قضاء کی ضرورت و اہمیت
قضاء کی ضرورت و اہمیت یعنی مشروعیت کے بہت سے دلائل ہیں۔ جن کی بنیاد قرآن پاک، سنت رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اور اجماع امت ہے۔ ان میں سے اہم دلائل پیش کیے جا رہے ہیں
1) قرآن پاک میں قضاء کی ضرورت و اہمیت کے دلائل:
قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے:
يَا دَاوُوْدُ اِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيْفَةً فِى الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِــعِ الْـهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۚ
اے داؤد! ہم نے تجھے زمیں میں بادشاہ بنایا ہے پس تم لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کیا کرو اور نفس کی خواہش کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں ﷲ کی راہ سے ہٹا دے گی، (سورۃ ص 26)
اے داؤد! ہم نے تجھے زمیں میں بادشاہ بنایا ہے پس تم لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کیا کرو اور نفس کی خواہش کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں ﷲ کی راہ سے ہٹا دے گی، (سورۃ ص 26)
اس طرح ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:
وَاِذَا حَكَمْتُـمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۚ
اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، (سورۃ النساء 58 )
اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، (سورۃ النساء 58 )
ان آیات سے اسلام کے سیاسی و قانونی نظام میں عدل پرستی کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔ ﷲ تعالی نے حضرت داؤد علیہ السلام کو خلافت الہی اور نیابت خداوندی کی ذمہ داریاں سونپی تھیں اور پہلا کام جو ان کے سپرد تھا وہ لوگوں کے درمیان حق و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا تھا۔ انہی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین کرام نے لکھا ہے کہ اسلامی نظام عدل کا قیام اسلامی ریاست کے اولین فرائض میں سے ہے۔
عدل و انصاف کے قیام اور قضاء کو معاشرے میں لازم کرنا مسلمانوں کے فرائض میں سے ایک فرض ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
اِنَّمَا كَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذَا دُعُوۡۤا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ لِيَحۡكُمَ بَيۡنَهُمۡ اَنۡ يَّقُوۡلُوۡا سَمِعۡنَا وَاَطَعۡنَاؕ وَاُولٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ
ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں ﷲ اور اس کے رسول (صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہو گئے، اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (سورۃ نور 51)
ایمان والوں کی بات تو فقط یہ ہوتی ہے کہ جب انہیں ﷲ اور اس کے رسول (صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ فرمائے تو وہ یہی کچھ کہیں کہ ہم نے سن لیا، اور ہم (سراپا) اطاعت پیرا ہو گئے، اور ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ (سورۃ نور 51)
یعنی ایک سچے مسلمان کی شان یہ ہے کہ جب اس کو کسی معاملہ میں یہ کہا جائے کہ آؤ اس کا فیصلہ خدا اور رسول صلی ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قانون کے مطابق کرا لو تو فورا لبیک کہہ اٹھتا ہے اور خوشی خوشی اس کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص ﷲ اور رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے قانون کو قبول کرنے میں تامل کرتا ہے اس کے ایمان میں اتنا ہی کھوٹ ہے جتنا وہ تامل کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
ان آیات کے علاوہ اور بھی کئی آیات ہیں جن سے قضاء کی ضرورت و اہمیت پر روشنی پڑتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
وَاِنۡ حَكَمۡتَ فَاحۡكُمۡ بَيۡنَهُمۡ بِالۡقِسۡطِ
اور اگر آپ فیصلہ فرمائیں تو ان کے درمیان (بھی) عدل سے (ہی) فیصلہ فرمائیں (سورۃ المائدۃ 42)
اور اگر آپ فیصلہ فرمائیں تو ان کے درمیان (بھی) عدل سے (ہی) فیصلہ فرمائیں (سورۃ المائدۃ 42)
ایک اور جگہ پر ارشاد ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوۡكَ فِيۡمَا شَجَرَ بَيۡنَهُمۡ ثُمَّ لَا يَجِدُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيۡتَ وَيُسَلِّمُوۡا تَسۡلِيۡمًا
پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں (سورۃ النساء 65 )
پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں (سورۃ النساء 65 )
نہ صرف ان آیات میں بلکہ قضاء سے متعلق کئی اور آیت میں بھی ﷲ تعالی نے قضاء کے نظام کے قیام کی ہدایات دی ہیں۔
2) سنت رسول ﷲ میں قضاء کی ضرورت و اہمیت کے دلائل:
نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے بذات خود بھی کئی فیصلے کئے جو کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے فرائض نبوت میں شامل تھا۔ اسی طرح آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی ﷲ تعالی عنہم کو مختلف علاقوں میں قضاء کے لیے بھیجا۔ حضرت عمرو ابن العاص نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے رویات کرتے ہیں آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
اذا اجتھد الحاکم فاصاب، فلہ اجران و اذا اجتھد فاخطا فلہ اجر
آنحضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم ﷲ وجہہ کو یمن میں قضاء کے لیے روانہ فرمایا۔ اسی طرح حضرت معاذ رضی ﷲ تعالی عنہ کو روانہ فرمایا اور روانگی سے قبل ان کا امتحان لیا چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا آپ کیسے فیصلہ کریں گے، انہوں نے جواب دیا ﷲ کی کتاب سے، آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا اگر آپ کو قرآن میں نہ ملے تو انہوں نے کہا میں سنت رسول سے فیصلہ کرونگا۔ آپ نے فرمایا اگر سنت رسول ﷲ میں نہ پایا تو اس پر انہوں نے عرض کیا میں اپنی رائے سے اجتہاد کرونگا۔ اس پر رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ﷲ کا شکر ہے جس نے رسول ﷲ کے رسول کو صحیح فیصلہ کرنے کی توفیق بخشی۔
3) اجماع امت سے قضاء کی ضرورت و اہمیت کے دلائل:
اجماع امت میں قضاء کی ضرورت و اہمیت کے بہت دلائل ہیں۔ خلفاء راشدین نے نہ صرف خود فیصلے کئے بلکہ مختلف صحابہ رضی ﷲ تعالی عنہم کو بھی قضاء کے مناصب پر متعین فرمایا، چنانچہ حضرت عمر رضی ﷲ تعالی عنہ نے حضرت ابو موسی اشعری کو بصرہ میں قاضی کے منصب پر متعین کیا جب کہ حضرت عبدﷲ بن مسعود کو کوفہ میں قاضی مقرر فرمایا۔
علماء اسلام کا قضاء کے بارے میں اجماع ہے کہ نظام قضاء کا قیام اسلامی ریاست میں ضروری ہے کیوں کہ اسی کے ذریعے لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہوتا ہے۔ مظلوم کی مدد ہوتی ہے اور ظالم کا ہاتھ روکا جاتا ہے۔ حاکم وقت کے لیے ضروری ہے کہ نظام قضاء کو قائم کرے۔ اسی ضمن میں فقہاء کا ایک قول ہے کہ قضاء فرض کفایہ میں سے ہے۔ یہ ان مناصب حکومت میں سے ایک منصب ہے جو کہ خلافت شرعیہ کے ماتحت ہیں کیونکہ یہ منصب جھگڑوں کو نمٹانے اور لوگوں کے تنازعات کو احکام شرعیہ کے مطابق طے کرنے کے لیے ہے۔ (اسلامی قانون میں عدالتی طریقہ کار, 2018)