہیں۔ یہ شریعت میں یسر کی ایک مثال ہے۔ (شریعت اسلامیہ کا تعارف)
خلاصہ کلام:
یہ بات بالکل درست ہے کہ ﷲ تعالی یُسر کا ارادہ فرماتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ "الدین یسر" دین آسانی دیتا ہے۔ لیکن آسانی کا مطلب احکام شریعت سے فرار نہیں بلکہ ان کی بجا آوری میں ضرورت کے مطابق سہولت مہیا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص یسر کے نام پر دینی احکام پر عمل سے ہی بچنا چاہتا ہے تو اس کا نام فرار ہے یسر نہیں ہے۔ یُسر کا معنٰی یہ ہے کہ ایک شخص شرعی حکم پر عمل کرنا چاہتا ہے لیکن عمل میں کوئی دشواری محسوس کر رہا ہے تو شریعت اس کی ہمت اور دشواری دونوں کو دیکھ کر ضرورت کے مطابق آسانی ضرور فراہم کرتی ہے،ﷲ تعالی ہمیں احکام شریعت پر صدق دل کے ساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائیں، امین یا رب العالمین۔ (دین میں عُسر اور یُسر کا مفہوم, 2014)
یسر کے لغوی معنی آسانی، آسان ہونا، ممکن ہونا، نرم ہونا، قابو میں ہونا، کسی کام میں کسی کے لئے آسانی پیدا کرنا وغیرہ کے آتے ہیں۔ تخفیف اور تیسیر اس کے مترادف الفاظ ہیں۔
اسلام سلامتی اور خیر خواہی کا دین ہے۔ اسلام دین فطرت ہے۔ﷲ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو جس طبیعت پر پیدا کیا ہے اس کا اصل تقاضا دین اسلام ہی ہے۔ اسلام ہی انسان کی جسمانی اور روحانی ضرورتوں کا کفیل ہے۔ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کے مبلغین اور معلمین کو ہمیشہ یہ تاکید فرمائی کہ وہ دین کو پیچیدہ اور دشوار بنا کر پیش نہ کریں۔
یسر کا فائدہ:
حدیث مبارک میں آسانی پیدا کرنے اور تنگی سے بچانے کی مراد یہ ہے کہ اگر دین اسلام کسی معاملے میں رخصت اور سہولت مہیا کرتا ہے، یا کرنے اور نہ کرنے، ہر دو طرح کا اختیار دیتا ہے، تو ایسے معاملات میں سختی نہ کی جائے، بلکہ موقع محل دیکھ کر مناسب انداز میں حکم شرع بیان کر دیا جائے، مثلا اشراق وچاشت اور دیگر نوافل، فرض و لازم نہیں ہیں، لہذا لوگوں کو اس نوعیت کے احکام کا سختی سے پابند بنانے کی کوشش نہ کی جائے، ورنہ وہ دین سے دور ہو جائیں گے۔ ہاں نوافل کی محبت پیدا کرنے کے لیے فضائل بیان کرتے رہا جائے، تا کہ آہستہ آہستہ وہ نوافل بھی پڑھنے لگیں کہ بلاشبہ نوافل ﷲ کے قرب کا بہترین ذریعہ ہیں۔
اسلام میں تخفیف اور تیسیر کی دلیل:
تیسیر اور تخفیف (نرمی اور آسانی) ﷲ تعالی اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہے۔
ﷲ تعالی فرماتا ہے:
یُرِیْدُ اﷲُ بِکُمُآلیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُآلعُسْرَ
ﷲ تم پر آسانی چاہتا ہے، اور وہ تم پر سختی نہیں چاہتا (سورۃ البقرۃ 185)
يُرِيۡدُ اللّٰهُ اَنۡ يُّخَفِّفَ عَنۡكُمۡۚ وَخُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِيۡفًا
ﷲ تعالی تم پر تخفیف کرنا چاہتا ہے اور انسان کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے (النساء 28)
مَا یُرِیْدُ اﷲُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ
ﷲ تعالی یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں حرج میں مبتلا کردے (سورۃ المائدۃ 6)
ﷲ تم پر آسانی چاہتا ہے، اور وہ تم پر سختی نہیں چاہتا (سورۃ البقرۃ 185)
يُرِيۡدُ اللّٰهُ اَنۡ يُّخَفِّفَ عَنۡكُمۡۚ وَخُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِيۡفًا
ﷲ تعالی تم پر تخفیف کرنا چاہتا ہے اور انسان کو ضعیف پیدا کیا گیا ہے (النساء 28)
مَا یُرِیْدُ اﷲُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ
ﷲ تعالی یہ نہیں چاہتا کہ تمہیں حرج میں مبتلا کردے (سورۃ المائدۃ 6)
رسول کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
تمہارا بہترین دین وہ ہے جس میں آسانی ہو (مسند احمد، بخاری)۔
ﷲ کے ہاں بہترین دین وہ ہے جس میں حنیفیت ہو اور آسانی ہو۔
حضرت عائشہ رضی ﷲ عنھا فرماتی ہیں کہ نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جب بھی دو امور کے بارے میں اختیار دیا جاتا تھا تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ان میں سے آسان پہلو کو چن لیتے تھے، سوائے اس کے کہ وہ کوئی گناہ کا معاملہ ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ اس سے دور رہتے تھے۔ (متفق علیہ)
آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
ﷲ تعالی کو یہ بات پسند ہے کہ اس کی دی گئی رخصتوں پر عمل کیا جائے، جیسا کہ وہ یہ بات ناپسند کرتا ہے کہ اس کی معصیت کی جائے (احمد، بیہقی)
پھر رخصت اور تیسیر (سہولت) کو اختیار کرنا اس وقت زیادہ ضروری ہو جاتا ہے جب بیماری یا بڑھاپے یا زیادہ مشقت یا اس طرح کی کسی اور وجہ سے اس کی حاجت محسوس کی جائے۔
حضرت جابر بن عبدﷲ روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ایک سفر میں تھے، آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کسی جگہ ہجوم دیکھا۔ لوگ ایک آدمی پر جھکے ہوئے تھے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا اسے کیا ہوا ہے؟
لوگوں نے کہا: اس نے روزہ رکھا ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
سفر میں (ایسا) روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے (متفق علیہ)
قرآن اور دائرہ تیسیر:
مذکورہ بالا آیات کے علاوہ دیگر بہت سی آیتیں ہیں جن میں سہولت اور نرمی پر مبنی احکامات کو ذکر کیا گیا ہے۔ اشارۃ چند احکامات درج ذیل ہیں۔
1: حج کی فرضیت کو استطاعت کی سہولت کے ساتھ مشروط کیا گیا۔
2: خطاءً قتل ہونے کی صورت میں حکم قصاص نہیں رکھا گیا، بلکہ دیت مقرر کی گئی، کیونکہ قاتل نے عمدا قتل نہیں کیا تھا، لہذا اس کی جان بچائی گئی اور دیت مقرر کی گئی۔
3: کفارہ ظہار میں تیسیرا تین اختیارات دیے گئے۔ اولا غلام کو ازآد کرنا، ورنہ مسلسل ساٹھ روزے، ورنہ ساٹھ مساکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا۔
4: کفارہ یمین میں بھی تیسیر یعنی نرمی کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
5: مقروض کی تنگدستی اور مجبوری کی بناء پر قرض دینے والے کو حکم تیسیر و رفق(نرمی) دیا گیا۔
6: اضطراری حالات میں ہمارا دین فطرت وسعت کا وسیع باب کھولتا ہے، جس کے احکامات ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ بہت سی ممنوعہ اشیاء کے بقدر ضرورت استعمال کو جائز قرار دے دیتا ہے۔
7: جس تدریجی انداز میں شراب کو ممنوع کیا گیا، وہ اسلام کے اصولِ تیسیر کی بڑی واضح دلیل ہے۔
احادیث اور دائرہ تیسیر:
بخاری شریف میں ہے:
نبی پاک صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے، آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں اور میری خواہش ہوتی ہے کہ نماز کو لمبا کروں، مگر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں، تو نماز کو مختصر کر دیتا ہوں، کیونکہ اس بات کو برا سمجھتا ہوں کہ اس کی ماں کے لیے آزمائش پیدا کروں۔
حضرت ابو مسعود انصاری رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی پاک صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کی کہ یارسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم! ہو سکتا ہے کہ میں جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کر سکوں، کیونکہ فلاں شخص ہمیں بہت طویل قراءت کے ساتھ نماز پڑھاتا ہے، حضرت ابو مسعود رضی ﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے کے لحاظ سے اس دن سے زیادہ کبھی نبی پاک صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جلال میں نہیں دیکھا، آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! تم ﷲ کے بندوں کو دین سے دور کرتے ہو، اب جو شخص بھی لوگوں کو نماز پڑھائے اسے چاہیے کہ قراءت میں تخفیف کرے، کیونکہ نمازیوں میں بیمار، کمزور جان اور ضرورت مند لوگ بھی ہوتے ہیں۔ (دین آسان ہے, 2015)
یسر کی ایک مثال:
یسر کی مندرجہ بالا بحث کرنے کے بعد ایک اور مثال سے مزید وضاحت کی جاتی ہے۔ یہ ایک بنیادی حکم ہے کہ مسلمان رمضان میں روزے رکھیں گے۔ اب حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جس علاقہ میں روزوں کا حکم دیا تھا، اس کا شمار دنیا کے گرم ترین مقامات میں ہوتا ہے۔ وہاں اس زمانے سے لے صحابہ، تابعین اور اب تک لوگ روزہ رکھتے چلے آرہے ہیں۔ گویا گرم سے گرم علاقے میں جہاں رات دن معتدل ہوں انسان روزہ رکھ سکتا ہے اور شریعت کے اس حکم پر عمل ہو سکتا ہے۔ لیکن بعض ایسے علاقے بھی ہیں جہاں دن رات کی یہ مدت حد اعتدال سے بڑھ جائے تو وہاں شریعت نے یسر کے حکم پر عمل کرنے کی تلقین کی ہے۔
آج سکینڈے نیویا اور ناروے کے ممالک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چھ مہینے کا دن ہوتا ہے اور چھ مہینے کی رات ہوتی ہے۔ لیکن مسلمان اس میں چھ مہینے کا روزہ نہیں رکھتے۔ مسلمان اپنے نارمل دن رات کے حساب سے اوقات کی تقسیم کرتے ہیں۔ اسی کے حساب سے نماز پڑھتے ہیں اور اسی کے حساب سے روزے رکھتے ہیں۔ یہ شریعت میں یسر کی ایک مثال ہے۔ (شریعت اسلامیہ کا تعارف)
خلاصہ کلام:
یہ بات بالکل درست ہے کہ ﷲ تعالی یُسر کا ارادہ فرماتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ "الدین یسر" دین آسانی دیتا ہے۔ لیکن آسانی کا مطلب احکام شریعت سے فرار نہیں بلکہ ان کی بجا آوری میں ضرورت کے مطابق سہولت مہیا کرنا ہے۔ اگر کوئی شخص یسر کے نام پر دینی احکام پر عمل سے ہی بچنا چاہتا ہے تو اس کا نام فرار ہے یسر نہیں ہے۔ یُسر کا معنٰی یہ ہے کہ ایک شخص شرعی حکم پر عمل کرنا چاہتا ہے لیکن عمل میں کوئی دشواری محسوس کر رہا ہے تو شریعت اس کی ہمت اور دشواری دونوں کو دیکھ کر ضرورت کے مطابق آسانی ضرور فراہم کرتی ہے،ﷲ تعالی ہمیں احکام شریعت پر صدق دل کے ساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائیں، امین یا رب العالمین۔ (دین میں عُسر اور یُسر کا مفہوم, 2014)